دولہا اور دلہن پر گیت گانا کیسا ہے

سوال:

ہمارے یہاں شادیوں میں ایک رسم یہ بھی پائی جاتی ہے کہ کچھ عورتیں جمع ہوکر بلند آواز سے دولہا اور دلہن کو خوب گیت سناتی ہیں ۔ منع کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ تھوڑا بہت تو گانا ہی پڑے گا نہیں تو اس جوڑی سے جو اولاد پیدا ہوں گی وہ گونگی اور بہری ہوں گی ۔ لہذا واضح طور پر تفصیل سے بتایا جائے کہ یہ رسم کہاں تک درست ہے ؟ 

جواب:

دیکھیے !

ہمارے یہاں دولہا و دلہن کے لیے عورتیں جس بے پردگی ، بے ہودگی اور بلند آواز کے ساتھ فلمی گانوں اور طعن و ہجو وغیرہ پر مشتمل گیت گاتی ہیں ۔ اس کی شرع میں قطعٙٙا اجازت نہیں ہے ۔ بلکہ اس طرح کا گیت گایا جانا ناجائز و حرام اور صدہا جرائم کا مجموعہ ہے۔ اور جو یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر گیت نہ گایا گیا تو زوجین سے ہونے والی اولاد گونگی اور بہری ہوں گی تو یہ بات بالکل جہالت و نادانی پر مبنی اور عورتوں کی خود ساختہ اور فرضی تصورات میں سے ایک شنیع تصور ہے۔  اس طرح کی بات وہی کرسکتے ہیں جن کا ایمان کمزور ہوچکا ہوگا ، جس کا توکل علی اللہ مضبوط ہوتا ہے وہ اس طرح کی خرافات پر بھروسہ کرکے کبھی جرائم کا مرتکب نہیں ہوتا ۔

شادیوں میں جوعورتیں گیت گاتی ہیں وہ عورتیں خود بھی گناہگار ہوتی ہیں اور اگر ان عورتوں کے ذمہ داران(جیسے شوہر ، باپ ، بھائی وغیرہ) باوصف قدرت انھیں گیت گانے سے نہیں روکتے ہیں تو ان عورتوں کے ذمہ داران بھی گناہگار ہوتے ہیں اور جس دولہا یا دلہن کی شادی کے موقع پر گیت گایا جاتا ہے وہ دولہا و دلہن تو سب سے زیادہ گناہگار ہوتے ہیں اس لیے کہ ان پر اس گیت کا بھی گناہ ہوتا ہے اور جتنے لوگ اس گناہ کے کام میں شریک ہوتے ہیں ان سب کی شرکت کا گناہ بھی اس پر ہوتا ہے۔ اور ان گیتوں کو بہ چاہت سننے والے لوگ بھی گناہگار ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس گیت جیسی ناجائز و حرام رسم سے ہر مسلمان کو بچنا لازم و ضروری ہے اور بحسبِ استطاعت اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کرنا بھی واجب ہے۔

فتاوی برکاتیہ ، ص : ٢۴۵/ میں ہے:

بے شک عورتوں کو شادی وغیرہ کسی بھی تقریب میں گانا معصیت ہے ہرگز جائز نہیں کہ ان کا گانا آواز کے ساتھ ہوتا ہے اور فتنہ ہے یہاں تک کہ اسی فتنے کے سبب ان کو اذان بھی کہنا جائز نہیں  ۔ بحرالرائق ، جلد اول ، ص: ٢٦٣/ میں ہے: واما أذان المراة فلأنھا منھیة عن رفع صوتھا لأنھا یؤدی إلی الفتنة

"۔ اور گانے میں عموما وصال ، ہجر کے اشعار ہوتے ہیں اور ایسا گانا بہرحال بُرا ہے کہ وہ زنا کا منتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ الغناء رقیة الزنا وھو مروی عن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ۔( مرقاة شرح مشکوة جلد ثانی)

حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی امجد علی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا

"آستانہ درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز میں جو احاطہ سنگ مرمر ہے اس کے اندر کوئی طوائف بیٹھ کر گانا گا سکتی ہے یا نہیں؟

تو آپ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :

