مختصر سوانح حضرت ذکریا علیہ السّلام

حضرت ذکریا علیہ السلام بنی اسرائیل سے ہیں اور آپ کا نسب شریف حضرت سلیمان بن داؤد علیہا السلام تک پہنچتا ہے والد ماجد کا نام اذن اور دادا کا نام مسلم بن صدون تھا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق حضرت زکریا علیہ السلام نجار ( بڑھتی ) تھے حضرت مریم کے والد عمران بن ماثان نے اور حضرت زکریا علیہ السلام نے فافوزا کی دو بیٹیوں حنہ اور ایشاع سے شادی کی تھی حنہ عمران کے نکاح میں آئیں اور ایشاع حضرت ذکریا بن اذن علیہ السلام کے نکاح میں یہ دونوں بہنیں لاولد تھیں یہاں تک کہ انہیں بڑھاپا آ گیا اور اولاد سے مایوس ہو گئیں پھر بڑھاپے میں حضرت حنہ نے دعا کی تو ان سے حضرت مریم پیدا ہوئیں اور حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی تو ان کی بیوی ایشاع سے حضرت یحیی علیہ السلام پیدا ہوئے۔

حضرت زکریا علیہ السلام بیت المقدس کے چار ہزار خدام کے رئيس تھے منقول ہے کہ آپ ان انبیاء علیہم السلام کے بیٹوں میں سے تھے جو بیت المقدس میں وحی لکھتے تھے پوری زندگی مبارک بیت المقدس کی خدمت اور بندگان خدا کی اصلاح میں گزری پھر شہادت کے درجہ سے سرفراز ہوئے چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتے ہیں کہ شب معراج آسمان پر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حضرت ذکریا علیہ السلام سے ملاقات ہوئی آپ نے ان کو سلام کر کے فرمایا اے ابو یحی! مجھے اپنے قتل کیے جانے کی خبر دیجئے کہ آپ کو بنی اسرائیل نے کیوں قتل کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپ کو بتاتا ہوں یحیی “ اپنے زمانہ کے سب سے نیک آدمی تھے اور سب سے زیادہ حسین و جمیل تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے سیداوحصورا، اور ان کو عورتوں

کی ضرورت نہیں تھی بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ کی عورت ان پر فریفتہ ہوگئی وہ بدکار تھی اس نے ان کو بلوایا اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا اور یحییٰ نے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیا اس نے ان کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ان کے ہاں ہر سال عید ہوتی تھی اور بادشاہ کی عادت یہ تھی کہ وہ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا تھا اور نہ جھوٹ بولتا تھا، بادشاہ عید کے دن باہر نکلا اس کی عورت نے اس کو رخصت کیا بادشاہ کو اس پر تعجب ہوا کیونکہ اس سے پہلے وہ اس کو رخصت نہیں کرتی تھی بادشاہ نے کہا سوال کرو تم نے جب بھی سوال کیا ہے میں نے وہ چیز تم کو عطا کی ہے اس نے کہا میں یحییٰ بن زکریا کا خون چاہتی ہوں، بادشاہ نے کہا کچھ اور مانگ لو مگر اس نے کہا مجھے یہی چاہیے، بادشاہ نے کہا وہ تمہیں مل جائے گا، اس عورت نے یحییٰ کے پاس ایک سپاہی بھیجا وہ اس وقت محراب میں نماز پڑھ رہے تھے اور میں ان کی ایک جانب نماز پڑھ رہا تھا، ان کو ذبح کر دیا گیا اور ان کا سر اور خون ایک طشت میں رکھ کر اس عورت کو پیش کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ اس کے گھر والوں اور تمام درباریوں کو زمین میں دھنسا دیا۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کے وقت آپ کے صبر کی کیا کیفیت تھی؟ فرمایا میں نے اپنی نماز نہیں توڑی۔

حضرت ذکریا نے فرمایا کہ جب صبح ہوئی تو بنی اسرئیل نے کہا زکریا کا خدا زکریا کی وجہ سے غضب میں آگیا آؤ ہم اپنے بادشاہ کی وجہ سے غضب میں آئیں اور زکریا کو قتل کردیں، وہ مجھے قتل کرنے کے لیے ڈھونڈنے نکلے میں ان سے بھاگا، ابلیس ان کی قیادت کر رہا تھا اور میری طرف رہنمائی کر رہا تھا جب مجھے یہ خطرہ ہوا کہ میں انہیں باز نہیں رکھ سکوں گا تو میں نے اپنے آپ کو ایک درخت پر پیش کیا درخت نے آواز دی میری طرف آؤ ، میری طرف آؤ وہ درخت شق ہو گیا اور میں اس میں داخل ہو گیا اور درخت جڑ گیا مگر میری چادر کا ایک پلو باہر رہ گیا، ابلیس نے چادر کے پلو کو پکڑ لیا اور کہا کیا تم دیکھتے نہیں وہ اس درخت میں داخل ہو گیا ہے اور یہ اس کی چادر کا پہلو ہے وہ اپنے جادو کے زور سے اس درخت میں داخل ہو گیا ہے، انہوں نے کہا ہم اس درخت کو جلا دیتے ہیں، اس نے کہا اس کو آری سے کاٹ کر دوٹکڑے کردو تو مجھے آری سے کاٹ کر دو ٹکڑے کر دیا گیا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پوچھا اے زکریا ! کیا آپ نے کوئی درد اور تکلیف محسوس کی ؟ حضرت زکریا نے کہا نہیں وہ تکلیف اس درخت نے محسوس کی اللہ تعالیٰ نے میری روح اس درخت میں منتقل کر دی تھی ۔ (بیان القرآن و تفسیر نعیمی )

از : محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی

Post a Comment

0 Comments