السید السند، قطب اوحد، استاذ العلماء، امام الاولیاء، سلطان الرجال، شیخ المسلمین، العالم الکبیر، عارف باللہ، بحرشریعت ابوالعباس احمد الرفاعی۔ اباً حسینی، اُماً اَنصاری، مذہبا ً شافعی، بلداً واسطی_
____نام و نسب_____
آپ کا نام احمد بن علی یحی بن حازم بن علی بن رفاعہ ہے جد امجد رعافہ کی مناسبت سے رفاعی کہلائے آپ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد میں سے ہیں آپ کی کنیت ابو العباس اور لقب محی الدین ہے جبکہ مسلک کے اعتبار سے شافعی ہیں حضرت سیدنا علی بن یحییٰ علیہ الرحمہ کا نکاح حضرت سید منصور بطائحی رحمۃ اللہ علیہ کی ہمشیرہ سے ہوا تھا جو کہ نہایت پرہیز گار خاتون تھی انہیں کے بطن سے 15 / رجب المرجب 512 ھجری یکم نومبر 1118ء میں حضرت سید احمد کبیر رفاعی کی ولادت با سعادت ہوئی
حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت سے پہلے ہی آپ کی ولادت کی بشارت دی جانے لگی تھی چنانچہ حضور ابو الوفا محمد بن محمد کاکیس رحمتہ اللہ علیہ کا گزر ام عبیدہ گاؤں کے قریب سے ہوا تو کہا السلامُ علیکم یا احمد! مریدوں نے عرض کی ہم تو کسی احمد کو نہیں دیکھا ارشاد فرمایا وہ اس وقت اپنی والدہ کے شکم مبارک میں جلوہ افروز ہیں میری وفات کے بعد پیدا ہونگے ان نام احمد رفاعی ہے اور روئے زمین کا ہر عبادت گزار ان کے سامنے عاجزی سے پیش آئے گا
(طبقات الصوفیہ للمناوی جلد 4 صفحہ191)
سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے چالیس دن پہلے آپ کے ماموں حضرت سید منصور بطائحی علیہ الرحمہ خواب میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار سے مشرف ہوئے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرما رہے ہیں اے منصور! چالیس دن بعد تیری بہن کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا اس کا نام احمد رکھنا اور جب وہ کچھ سمجھدار ہو جائے تو اسے تعلیم کے لئے شیخ ابو الفضل علی قاری واسطی کے پاس بھیج دینا اور اسکی تربیت سے ہرگز غفلت نہ کرنا اس خواب کے پورے چالیس دن بعد حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی
(سیرت سلطان الاولیا صفحہ 44)
سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کیا اسی سال آپ کے والد ماجد کسی کام کے لیے بغداد شریف تشریف لے گئے اور وہی ان کا انتقال ہوا والد ماجد کے انتقال کے بعد آپ کے ماموں الشیخ منصور رحمہ اللہ علیہ نے آپ کو اور آپ کی والدہ محترمہ کو اپنے پاس بلا لیا تاکہ اپنی سرپرستی میں سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی ظاہری و باطنی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھ سکیں قرآن پاک تو آپ پہلے ہی حفظ کر چکے تھے لہذا کچھ دنوں بعد حضرت شیخ منصور رحمہ اللہ علیہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کے مطابق حضرت شیخ علی قاری واسطی رحمہ اللہ علیہ کی خدمت میں علم حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا شیخ نے آپ کی تعلیم و تربیت میں خصوصی توجہ دی شیخ کی بھر پور شفقت اور اپنی خدا داد صلاحیت کے نتیجے میں سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے صرف بیس سال کی عمر میں تفسیر حدیث فقہ معانی منطق و فلسفہ اور تمام مروجہ علوم ظاہری کی تکمیل کرلی اور ساتھ ہی اپنے ماموں جان سے علوم باطنی بھی حاصل کی
خلافت وسجادگی
تقریباً بیس سال کی عمرکے ہوگئے تو اُستاذ ومربی شیخ ابوالفضل علی واسطی قدس سرہ نیان کو تمام علوم شریعت وطریقت کی اجازت عنایت فرمادی، اور اس کے ساتھ خرقہ وخلعت خلافت سے بھی نوازدیا۔ تاہم اس کے بعد بھی علم حاصل کرناجاری رکھااور اپنے مرشد ومربی کی نگرانی میں نورِتصوف سے منورہونے کے بعد اپنے ماموں شیخ سیدمنصور بطائحی سے علم فقہ میں کامل مہارت حاصل کی، اور اس طرح فقہ وتصوف کے عطرمجموعہ قرارپائے۔
