کیا وقوع طلاق کے لیے بیوی کو طلاق کے الفاظ سننا ضروری ہے، کیا حمل کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی

سوال:

کیا وقوع طلاق کے لیے بیوی کو طلاق کے الفاظ سننا ضروری ہے؟

کیا حمل کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی کو میکے جانے سے منع کیا سسرال والوں سے جھگڑا ہونے کی وجہ سے۔ اسی اثنا میں زید کا سسر اپنے داماد کے گھر پہنچ جاتا ہے اور اپنے داماد زید اور اپنی بیٹی سے کہا چلو ہمارے گھر تو زید نے کہا نہ میں جاؤں گا اور نہ ہی آپ کی بیٹی کو جانے دوں گا ۔

سسر اپنی بیٹی کو لے کر جانے لگا تو داماد نے کہا جارہی ہو ۔ اپنا انجام سوچ لینا پھر بھی سسر اپنی بیٹی کو لے کر چلا جاتا ہے پھر شام میں زید اپنے سسر کو فون لگا کر بولتا ہے کہ اپنی بیٹی کو میرے گھر پہنچا دو ورنہ کچھ برا ہو جائے گا پھر سسر کہتا ہے جو کرنا ہے کر لو میں نہیں پہنچاؤں گا اور پھر زید کہتا ہے کہ میں چھوڑ دوں گا تو سسر نے کہا کہ چھوڑ دو میں تیری اولاد تجھے پہنچا دوں گا اور میری بیٹی میرے ہی گھر رہے گی تو زید نے اس کے جواب میں تین طلاق دے کر چھوڑ دیا۔ اور طلاق کی آواز اس کی بیوی نے نہیں سنا اور اس کی بیوی حالت حمل سے ہے؟طاب امر طلب یہ ہے کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوئی کہ نہیں ؟ اگر ہوئی تو کتنی اور اس کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں ۔

الجواب بعون الملک الوھاب

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ

برتقدیر صدق استفتا ۔

صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئیں اگرچہ اس کی بیوی نے طلاق کی آواز کو نہیں سنا ہے۔

اب اگر زید اپنی بیوی کو رکھنا چاہے تو حلالہ کے بغیر نہیں رکھ سکتا ۔ اور حلالہ کی صورت یہ ہوگی کہ زید کی بیوی کو زید کی طلاق کی عدت وضعِ حمل (یعنی بچہ جننے کے بعد) کے بعد کسی دوسرے سے مرد نکاح کرنا ہوگا پھر وہ دوسرا شوہر کم از کم ایک بار اس کے ساتھ ہمبستری کرے گا پھر جب وہ دوسرا مرد فوت ہوجائے یا طلاق دیدے گا تو پھر زید کی بیوی اپنے شوہر ثانی کی عدت گزارے گی اس کے بعد اب پھر زید کو اپنی بیوی سے نکاح کرنا ہوگا۔ اس طرح کے مراحل سے گزرنے کے بعد ہی زید اپنی بیوی کو دوبارہ رکھ سکتا ہے ورنہ نہیں ۔

اگر یوں ہی رکھ لیا اور حلالہ وغیرہ نہیں کروایا تو ان دونوں کا ایک ساتھ رہنا ناجائز و حرام ہوگا اور میاں بیوی جیسا جو بھی ازدواجی تعلقات ہوں گے وہ سب کے سب زنا اور گناہ ہوگا ۔ اسی طرح اگر دوسرے شوہر نے ہمبستری کئے بغیر طلاق دے دیا تو زید کی بیوی زید سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتی اگر کرے گی تو نکاح نہیں ہوگا اس لیے کہ حلالہ میں کم سے کم ایک بار ہمبستری شرط ہے۔

اور یاد رہے کہ بیوی پر طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کا طلاق کی آواز کو سننا کوئی ضروری نہیں صرف اس کی طرف اضافت ضروری ہے اور صورت سوال میں اضافت صریح موجود ہے۔ نیز حمل ہونا یہ طلاق کو واقع ہونے سے نہیں روکتا یعنی حمل کی حالت میں بھی طلاق دینے سے طلاق پڑجاتی ہے۔اور اس کی عدت وضع حمل سے مکمل ہوتی ہے۔ یہ ہوا اجمالی جواب اب آئیے اس مسئلہ کو بالتفصیل مع دلائل ملاحظہ کریں۔

چناں چہ صورت مسئولہ میں جب زید نے  اپنی بیوی کو اس کے والد کے باتوں کے جواب میں تین طلاق دے کر چھوڑ دیا تو اگرچہ زید کی بیوی نے براہ راست زید کی زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں سنا تب بھی صورت مسئولہ میں اس پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، وہ زید پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوگئی اور اب حلالہ شرعی سے پہلے کسی صورت میں وہ دوبارہ زید کے نکاح میں نہیں آسکتی۔

