بارات کی رخصتی کے وقت دلہن کی گاڑی کے نیچے پانی بہانا یا دلہن کو پانی پلانا کیسا ہے

بارات کی رخصتی کے وقت دلہن کی گاڑی کے نیچے پانی بہانا یا دلہن کو پانی پلانا کیسا ہے؟

سوال:

(١); ہمارے یہاں ایک رواج یہ بھی ہے کہ جب بارات کی رخصتی ہوتی ہے تو دلہن کے بھائی سے کہاجاتا ہے کہ دلہن کی گاڑی کے نیچے پانی بہادو پھر دلہن کا بھائی ایک لوٹا پانی بہا دیتا ہے ۔ اور یہ پانی اس لیے بہایا جاتا ہے کہ عورتیں کہتی ہیں : جب دلہن اپنے سسرال پہنچے گی تو اسے سکون شانتی محسوس ہوگی اور وہ اپنے سسرال میں ٹھنڈ مزاجی کے ساتھ رہے گی ؟ ایسا خیال و تصور کیا جاتا ہے ۔ کیا یہ عمل درست ہے؟

(٢)اور بعض جگہ یہ رواج ہے کہ انھیں تصورات کے ساتھ رخصتی کے وقت دلہن کو اس کا بھائی پانی پلاتا ہے ۔ تو یہ پانی پلانا کیسا ؟

جواب:

(١) بلا وجہ پانی بہانے کا یہ عمل شریعت میں بالکل غلط اور ناجائز وحرام ہے اس لیے کہ یہ پانی بہانا اسراف یعنی فضول خرچی میں داخل ہے اور شریعت میں فضول خرچی جائز نہیں بلکہ ناجائز و حرام باعث قہر قہار و مفضی الی النار ہے۔

جیساکہ قرآن شریف میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ- وَكَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(الاسراء ، آیت ٢٧)

ترجمہ: کنزالعرفان

بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔

*اور ایک دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے:*

وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الانعام: ۱۴۱)

’’اور حد سے تجاوز نہ کرو ، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

 لہذا فضول پانی کے بہانے سے بچنا واجب و ضروری ہے۔

اسلام کی نظر میں پانی کی کس قدر اہمیت ہےاس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنچ وقتہ نمازوں کے لیے جو وضو کیا جاتا ہے اور اس میں جو پانی استعمال کیا جاتاہے اسلام نے اس پر بھی نظر رکھی ہے، اور نماز پڑھنے والے اللہ کے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وضو تو کریں مگر اسراف نہ کریں ۔

*چناں چہ ابن ماجہ شریف کی روایت میں ہے:*

 عَن عبد الله بن عمرو بن العاص رَضي اللهُ عَنهُ قَالَ : مر رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ بِسَعْد وَهُوَ يتَوَضَّأ ، فَقَالَ : مَا هَذَا السَّرف يَا سعد قَالَ : أَوَ فِي الْوضُوء سرفٌ ؟ قَالَ : نعم وَإِن كنت عَلَى نهر جَار"۔

(رَوَاهُ ابْن ماجه: جلد اول ، ص: ١۴٧ ، حدیث نمبر ۴٢۵)

یعنی ایک مرتبہ صحابی رسول حضرت سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ وضو کر رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے (حضورﷺ نے جب سعد رضی اللہ عنہ! کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ اپنے اعضاء وضو پرکچھ زیادہ ہی پانی ڈال رہے ہیں ، یہ دیکھ کر فرمایا ! اے سعد ! یہ اسراف کیا ہے؟ (یعنی اے سعد ! اسراف نہ کرو) حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا ر سول اللہ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے ؟  فرمایا ہاں ، اگر چہ تم بہتی ہوئی نہر پر ہو۔

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ وضو جیسے عظیم اور اور فضیلت والے عمل میں بھی فضول خرچی منع ہے اور دوسری بات یہ معلوئی کہ پانی کی فراوانی اور کثرت کے وقت بھی زیادہ پانی استعمال کرنا جائز نہیں کہ یہ بھی اسراف میں داخل ہے۔ 

اور ایک روایت میں وضو کے دوران ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرنے کو شیطان کی طرف سے ہونے والا عمل قرار دیا گیا ہے۔

جیساکہ امام ذہبی اور علامہ ابن حجر نے نقل فرمایا ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا خَيْرَ فِي صَبِّ الْمَاءِ ، وَقَالَ : إِنَّهُ مِنَ الشَّيْطَانِ  يَعْنِي: كَثْرَةَ صَبِّ الْمَاءِ فِي الْوُضُوءِ .