شیخ سیدمنصوربطائحی قدس سرہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں پہنچے تواُنھوں نے شیخ کبیرکواپنے مرشدومربی شیخ الشیوخ کی اَمانت اور اپنے خاص وظائف کااُن سے عہد لیا، اور پھراُن کو مسندسجادگی اورمنصب ارشاد پر فائز فرمادیا۔
فرمان غوث اعظم پر گردن جھکالی
حضور سیدی سرکار غوث اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے جس وقت میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے فرمایا تو حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ اپنی گردن جھکا کر عرض کی میری گردن پر بھی آپ کا قدم ہے حاضرین نے عرض کی! آپ یہ کیا فرما رہے ہیں ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا اس وقت بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اعلان فرمایا اور میں نے گردن جھکا کر تعمیل ارشاد کی
(بہجۃ الاسرار صفحہ نمبر 33)
شاخِ تمنا ہری ہو گئی: حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں بھی خاص مقام حاصل ہے چنانچہ سیدی سرکار احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ 555 میں حج سے فراغت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے روضہ مبارک پر حاضر ہوئے تو یہ دو شعر پڑھے ترجمہ.. میں دوری کی حالت میں اپنی روح کو بارگاہ رسالت میں بیجھا کرتا تھا جو میری نائب بن کر اس ارض مقدس کو چوما کرتی - اب ظاہری جسم کی باری ہے جو حاضر خدمت ہے لہٰذا اپنا دست مبارکہ بڑھایے تاکہ میرے ہونٹ دست بوسی سے شرف یاب ہو سکیں چنانچہ روضہ رسول سے دایاں دست مبارک ظاہر ہوا اور آپ نے فرط عقیدت و احترام سے اسے چوم لیا اس منظر کو وہاں کے موجودہ لوگوں نے بھی دیکھا اس واقعہ کا ذکر امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے فتاوی رضویہ شریف جلد 22 میں فرمایا
___آپ کی تصانیف____
آپ نے متعدد کتابیں تحریر فرمائیں لیکن تاتاریوں کے حملے میں ضائع ہو گئیں البتہ جو کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوئ ان میں سے چند کے نام (1) حالۃ اھل الحقیقۃ مع اللہ( 2) راتب الرفاعی (3) البرھان الموید (4) السر المصون
____اولاد امجاد_____
آپ کی اولاد اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹا اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا بیٹے کا انتقال سترہ سال کی عمر میں ہی ہو گیا تھا لہذا صاحبزادیوں سے آپ کا سلسلہ نسل چلا جن کی اولاد میں بڑے بڑے عالم فاضل اور باکمال بزرگ ہوئے
_____تاریخ وصال______
آپ کے خادم خاص حضرت یعقوب رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وصال سے پہلے سیدی سرکار احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ پیٹ کی مرض میں مبتلا ہوئے ایک ماہ تک اسی مرض میں مبتلا رہے اور بیس دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا نیز زندگی کے آخری لمحات میں آپ پر نہایت رقت طاری تھی اپنا چہرہ اور ڈاڑھی مبارک مٹی پر رگڑ تے اور روتے رہتے لبوں پر یہ دعا جاری تھی یا اللہ عفو و در گزر فرما یا اللہ مجھے معاف فرما دے یا مجھے اس مخلوق پر انے والی مصیبتوں کیلئے چھت بنادے بالآخر 66 سال تک اس دارِ فانی میں رہ کر مخلوق خدا کی رشد و ہدایت کا کا سر انجام دینے کے بعد بروز جمعرات 22 جماد الاولی 578 ھجری بمطابق 13 دسمبر 1182 بوقت ظہر آپ نے اس عالم فنا سے عالم بقا کا سفر اختیار کیا آپ کی زبان سے آخری لمحات میں ادا ہونے والے کلمات یہ تھے اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد الرسول اللہ صل علیہ و سلم
مفتی عبدالرشید امجدیاشرفی دیناجپوری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین
0 Comments