کما قال اللّٰہ تعالی:

فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ ۔(سورہ بقرہ آیت: ۲۳۰)

اور سنن ابن ماجة، کتاب الطلاق، باب طلاق العبد، ص:١۵١/ میں ہے:

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

إنما الطلاق لمن أخذ بالساق، وقال ایضا في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود، کتاب الطلاق، باب فی اللعان ص: ٣٠٦)

بدائع الصنائع ، جلد ثالث ، ص: ٢٩۵/ میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل (فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ) وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ۔

فتاوی عالمگیری ، کتاب الطلاق ، باب فی الرجعة ، فصل في ما تحل بہ المطلقة وما یتصل بہ ، جلد اول ، ص: ۴۷۳ / میں ہے:

"وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة…لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة"

بخاری شریف ، جلد دوم ، ص: ٧٩١/ میں ہے:

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا "جاءت امراة رفاعة القریظی الی رسول ﷺ فقالت انی کنت عند رفاعة فطلقنی بنت طلاقی فتزوجت بعدہ عبد الرحمن بن زبیر وما معہ الا مثل ھدبة الثوب فقال اتریدین ان ترجعی الی رفاعة فقالت نعم ؛ قال لا حتی تذوقی عسیلتہ ویذوق عسیلتک ۔ (ھکذا فی المشکوة ، ص: ٢٨٢)

ان ساری عبارات بالا سے یہ بات واضح ہوچکی کہ جب کسی آزاد  مدخولہ عورت کو تین طلاق دی جائے گی تو وہ تینوں طلاقیں مغلظہ اس پر واقع ہوجائیں گی اور بیوی اپنے شوہر پر بحرمت غلیظہ حرام ہوجائے گی اور اب دوبارہ حلال ہونے کے لیے حلالہ شرعیہ صحیحہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔

اب رہی بات یہ کہ بیوی اس وقت موجود نہیں تھی ، اس نے طلاق کے الفاظ کو سنا ہی نہیں ہے تو طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟* تو فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے شوہر کا بیوی کی طرف نسبت کرکے طلاق دینا کافی ہوتا ہے، بیوی کا سننا یا اس کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔اب جب کہ زید نے اپنے سسر کو سناکر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہے تو اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ شریعت نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے۔ اگر اس نے اس اختیار کو استعمال کیا ہے تو اس کا انعقاد ہوجائے گا۔ پس صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر تین طلاق واقع ہوچکی اگرچہ اس کی بیوی نے الفاظِ طلاق کو نہیں سنا ہے اس لیے کہ  قرآن و حدیث میں کہیں یہ صراحت ہے نہ اشارہ کہ بیوی کو طلاق دینے کے لیے بیوی کی موجودگی یا اس کا ضروری ہے۔

اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فتاوی رضویہ ، جلد پنجم ، ص : ٦١٨/ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: طلاق کے لیے عورت کا وہاں حاضر ہونا کچھ شرط نہیں ہے  فانه  ازالة لا عقد کما لایخفی،،۔

اور سوال میں مذکور آپ کا یہ جملہ "اس کی بیوی حمل سے ہے؟" سوالیہ طور پر لکھنا اس کی بات کی طرف اشارہ دے رہا ہے کہ شاید آپ کو اس بارے شک ہورہا ہے کہ حمل کی حالت میں طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ اور ہو بھی سکتا ہے کہ بعض عوام الناس میں یہ بات مشہور ہے کہ حمل کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق نہیں پڑتی ۔ لہذا اس پر کچھ تفصیلی شرعی وضاحت پیش ہے تاکہ آپ کا شک بھی دور ہوجائے اور عوام میں اس بارے جو غلط فہمی ہے اس کا بھی ازالہ ہوجائے ۔

چناں چہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ حاملہ عورت کو بھی اگر حمل کی حالت میں طلاق دی جائے تو طلاق پڑجائے گی اس لیے کہ حمل وقوع طلاق سے مانع نہیں ہے یعنی بیوی حمل سے ہو اور شوہر طلاق دیدے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے اور بچہ کی پیدائش پر عدت ختم ہو جائے گی۔

فقہائے کرام علیھم الرحمة والرضوان فرماتے ہیں :

حمل کی حالت میں حاملہ عورت کو طلاق واقع ہو جاتی ہے اور اس کی عدت وضع حمل (یعنی بچے کو پیدا کرنا) ہے، اللہ پاک نے خود قرآن مجید میں حاملہ عورتوں کی عدت بیان کی ہے، اور عدت تبھی ہو سکتی ہے جب کہ حمل کی حالت میں طلاق واقع ہو۔

