عذر شرعی کی بنیاد پر طواف زیارت ادا کرنے میں تاخیر ہوگئی تو کیا حکم ہے

ازقلم: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

السلام عليكم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہندہ حج کے لیے گئ اور دسویں ذی الحجہ کو گم ہو گئی، اور وہ 12 ذی الحجہ کو صبح کے وقت ملی، اس حال میں کہ بھوک اور پیاس سے نڈھال تھی، جس کے سبب وہ طواف زیارت نہ کر سکی، اور 12 ذی الحجہ کا دن بھی گزر گیا، پھر 13 ذی الحجہ کو اس نے 3 چکر لگائے، اور اس کی طاقت جواب دے گئی، پھر 14 ذی الحجہ کو اس نے 4 چکر لگائے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ہندہ کا طواف زیارت صحیح طور پر ادا ہوا، یا نہیں ۔ بالتفصیل جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔ 

الجواب بعون الملک الوھاب

اللھم ھدایة الحق والصواب

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ

طوافِ زیارت کا وقت دسویں ذو الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور اخیر عمر تک رہتا ہے ، البتہ اس کے واجب رہنے کا وقت بارہویں ذی الحجہ کے غروبِ آفتاب تک ہے ، اس کے بعد اگر بلاعذر تاخیر ہوئی تو گو کہ فرض ادا ہوجائے گا ، مگر ترکِ واجب کی وجہ سے ایک دم جنایت لازم ہوگا۔

لہٰذا واضح ہوا کہ اگر کسی نے کسی عذر شرعی(مثلا حیض ، نفاس یا شدید ترین کمزوری یا بیماری) کی بنیاد پر١٢/ ویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب کے بعد  ١٣/ ذی الحجہ یا اس کے بعد  طواف زیارت کیا تو وہ طواف بلا کراہت درست ہے اور ایسی صورت میں کوئی جنایت بھی لازم نہ ہوگی اور گناہ بھی نہ ہوگا ۔ جیساکہ غنیة الناسک ۱۷۸ ، بدائع الصنائع جلد ثانی ، ص۳۱۴-۳۱٦ میں ہے: "واول وقتہ طلوع الفجر الثانی من یوم النحر فلا یصح قبلہ ویمتد وقت صحتہ الی اٰخر العمر لکن یجب فعلہ فی ایام النحر ولیالیھا المتخللة بینھما منھا، فلو اخرہ عنھا ولو الی الیوم الرابع الذی ھو اٰخر ایام التشریق ولیلتہ منہ کرہ تحریماً ولزمہ دم وھوالصحیح۔

در مختار مع رد المحتار ، جلد ثالث کتاب الحج میں ہے:  "و یمتد وقتہ الی آخر العمر ، فان اخرہ عنھا ای : ایام النحر و لیالیھا منھا کرہ تحریماً و وجب دم لترک الواجب ، و ھذا عند الامکان ، فلو طھرت الحائض ان قدر اربعة اشواط ولم تفعل لزمہ دم والا لا اھ ۔

و قال في غنیة الناسک ، جلد اول ، باب الجنایات ، ص: ۱۲۸: "الا فیما وردبہ النص وھو ترک الوقوف بمزدلفة لخوف الزحام او الضعف وتاخیر طواف الزیارة من ایامہ لحیض او نفاس او حبس او مرض ولم یوجد لہ حامل او لم یتحمل الحمل الخ"۔

ان عبارات مذکورہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر طواف زیارت کرنے میں کسی عذر شرعی کی بنیاد پر تاخیر ہوجائے مثلاً سخت ترین بیمار ہوگیا یا عورت حائضہ ہوگئی اور ۱۲/ ذی الحجہ تک وہ عذر قائم رہا تو یہ تاخیر معاف ہوگی اور اس صورت میں کوئی دم وغیرہ بھی واجب نہ ہوگا۔

تو سوال میں مذکور ہندہ کا طواف زیارت ادا ہوچکا اس پر کوئی دم وغیرہ واجب نہیں ۔

فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے طواف زیارت تو نہیں کیا، لیکن وقوف عرفہ کے بعد کوئی بھی طواف کیا ہے ، مثلاً طواف وداع ، یا عام نفلی طواف یا مجموعی طور پر کم از کم چار چکر (ساڑھے تین سے زائد چکر) طواف کیا تو اس صورت میں یہ پورا طواف یا مجموعی طور پر چار چکر کا طواف طواف زیارت شمار ہوجائے گا،البتہ اگر اس نے صرف طواف وداع کیا تو چوں کہ اس صورت میں طواف وداع کو طواف زیارت قرار دینے کی وجہ سے طواف وداع ترک ہوا جو واجب ہے، پس ایک دم واجب ہوگا، اور اگر مجموعی طور پر صرف چار چکر طواف کیا ہے تو طواف زیارت کے جو چکر رہ گئے، ان کی وجہ سے بھی ایک دم واجب ہوگا ، اور اگر یہ طواف یا مجموعی طور پر صرف چار چکر ۱۲/ ذی الحجہ کے بعد ہوئے ہیں اور یہ تاخیر عذر شرعی کے بغیر ہوئی ہے تو تاخیر کی وجہ سے بھی ایک دم دینا ہوگا۔ بہر حال اس صورت میں مکہ مکرمہ جاکر طواف زیارت یا طواف وداع ادا کرنے کی ضرورت نہیں، صرف حدود حرم میں دم کا جانور ذبح کرادینا کافی ہے۔

قال في مجمع الانھر جلد اول ، ص : ۴۳۵/ میں ہے: "ولو ترک طواف الرکن او اربعة منہ بقي محرماً ابداً وان رجع الی اھلہ(حتی یطوفھا) ای : یقع اربعة منہ بذلک الاحرام؛ لانہ رکن فلا یجوز عنہ بدل اھ۔

وقال فی الدر المنتقی مع المجمع جلد اول ، ص: ۴۳۵، ۴٣٦/ میں ہے : "ولو ترک طواف الرکن او اربعة منہ بقي محرماً ابداً في حق النساء و ان رجع الی اھلہ (حتی یطوفھا) بذلک الاحرام فکلما جامع لزمہ دم اذا تعددت المجالس الا ان یقصد رفض الاحرام بالجماع کما فی الفتح، وذلک لانہ رکن فلا یجوز عنہ بدل ، قلت: وھذا اذا لم یطف بعد الوقوف غیرہ حتی لو طاف للصدر انتقل الی الفرض ما یکملہ ، ثم ان بقي اقل الصدر فصدقة والا فدم کما حررتہ في شرح التنویر ، والحاصل ان ای طواف حصل بعد الوقوف کان للفرض کما فی الشرنبلالی وغیرھا فلیحفظ اھ.

ان عبارات سے بھی یہ بات ظاہر ہوگئی کہ سوال میں مذکور ہندہ کا طواف زیارت ادا ہوچکا اور اس پر کوئی گناہ اور دم و کفارہ بھی واجب نہیں۔ فقط واللہ تعالی و رسولہ المجتی صلی اللہ علیہ وسلم

واللہ اعلم بالصواب

Post a Comment

0 Comments