"عورتوں کا ایسا گانا جس کی آواز مردوں تک پہنچے حرام ہے ، عورت اس چیز کو کہتے ہی ہیں جس کے چھپانے کا حکم ہے ، اور یہ صنف چوں کہ چھپانے کے لیے ہے اسی لیے اس کو عورت اور مستورات کہتے ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: المراة عورة فاذا خرجت استشرفھا الشیطان ، ترجمہ: عورت چھپانے کی چیز ہے جب وہ نکلتی ہے شیطان اس کی طرف جھانکتا ہے۔ رواہ الترمذی عن عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، لہذا اس کی آواز بھی بلاضرورت مردوں سے مخفی رہنی چاہیے ۔ یہاں تک جو زیور پہنیں ان کی آواز بھی اجنبی کو نہ پہنچے اور خوشبو لگائیں تو ایسی نہ ہو کہ اس کی مہک دوسروں کوپہنچے۔ حدیث صحیح ارشاد ہوا "طیب الرجال ریح لا لون لھا وطیب النساء لون لاریح لھا"۔ جب شرع مطہر نے یہاں تک لحاظ رکھا ہے تو گانا کہ فطرةٙٙ اس میں مقناطیسی کشش ہے بلا قصد اس طرف نفس کو توجہ ہوتی ہے عورتوں کو اس کی اجازت کیوں کر ہو سکتی ہے ۔ خصوصٙٙا جب کہ قواعد موسیقی کی بھی اس میں رعایت ہو ۔ ایسے گانے کے مظنّہ فتنہ ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ اور گانے والی جب بازاری عورت ہو تو بلا تکلف سننے کے لیے سوا حیا کے کیا چیز معنی ہو سکتی ہے ، اور گانے کا اثر جذبات کو ابھارتا ہے ، پھر اہل زمانہ خصوصاً عوام کی حالت معلوم ہے، ان کے دلوں میں جو خیالات و جذبات اسے سن کر پیدا ہوں گے ظاہر  ، ردالمحتار میں ہے:  فی النوازل نغمة المراة عورة وتعلمھا القرآن من المراة أحب قال علیہ الصلوة والسلام التسبیح للرجال والتصفیق للنساء فلایحسن ان یسمعھا الرجل اھ وفی الکافی لاتلبی جھرا لان صوتھا عورِة ومشی علیہ فی المحیط فی باب الاذان بحر قال فی الفتح وعلی ھذا لو قیل اذا جھرت بالقراة فی الصلاة فسدت کان متحبھا ولھذا منعھا علیہ الصلوة والسلام من التسبیح بالصوت لاعلام الامام بسھوہ الی التصفیق اھ واقرہ البرھان الحلبی فی شرح المنیة الکبیر وکذا فی الامداد ثم نقل عن خط العلامة المقدسی ذکر الامام ابوالعباس القرطی فی کتاب السماع ولایظن من لا فطنة عندہ انا اذا قلنا صوة المراة عورة انا نرید بذلک کلامھا لان ذلک لیس بصحیح فانا نجیز الکلام مع النساء للاجانب ومحاورتھن عند الحاجة الی ذلک ولانجیز لھن رفع اصواتھن ولا تمطیطھا ولا تلیینھا وتقطیعھا لما فی ذلک من استمالة الرجال الیھن وتحریک الشھوات منھم ومن ھذا لم یجز ان توذن المراة اھ ۔ اس عبارت سے بخوبی ظاہر کہ شرع مطہر نے عورتوں کی آواز کو غیروں سے محفوظ رکھنے میں کہاں تک خیال فرمایا ہے جب تسبیح و تلبیہ و اذان کہ ذکر الٰہی ہیں ان میں آواز کو بلند کرنے سے منع فرمایا تو اشعار عاشقانہ کا گانا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے کہ ایسے مضامین سے ایسے ہی خیالات پیدا ہوں گے اور خواہش نفسانی میں جوش پیدا ہوگا سننے والے اس کی طرف چَھل کینگے اور جب بے پردہ بے حجاب ہوں گی تو دیکھیں گے بھی اور طرح طرح کے معاصی میں مبتلا ہوں گے"۔ (فتاوی امجدیہ ، جلدچہارم ، ص: ۵٦ تا ۵٧)

