سوال:
زید و بکر کے درمیان نہ اتفاقی چلتی تھی اور دونوں جھگڑنے لگے پھر زید نے بکر کو گولی چلائی اور جان سے مار ڈالا۔ بکر کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ بکر شہید ہو گیا۔ تو دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ شریعت میں شہید کس کو کہا جاتا ہے؟ اور اس کے غسل و کفن کا کیا طریقہ ہے؟ نیز بکر کو شہید بولنا جائز ہوگا یا نہیں؟ حوالہ کے ساتھ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب:
شریعت میں شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں جو بطور ظلم کسی الۂ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو اور دنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو۔ اس شہید کا حکم یہ ہے کہ غسل نہ دیا جائے، ویسے ہی خون سمیت دفن کر دیا جائے، اور شہید کے بدن پر جو چیزیں از قسم کفن نہ ہو اتار لی جائیں، اور اگر کفن مسنون میں کچھ کمی پڑی تو اضافہ کیا جائے۔
شہید کی دو قسمیں ہیں:1. شہید فقہی: جو کہ اوپر مذکور ہوا۔ 2.شہید حکمی: وہ ہے جس میں مذکورہ بالا باتوں میں کوئی ایک نہ پائی جائے۔لہذا اسے شہید فقہی نہیں کہیں گے۔ لیکن شہید کا ثواب ضرور پائے گا اور اسے غسل و کفن بھی دیا جائے گا۔ شہید حکمی: جیسے جو طاعون میں مرے، ڈوب کر مرے وغیرہ وغیرہ۔
[ملخصاً در مختار و فتاوی عالمگیری و بہار شریعت] بکرکو شہید بولنا جائز ہوگا کیونکہ اسے بطور ظلم آلۂ جارحہ سے قتل کیا گیا اور قاتل پر مال بھی واجب نہیں ہوگا۔ لہذا اسے نہ غسل دیا جائے، ویسے ہی خون سمیت دفن کر دیا جائے۔
در مختار میں ہے:
"الشهيد هو كل مكلف مسلم طاهر قتل ظلما بجارحۃ ولم يجب بنفس القتل مال"
[در مختار،ج:3،ص:158،159]
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"قتله مسلم ظلما ولم تجب به ديۃ كذا في الكافي"
[فتاوی عالگیری،ج:1، ص:168،دار الکتب العلمیۃ بیروت]
بہار شریعت میں ہے کہ بندوق بھی آلۂ جارحہ ہے: "آلۂ جارحہ وہ جس سے قتل کرنے سے قاتل پر قصاص واجب ہوتا ہے یعنی جو اعضا کو جدا کر دے جیسے تلوار، بندوق کو بھی آلۂ جارحہ کہیں گے" [بہار شریعت،ج:1،ص:861]
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
از قلم:محمد صابر رضا اشرفی علائی
رسرج اسکالر:مخدوم اشرف مشن پبڈوہ شریف مالدہ بنگال
0 Comments