حضرت یحیی علیہ السلام کے مختصر حالات

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا پر حضرت یحییٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے، اللہ عزوجل نے آپ کو بچپن ہی میں نبوت عطا فرما کر جملہ خوبیوں کا جامع بنادیا تھا چنانچہ یزید بن منصور بیان کرتے ہیں کہ حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام بیت المقدس میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں عبادت گزاروں نے موٹے کپڑے اور اونی ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں اورانہوں نے اپنے آپ کو بیت المقدس کے کونوں میں زنجیروں سے باندھ رکھا ہے جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو اپنے والدین کی طرف لوٹے راستہ میں بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا انہوں نے کہا اے یحییٰ ! آؤ ہمارے ساتھ کھیلو، حضرت یحییٰ نے کہا کہ میں کھیلنے کے لیے نہیں پیدا کیا گیا، وہ اپنے ماں باپ کے پاس گئے اور کہا کہ ان کے بھی اونی کپڑے بنوا دیں انہوں نے بنوادیئے پھر آپ بیت المقدس کی طرف چلے گئے دن کو اس کی خدمت کرتے اور رات میں عبادت کرتے حتی کہ پندرہ برس گزر گئے پھر ان پر خوف کا غلبہ ہوا اور وہ جنگلوں اور غاروں کی طرف نکل گئے ان کے والدین ان کی طلب میں نکلے تو ان کو بحیرہ اردن کے پاس غاروں میں دیکھا وہ ایک کھاڑی کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے پیر پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، انھیں شدت کی پیاس لگی ہوئی تھی مگر وہ یہ کہ رہے تھے کہ اے اللہ ! تیری عزت کی قسم میں اس وقت تک پانی نہیں پیوں گا جب تک کہ مجھے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ تیرے نزدیک میرا مقام کیا ہے، ان کے والدین کے پاس جو کی روٹی اور پانی تھا انہوں نے ان سے کھانے اور پینے کو کہا آپنے قسم کا کفارہ ادا کیا اور ماں باپ کا کہا مان لیا اور پھر ماں باپ ان کو بیت المقدس واپس لے آئے۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ شجر و حجر بھی ان کے ساتھ رونے لگتے ان کے رونے کی وجہ سے حضرت زکریا علیہ السلام بھی روتے حتی کہ بے ہوش ہو جاتے حضرت یحی اسی طرح روتے رہے یہاں تک کہ آنسو نے ان کے رخساروں کو جلا دیا اور ان کی داڑھیں نظر آنے لگیں جن پر ان کی والدہ نے روئی کا نمدہ رکھ دیا تھا،

مورخین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت یحیی علیہ السلام لوگوں سے الگ رہتے تھے وہ جنگلوں سے مانوس تھے درختوں کے پتے کھاتے تھے دریاؤں کا پانی پیتے تھے کبھی کبھی ٹڈیوں کو کھا لیتے اور کہتے تھے اے یحییٰ تم سے زیادہ انعام یافتہ کون ہوگا ؟ وہیب بن ورد بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت زکریا سے ان کے بیٹے یحییٰ گم ہو گئے وہ تین دن ان کو ڈھونڈتے پھرے بالآخر وہ ایک کھودی ہوئی قبر میں ملے وہاں بیٹھے ہوئے خوف خدا سے رو رہے تھے انہوں کہا اے بیٹے میں تم کو تین دن سے ڈھونڈ رہا ہوں اور تم یہاں قبر میں بیٹھے رور ہے ہو؟ حضرت یحییٰ نے کہا اے میرے ابو! کیا آپ ہی نے مجھے یہ خبر نہیں دی تھی کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جنگل ہے جس کو صرف رونے والوں کے آنسو سے ہی طے کیا جا سکتا ہے. (تبیان القرآن)

غرض کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام زندگی بھر خوف خدا سے لرزاں و ترساں بندگان خدا کی رہبری کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ بالآخر جام شہادت نوش فرما کر داعی اجل کو لبیک کہا۔

از: محمد چاند علی اشرفی قمرجامعی

Post a Comment

0 Comments