ان ساری مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات واضح ہوچکی کہ آج کل شادیوں میں عورتیں جس طرح بلند آواز سے بے حجابی کے ساتھ ، مکمل موج ، مستی میں  دولہا ، دلہن کے ہجو و برائی  اور تعریف و ستائش وغیرہ پر مشتمل گانے یا جس طرح کے گیت گاتی ہیں وہ بالکل ناجائز و حرام ہے۔  بلکہ یہ گانے و گیت خود بھی ایک جرم ہے اور کئی گناہوں کا سبب بھی ہے۔ 

اسی طرح کے خرافات سے بھری ہوئی شادی سے متعلق اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

"جس شادی میں اس طرح کی حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس میں ہرگز شریک نہ ہو اگر نادانستہ شریک ہو گئے تو جس وقت اس قسم کی باتیں شروع ہوں اور ان لوگوں کا ارادہ معلوم ہو سب مسلمان مردوں، عورتوں پر لازم ہے کہ فوراً فوراً اسی وقت اٹھ جائے اور اپنی جورو ، بیٹی ، ماں ، بہن کو گالیاں نہ دلوائیں ، فحشن نہ سنوائیں ورنہ یہ بھی ان ناپاکیوں میں شریک ہوں گے اور غضب الہی سے حصہ لیں گے والعیاذباللہ رب العالمین "۔

حالات زمانہ کی وجہ سے اگر کوئی اپنی شادی میں فلمی گانا و ہجو دگر خرافات سے پاک و صاف نغمہ عورتوں پڑھوانا چاہے تو فی زماننا اس کی بھی اجازت نہیں ۔

جیساکہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

" نامحرم مردوں کو نغمہ عورت کی آواز پہنچے غرض ہر طرح منکرات شرعیہ ومظان فتنہ سے پاک ہوں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں جیسے انصار کرام کی شادیوں میں سمدھیانے جا کر یہ شعر پڑھا جاتا تھا

اتیناکم اتیناکم فٙحٙیانا وحیّاکم  ہم تمھارے پاس آئے ، ہم تمھارے پاس آئے ۔ اللہ ہمیں بھی زندہ رکھے تمھیں بھی جِلائے۔

بس اس قسم کے پاک و صاف مضمون ہوں اصل حکم میں تو اس قدر کی رخصت ہے مگر حال زمانہ کے مناسب یہ ہے کہ مطلق بندش کی جائے کہ جُہّالِ حال خصوصٙٙا زنانِ زماں سے کسی طرح امید نہیں  کہ انھیں جوحد باندھ کر اجازت دی جائے گی اس کے پابند رہیں اور حد مکروہ و ممنوع تک تجاوز نہ کریں۔ لہذا سر سے فتنہ کا دروازہ ہی بند کیا جائے نہ انگلی ٹپکنے کی جگہ پائیں گے نہ آگے پاؤں پھیلائیں گے"۔ (ملخصٙٙا از فتاوی رضویہ جلد ٩/ ص: ٧٧ تا ٧٨)۔

ان عبارتوں سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی بھی صورت میں عورتوں کے لیے شادیوں میں گیت گانے کی اجازت نہیں۔

لہذا ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے لازم ہے کہ اس رسم سے پرہیز کریں اور وہ لوگ جن کی بیٹی یا بیوی یا بہن وغیرہ گیت گانے جاتی ہیں ۔ ان پر شرعاً یہ لازم ہے کہ حتی المقدور اپنے گھر کی عورتوں کو سختی کے ساتھ گیت گانے سے روکیں ورنہ جو لوگ روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اپنی بیوی ، بہن ، بیٹیوں کو نہیں روکیں گے تو وہ بھی گناہگار ہوں گے اور بموجبِ حکم شرع دیوث کہلائیں گے اور دیوث کی سزا یہ ہے کہ اس پر جنت حرام کردی جائے گی ۔ اس کو دیوث اس لیے کہا جائے گا کہ دیوث کہتے ہی اس کو ہیں جس کی بیوی ، بیٹی ، بہن حرام و فحش کاموں میں مبتلا ہو ، شوہر ، باپ ، بھائی کو معلوم بھی ہو اور باوجود قدرت کے اسے نہ روکے۔

چناں چہ حدیث میں ہے:

"لایدخل الجنة دیوث ، قیل : یا رسول الله! وما الدیوث؟ قال: الذي تزني امرأته وهو یعلم بها".