 (نقلہ الامام الذهبي في "الميزان" جلد ثانی ، ص: ١٦ ، وعلامہ ابن حجر في " اللسان" جلد رابع ، ص: ٧٨)

یعنی حضور ﷺ نے فرمایا (وضو میں)ضرورت سے زیادہ پانی بہانے میں کوئی بھلائی نہیں ہے اور فرمایا کہ یہ زیادہ پانی بہانا شیطان کی جانب سے ہوتا ہے۔ (یعنی یہ ایک شیطانی عمل ہے) 

اورنسائی اور بیہقی شریف کی حدیث میں ہے کہ اگر کسی نے وضو جیسے بابرکت عمل کے لیے اگر ایک دو قطرہ پانی زیادہ استعمال کرلیا تو اس نے بُرا اور ظلم و زیادتی کیا

کما روی فی ابن ماجہ و البیھقی

 جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ عَنِ الْوُضُوءِ ، فَأَرَاهُ الْوُضُوءَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، ثُمَّ قَالَ: "هَكَذَا الْوُضُوءُ ، فَمَنْ زَادَ عَلَى هَذَا فَقَدْ أَسَاءَ وَتَعَدَّى وَظَلَمَ"۔ (ابن ماجه : ۴٢٢ ، والبيهقی: ١/٧٩)

یعنی ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر وضو کے بارے میں پوچھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو (کرکے) دکھایا (اور اس وضو میں آپ نے اعضاء وضو کو) تین تین مرتبہ دھویا اور فرمایا وضو اس طرح کیا جاتا ہے ۔ جس نے اس پر (یعنی مرتبہ اعضاء وضو کو دھونے میں بے ضرورت) زیادتی کیا اس نے یقیناً بُرا ، زیادتی اور ظلم کیا۔ 

ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی میں فضول خرچی کرنے والے کو امت کا بدتر شخص قرار دیاہے۔

کما قال النبی ﷺ:

 "شِرَاْرُ اُمّٙتِیْ اٙلّٙذِیْنٙ یُسْرِفُوْنٙ فِیْ صٙبِّ الْمٙاْءِ‘‘(حاشیہ الطحاوی :ص: ٨٠)

اورفقہائے کرام علیھم الرحمة والرضوان لکھتے ہیں کہ :

غسل میں تقریباً چار کلو اور وضو میں ایک یا سوا کلو پانی کافی ہے ”وأما بیان مقدار الماء الذي یغتسل بہ فقد ذکر في ظاھر الروایة وقال ادنی ما یکفی في الغسل صاع وفی الوضوء مدٌ“ (بدائع الصنائع ، جلد اول ، ص: ۱۴۴) اگر مقدار مذکورہ میں کچھ کمی زیادتی بھی ہوجائے تو گنجائش ہے ، البتہ اتنی کمی کرنا کہ غسل و وضو کے صحیح ہونے میں شک ہونے لگے یا اتنا زیادہ پانی بہانا کہ اسراف اور بیجا استعمال کی حد میں آجائے مکروہ ہے۔ ھکذا في الفتاوی الھندیة ، جلد اول ، الفصل الثالث في المعانی الموجبة للغسل ، ص: ١٦)

