سوال:
(١) ہمارے علاقے میں یہ بات مشہور ہے کہ جب بچہ کا عقیقہ کیا جاتا ہے ، تو بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ عقیقہ کے جانور کا گوشت بچہ کے والدین ، دادا ، دادی اور نانا ، نانی کو نہیں کھانا چاہیے ۔ پس اسی وجہ سے بچہ کے والدین ، دادا ، دادی اور نانا ، نانی وغیرہ یہ سب لوگ عقیقہ کے جانور کا ایک ٹکڑا گوشت بھی نہیں کھاتے ہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ بات کس حد تک درست ہے؟
(٢)اور عقیقہ کے روز بچے کو جو تحفہ ، تحائف اور پیسے وغیرہ دئے جاتے ہیں وہ لینا کیسا؟
جواب:
(١)واضح رہے کہ عقیقہ کے جانور کا گوشت جس طرح دگر رشتے دار و احباب کھاسکتے ہیں اسی طرح بچہ کے والدین، دادا، دادی، نانا، نانی بھی کھا سکتے ہیں، لہذا یہ بات جو مشہور ہے کہ عقیقہ کے جانور کا گوشت بچہ کے والدین، دادا، دادی اور نانا، نانی نہیں کھا سکتے ہیں، غلط ہے، شریعتِ مطہرہ میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔
کما کتب فی اعلاء السنن:
"وأنه يستحب الأكل منها والإطعام و التصدق كما في الأضحية فما اشتهر على السنة العوام أن أصول المولود لايأكلون منها لا أصل له
(کتاب الذبائح ، باب أفضلية ذبح الشاة في العقيقة ، ج: ١٧، ص:١١٨)
اعلیٰ حضرت امام اھل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ جدید ، جلد ٢٠/ص:۵٨٦/ میں فرماتے ہیں: "عقیقہ کا گوشت آباء و اجدا بھی کھا سکتے ہیں“۔
اور حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں:
”عوام میں یہ بہت مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت بچہ کے ماں باپ اور دادا دادی ، نانا نانی نہ کھائیں ، یہ محض غلط ہے ، اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔“
(بھارِ شریعت ، حصہ ١۵/جلد سوم ، ص: ٣۵٧)
ایسا ہی فتاویٰ امجدیہ ، جلد سوم ، ص: ٣٠٢۔ وفتاوی بحرالعلوم ، جلد پنجم ، ص: ١٨١/ میں بھی ہے)
(٢)شادی میں جس طرح لوگ نقدی کپڑے یا دوسری چیزیں دیتے ہیں وہ لینا جائز هے اسی طرح عقیقہ اور ختنہ میں بهی لینا جائز هے۔
(ملخصٙٙااز:وقارالفتاوی، جلد سوم ، ص: ١۴٠)
فقط واللہ ورسولہ عالم
انتباہ خاص:
ہمارے علاقائی لوگوں کا حال بھی بڑا عجیب ہے جو کرنا چاہیے وہ تو کرتے نہیں ہیں اور جن باتوں کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اسے از خود اپنے اوپر لازم کرلیتے ہیں ۔
بہتر اور مستحب یہی ہے کہ بچے کا بال ساتویں دن نام رکھا جائے ، اس کا سر مونڈا جائے اور پھر اس کے وزن کے برابر چاندی یا سونا یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی قیمت صدقہ کرکے اسی دن اس کا عقیقہ کیا جائے ۔اگر اس دن نہ ہوسکے تو پھر چودہویں دن یا پھر اکیسویں دن کیا جائے ۔ اور مونڈے ہوئے بالوں کو کسی جگہ دفن کردیا جائے۔ جیساکہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’ہر بچہ/ بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سرمنڈوایا جائے۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ ، نسائی، مسند احمد)
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"ساتویں دن اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سرمونڈا جائے اور سر مونڈنے کے وقت عقیقہ کیا جائے۔ اور بالوں کو وزن کر کے اُتنی چاندی یا سونا صدقہ کیا جائے۔
(بہارِشریعت ، جلد سوم ص: ٣۵۵)
مزید فرماتے ہیں :
عقیقہ کے لیے ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہو جائے گی۔ بعض نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اکیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچہ پیدا ہو اوس دن کو یاد رکھیں اوس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے وہ ساتواں ہوگا مثلاًجمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتویں دن ہے اور سنیچر کو پیدا ہوا تو ساتویں دن جمعہ ہوگا پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو عقیقہ کریگا اس میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا (بہارِشریعت ،جلد سوم ،ص٣۵٦)
ان باتوں کا تو لحاظ کرتے نہیں ۔ حال یہ ہے کہ پیدا ہونے کے ایک یا دو دن بعد ہی جنم داخلہ بنوالیتے ہیں ، اور ساتویں یا چودہویں یا اکیسویں دن کا لحاظ کئے بغیر جس دن ان کو فرصت ہوتی ہے اُسی دن عقیقہ کرتے ہیں ، سر بھی پہلے یا پھر بعد میں اترواتے ہیں اور بال کے وزن برابر چاندی یا سونا شاید باید کوئی صدقہ نکالتے ہیں ۔ بس کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ عوام لوگ ایسے ہیں نا ۔
کہ جو کام جس دن کرنا زیادہ اچھا ہے وہ تو کرتے نہیں۔مگر شریعت نے جس کام کرنے کا کوئی حکم ہی نہیں دیا ہے اس پر ایسے عمل کرتے ہیں لگتا ہے فرض عین ہے ۔ جن چیزوں سے بچنا چاہیے اس اس سے تو بچتے نہیں مگر شریعت نے جس چیز سے روکا نہیں ان چیزوں کو کرنے سے ایسا پرہیز کرتے ہیں کہ لگتا ہے حرام قطعی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔
نوٹ
صاحبان علم وادب سے مؤدبانہ ومخلصانہ گزارش ہے کہ کہیں کوئی غلطی نظر آئے تو اصلاح سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں۔
کتبہ
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
(خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام ومرکزی دارالافتا وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ،واگرہ، بھروچ ،گجرات ۔
١٣/ ربیع الآخر ١۴۴۵
٢٩/اکتوبر ٢٠٢٣
0 Comments