سوال:
چشمہ پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں
الجواب:
نماز میں سجدہ ایک اہم رکن ہے اور سجدہ کی ادائیگی میں دیگر ارکان سے زیادہ شرطیں موجود ہیں لہذا اس کی رعایت کئے بغیر سجدہ نامکمل ہوگا.
سجدہ میں پیشانی کے ساتھ ناک کی نرم ہڈی کا زمین میں جمنا ناگزیر ہے اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بلا ضرورت زمین پر نہ رکھی گئی تو نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی.
رہی بات چشمہ کی توچشمہ اگر آنکھوں کے حلقوں میں اس طرح فکس ہو جاتا ہے کہ سجدہ کرتے وقت ناک کی نرم ہڈی زمین پر رکھنے سے نہ روکے تو بلا کراہت چشمہ پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے ورنہ نہیں یعنی اگر چشمہ، ناک زمین پر رکھنے سے مانع ہو یا اس کی رعایت کرنے کی وجہ سے سنت طریقہ پر سجدہ نہ کر پائے تو نماز مکروہ ہوگی البتہ چشمہ اتار کر نماز پڑھنا افضل ہے. واللہ اعلم بالصواب
حوالہ جات :
کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں اگر عینک کا حلقہ یا قیمیں چاندی یا سونے کی ہیں تو ایسی عینک ناجائز ہے اور نماز اس کی اور مقتدیوں سب کی سخت مکروہ ہوتی ہے ورنہ تانبے یا اور دھات کی ہوں تو بہتر یہ ہے کہ نماز پڑھتے میں اتار لے ورنہ یہ خلاف اولیٰ اور کراہت سے خالی نہیں
فتاویٰ رضویہ ج 7 ص 318 رضافاؤنڈیشن دروازہ لاہور
اور حضور فقیہ اعظم ہند صدرالشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں چشمہ لگاکر نماز پڑھنا جائز ہے ضرورت سے ہو یا بغیر ضرورت. (فتاویٰ امجدیہ ج 1 ص 137)
کتبہ :
محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی
استاذ مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال
0 Comments