*چناں چہ اللہ تعالی، قرآن مقدس ،پارہ ، ٢٨،سورہ طلاق  ، آیت نمبر ۴/ میں فرماتا ہے:*

"وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ

ترجمہ : اور حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں۔

اور سنن کبری للبیهقی ، باب عدۃ الحامل المطلقة ، جلد ثالث ، ص: ١۵۴/ میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہے:

"أنها كانت تحت الزبير فطلقها و هي حامل فذهب الى المسجد فجاء و قد وضعت ما في بطنها فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر له ما صنع فقال : بلغ الكتاب أجله

یعنی وہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجیت میں تھیں، انھوں نے حمل کی حالت میں انھیں طلاق دے دی۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی طرف آرہے تھے ، وہ مسجد میں پہنچے تو ام کلثوم نے اپنے پیٹ میں موجود بچے کو پیدا کیا۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنا معاملہ عرض کیا۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا کتاب اپنی مدت کو پہنچ گئی۔(یعنی قرآن میں حاملہ کی عدت بچہ پیدا ہونا ہے ، وہ عدت پوری ہوگئی۔)

ردالمحتار علی الدرالمختار ، کتاب الطلاق ، باب العدۃ، جلد خامس ، ص: ١٩٢، ١٩٣/ میں ہے:

"(و)فی حق (الحامل) مطلقاً۔۔(وضع) جمیع (حملھا) لان الحمل اسم لجمیع ما فی البطن

اور عدت حاملہ کے حق میں (اس کے) اپنے پورے حمل کو وضع کرنا (جننا) ہے، اس لیے کہ حمل اس تمام کا نام ہے جو پیٹ میں ہے۔

فتاوی عالمگیری ، جلد اول ، ص : ۵٢٨ / میں ہے :

"و عدۃ الحامل أن تضع حملھا کذا فی الکافی

اور حاملہ کی عدت یہ ہے کہ اس کا وضعِ حمل ہو جائے (یعنی بچہ پیدا ہوجائے) ایسے ہی کافی میں ہے۔

*امام اھل سنت ، اعلی حضرت  امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ: "حمل کی حالت میں طلاق دینا جائز ہے یا نہیں؟"

آپ نے جوابٙٙا ارشاد فرمایا: "جائز و حلال ہے اگرچہ ایام حمل میں بلکہ آج ہی بلکہ ابھی ابھی اس سے جماع کرچکا ہو‘‘مزید ایک مقام پر فرمایا:’’عورت کو حمل ہونا مانعِ وقوع طلاق نہیں۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،جلد دوازدہم قدیم ، ص: ٣٧۴ ، ٣٧۵)

*مفتی حبیب اللہ نعیمی اشرفی بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ حبیب الفتاویٰ ، جلد دوم ، ص: ٣٩٦/ میں تحریر فرماتے ہیں :

"حمل مانعِ طلاق شرعاً نہیں ہے۔ بحالتِ حمل عورت پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

*فتاوی بحرالعلوم ، جلد سوم، ص: ٣٧/میں ہے :*

"عورت کو حمل ہو تو شوہر طلاق دے سکتا ہے، "وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ” (الطلاق :۴) حمل والی عورتوں کی عدت وضعِ حمل ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ حمل کی حالت میں طلاق ہو تو جائز ہے جبھی تو عدت وضع حمل بن سکتی ہے”۔

ان ساری عبارات سے یہ واضح ہوتی ہے کہ حالت حمل میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

ہاں ! يہ مسئلہ عام لوگوں ميں چل رہا ہے اور كچھ عوام كا خيال ہے كہ حاملہ عورت كو طلاق واقع نہيں ہوتى*، ہمیں علم نہيں كہ ان كا يہ خيال اور گمان كہاں سے آيا ہے، فقہائے كرام كے كلام ميں اس كى كوئى اصل نہيں ہے۔بلكہ سب اہل علم اس پر متفق ہيں كہ حاملہ عورت كو دى گئى طلاق واقع ہو جاتى ہے، اور اس پر اہل علم كا اجماع ہے جس ميں كوئى اختلاف نہيں۔ جیساکہ ہم نے اوپر واضح اور ثابت کردیا ہے۔فقط واللہ ورسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم

کتبہ

العبد المذنب محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا و خطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ، واگرہ ، بھروچ ، گجرات ۔ 

١۵/ ربیع الاول ١۴۴۵ ۔ 

١/ اکتوبر ٢٠٢٣ ۔ بروز اتوار

Post a Comment

0 Comments