اور ایک دوسری جگہ ہے:

’’هومن یری في أهله ما یسوؤه ولایغار علیه ولا یمنعها‘‘.

اعلی حضرت فتاوی رضویہ میں درمختار کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :

دیوث من لایغار علی امرأتہ او محرمہ۔ جو اپنی عورت یا اپنی کسی محرم پر غیرت نہ رکھے ، وہ دیوّث ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد ششم ،ص: ۴٨٧)

اس سے معلوم ہوا کہ جس کی بیوی ، بیٹی ، بہن حرام کاری کرتی ہو اور اس کو (شوہر ، باپ ، بھائی) معلوم ہو اور باوجود قدرت کے اسے نہ روکے تو ایسا شخص ’’دیوث‘‘ کے حکم میں ہے۔

اور مزید وضاحت کے ساتھ حکیمُ الْاُمَّت حضر علامہ مفتی احمد یارخان اشرفی نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:

"بعض شارِحین نے فرمایا کہ  جو اپنی بیوی بچّوں کے زِنا یا بے حیائی ، بے پردگی ، اجنبی مردوں سے اِختلاط ، بازاروں میں زینت سے پھرنا ، بے حیائی کے گانے ناچ وغیرہ دیکھ کر باوُجود قدرت کے نہ روکے وہ بے حیاء دیّوث ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد پنجم ، ص: ۳۳۷)

اور دیوث کی مذمت میں کئی حدیثیں وارد ہیں

چناں چہ ایک حدیث شریف میں یوں ہے:

 ثَلَاثَةُْ قَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْھِمُ الْجَنَّةٙ مُدْمِنُ الْخَمْرِ وَالْعَاقُّ وَالدَّیُّوْثُ الَّذِیْ یُقِرُّ فِیْ اَھلِہِ الْخَبَثَ ۔

(مسند امام احمد بن حنبل جلددوم ، ص: ۳۵۱ حدیث ۵۳۷۲)

ترجمہ:- تین شخص ہیں جن پر اللہ تعالی  نےجنّت حرام فرمادی ہے ایک تو وہ شخص جو ہمیشہ شراب پئے ، دوسرا وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرے ، اور تیسرا وہ دیُّوث یعنی بے حیا کہ جو اپنے گھر والوں میں بے غیرتی کے کاموں کو برقرار رکھے ـ

مخلصانہ مشورہ:

اگر کچھ گانا ہی ہے تو جب دولہے کو سجایا جاتا ہو یا سج دھج کر وہ تیار ہوچکا ہو تو اس وقت گیت کے بجائے کسی حافظ یا مولانا وغیرہ سے سہرا پڑھوائیں جو کہ مباح وجائز ہے یا پھر نعت و منقبت کے اشعار پڑھوائیں جوکہ مستحسن بھی ہے اور باعث ثواب بھی ۔

مؤدبانہ التجا

ہمارے علمائے کرام سے پُر خلوص التجا ہے کہ اس طرح کی ہر قبیح رسم کو پورے سماج سے ختم کرنے کی حتی المقدور کوشش فرمائیں۔ اور نہیں تو کم از کم اپنی یا اپنے گھر یا فیملی کے بھائی ، بہنوں وغیرہ کی شادیوں کو ہر شنیع و بری رسموں سے پاک رکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ پورے سماج سے دھیرے دھیرے اس طرح کی ہر غیر  شرعی رسمیں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔

نوٹ

صاحبان علم وادب سے مؤدبانہ ومخلصانہ گزارش ہے کہ کہیں کوئی غلطی نظر آئے تو اصلاح سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں.

کتبہ:

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

(خادم التدریس والافتا  دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام ومرکزی دارالافتا وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ،واگرہ، بھروچ ،گجرات ۔ 

٢١/ ربیع الآخر ١۴۴۵

٦/نومبر ٢٠٢٣ بروز پیر

Post a Comment

0 Comments