ان مذکورہ بالا عبارات سے پتہ چلا کہ وضو جیسے نیک اور اہم عمل جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ، قرآن پاک چھونا  درست نہیں ، خانہ کعبہ کی زیارت جائز نہیں ، جس عمل کو نماز جیسی اہم العبادات کی ادائیگی کے لیے کنجی قرار دیا گیا ہے کما قال النبی ﷺ "اٙلْوُضُوْءُ مِفْتٙاحُ الصّٙلٰوةِ ،جب اس قدر اہم عمل کے لیے فضول میں چند قطرے زیادہ بہا دینا جائز نہیں تو پھر  دلہن کی گاڑی کے نیچے پورا ایک لوٹا پانی بہا دینا (جس کی شرع میں کوئی اصل موجود نہیں ہے) کیسے جائز و درست 

ہوسکتا ہے؟

 یقینا یہ عمل ناجائز و حرام اور باعث گناہ ہے۔ 

*خلاصہ کلام یہ ہے کہ*

قرآن وحدیث ودگر فقہ کی کتابوں میں پانی کے استعمال میں بھی اسراف (فضول خرچی) سے سختی سے منع کیا گیا ہے ، اور اسے ناپسندیدہ ، بُرا ، ظلم و تعدی ، مکروہ ،  شیطانی فعل اور امت کا سب سے بدترین عمل قرار دیا گیا ہے جیساکہ اوپر گزرا۔  

اور اسراف ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے کو کہا جاتا ہے ، خواہ یہ ضرورت شرعی ہو یا ضرورت طبعی ، ضرورت شرعی سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے کسی فعل کے لیے جتنی مقدار متعین کی ہے بلا کسی وجہ اس سے زیادہ استعمال کرنا ، جیسے وضو میں ہر عضو کو تین بار دھونا سنت کامل ہے ، پوری حیات رسول ﷺ کا اس پر عمل رہا ہے ، اس عدد پر اعضا کے غسل کی حاجت شرعیہ اگر پوری ہوگئی ؛ تو اب اس عدد سے زیادہ بار اعضا کا دھونا اسراف ہے۔ اور یہ دلہن کی گاڑی کے نیچے پانی بہانا نہ ضرورت شرعی ہے اورنہ ضررت طبعی بلکہ یہ جاہلوں کا ایک خود ساختہ شیطانی عمل ہے لہذا اس سے بچنا بے حد ضروری ہے۔

(٢) رہی بات پانی پلانے کی تو وہ جائز و مباح ہے بلکہ باعث اجر وثواب ہے ۔ مگر صورت مسئولہ میں ایسے باطل خیالات و تصورات کے ساتھ پانی پلانا اور پینا ہرگز ہرگز جائز نہیں ۔

الاشباہ والنظائر میں علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ:

"درء المفاسد اولی من جلب المصالح" یعنی مفاسد کو رفع کرنا حصولِ منفعت سے اولیٰ  یعنی بہتر ہے"

 لہذا عورتوں کے اس زعم باطل اور خیال فاسد کو ختم کرنے کے لیے اور آئندہ ایسا نہ ہو اس کے سد باب کے لیے اس پانی پلانے والی رسم سے پرہیز کرنا لازم ہے۔  

مؤدبانہ التجا

ہمارے علمائے کرام سے پُر خلوص التجا ہے کہ اس طرح کی ہر قبیح رسم کو پورے سماج سے ختم کرنے کی حتی المقدور کوشش فرمائیں۔ ور نہیں تو کم از کم اپنی یا اپنے گھر یا فیملی کے بھائی ، بہنوں وغیرہ کی شادیوں کو ہر شنیع و بری رسموں سے پاک رکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ پورے سماج سے دھیرے دھیرے اس طرح کی ہر غیر  شرعی رسمیں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ 

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔

نوٹ

صاحبان علم وادب سے مؤدبانہ ومخلصانہ گزارش ہے کہ کہیں کوئی غلطی نظر آئے تو اصلاح سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں۔

کتبہ:

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

(خادم التدریس والافتا  دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا و خطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ، واگرہ ، بھروچ ، گجرات ۔

٢٦/ ربیع الآخر ١۴۴۵

١١/نومبر ٢٠٢٣

Post a Comment

0 Comments