سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین مندرجہ مسائل کے بارے میں؛ 1میت کے سر پر عمامہ باندھنا جائز ہے یا نہیں؟ 2 اپنے پیر اور استاد کو قبلہ بولنا کیسا ہے؟ 3 قبلہ اور کعبہ میں کیا فرق ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب:
(1)میت کیلئے سنت کفن کو اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے لہذا جہاں تک ہو سکے فضول و مکروہ چیزوں سے بچیں۔مرد کیلئے کفن سنت تین ہیں:1.ازار 2.قمیص 3.لفافہ۔ لیکن کفن میں عمامہ کی زیادتی کو فقہائے متأخرین نے سادات،علماء اور مشائخ عظام کیلئے جائز و مستحسن قرار دیا ہے۔ہاں عوام کیلئے مکروہ ہے۔ جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وليس في الكفن عمامه في ظاهر الروايۃ وفي الفتاوى استحسنها المتأخرون لمن كان عالما ويجعل ذنبها على وجهه بخلاف حال الحياه، كذا في الجوهرۃ النيرۃ" [فتاوی عالمگیری،كتاب الصلاۃ،الباب الحادي والعشرون، الفصل الثالث،ج:1،ص:160،دار الکتب العلمیۃ بیروت]
رد المحتار میں ہے:
"(وتكره العمامۃ) للميت (في الاصح) مجتبى واستحسنها المتاخرون للعلماء والاشراف۔ ولا بأس بالزيادۃ على الثلاثه۔قال القھستاني:واستحسن على الصحيح العمامۃ يعمم یمينا ويذنب ويلف ذنبه على كورۃ من قبل يمينه وقيل يذنب على وجهه كما في التمرتاشي، وقيل هذا اذا كان من الاشراف"۔
فتاوی امجدیہ میں ہے:
"کفنی میں عمامہ ہونا علماء و مشائخ کے لیے جائز۔ عوام کے لیے مکروہ"
[فتاوی امجدیہ،ج:1،ص:367]
واللّٰہ تعالیٰ اعلم
(2) اپنے پیر یا استاد کو تعظیما قبلہ و کعبہ بولنا جائز ہے۔برخلاف فاسق و فاجر کے۔
استاد کی فضیلت باپ سے بھی زیادہ ہے اور پیر قوم کے رہبر ہونے کی وجہ سے وہ لائق تعظیم ہے۔ لہذا ان دونوں کو یا جو اس کے اہل ہو اسے تعظیما قبلہ اور کعبہ بول سکتے ہیں۔
فیروز اللغات میں ہے:
قبلہ وکعبہ (مذکر) کلمہ تعظیمی ہے،حضرت،جناب،کے معنی میں ہے۔
[فیروز اللغات،ص:948،1016]
فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ایک سوال و جواب کا یہ ہے کہ:
جو قابل عزت و تکریم ہو اور عالم و فاضل و پیر کو قبلہ کونین یا کعبۂ دارین بولنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ فاسق کو ایسے القاب دینے سے احتراز کرنا چاہیے۔
[فتاوی مرکز تربیت افتاء،ج:2،ص:622]
تفسیر نعیمی میں ہے:
اگرچہ بعض بندے بعض بندوں کو ظاہری طور پر کچھ وقت کے لیے کسی قدر پالتے ہیں اس لیے اس کو مجازاً رب کہا جاتا ہے۔جس پر قرآن کریم شاہد ہے۔"کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا"۔
[تفسیر نعیمی،ج:1،ص:57]
لہذا اساتذہ،بزرگوں،عالموں،پیروں اور اللّٰہ والوں کو قبلہ و کعبہ کنہے میں کوئی حرج نہیں تظیمًا کہنا جائز ہے اور کہ سکتے ہیں۔
واللّٰہ تعالیٰ اعلم
(3)کعبہ اور قبلہ میں فرق حسب ذیل ہے: کعبہ:وہ بیت اللّٰہ شریف ہے جس کا سارے جہاں کے مسلمان طواف کرتے ہیں۔قبلہ:جتنے حصہ میں خانہ کعبہ واقع ہے بیت المعمور سے تحت الثری تک ساری فضا قبلہ ہے،جس طرف رخ کر کے سارے جہاں کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔
[در مختار،ج:1،ص:401،402۔۔بحوالۂ انوار الایضاح شرح اردو نور الایضاح،ص:384]
رد المحتار میں ہے:
"(و المعتبر)فی القبلۃ(العرصۃ لا البناء)فھی من الارض السابعۃ الی العرش"۔
[رد المحتار،کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاۃ،ج:2،ص:114،دار الکتب العلمیۃ بیروت]
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
از قلم:محمد صابر رضا اشرفی علائی
رسرج اسکالر:مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال
0 Comments