حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ولادت:۔۔۔۔۔۔ وفات: ۴۴ھ
اسم گرامی:
آپ کا نام عبداللہ تھا ۔
کنیت: ابو موسی تھی اوروالد کا نام قیس تھا۔ ( اسد الغابہ جلد تین صفحہ 364۔ 365)
قبول اسلام :
سرزمین مکہ اورآس پاس کے لوگ اپنی سرکشی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت حق پر توجہ دینا چھوڑ دیے تھے لیکن حق و صداقت کے متلاشیوں کا حال یہ تھا کہ وہ ہزاروںصعوبتوں کا سامنا کرنے کے باوجود دور دراز علاقوں سے مکہ مکرمہ تشریف لاتے اور بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر دعوت حق قبول کرتے اور شجر اسلام کے چھاؤں میں آجاتے۔ سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا شہرہ جب یمن پہنچا تو یہ سن کر ابو موسی اشعری یمن سے مکہ مکرمہ آئے اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہو گئے۔ اس کے بعد قبیلہ عبد شمس سے آپ نے دوستانہ تعلق قائم کر لیا پھر یہ مڑدہ سنانے کی غرض سے اور دعوت و تبلیغ کے ارادے سے اپنے وطن لوٹ گئے ۔آ]پ قبیلۂ اشعر کے چونکہ ایک باوقار اور بااثر رئیس آدمی تھے، علاقے کا ہر ہر فرد آپ کی عظمت و رفعت کا لوہا مانتا تھا ؛اس لیے آپ کی دعوت حق نے بہت جلد قبولیت عامہ حاصل کر لی نتیجہ یہ ہوا کہ تقریبا پجاس آدمی قبولیت اسلام کے لیے تیار ہو گئے ۔متلاشیان حق کا یہ دستہ لے کر آپ سمندری راستے سے بارگاہ نبوت کی جانب روانہ ہو گئے مگر سمندری طوفان اور باد مخالف نے آپ کی کشتی کو بجائے حجاز مقدس کے حبشہ پہنچا دیا، وہاں حضرت جعفر بن ابی طالب اور دیگر مظلوم حضرات ہجرت کر کے پہلے ہی سے پہنچے ہوئے تھے، انہوں نے جب مدینہ منورہ کا ارادہ کیا تو آپ بھی ان کے ہمراہ ہو گئے اور اس وقت مدینہ منورہ پہنچے جب مجاہدین اسلام خیبر فتح کر کے واپس آ رہے تھے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ( حضرت ابو موسی) کو اور آپ کے قافلہ والوں کو خیبر کے مال غنیمت سے حصہ عطا فرمایا۔ ( بخاری شریف جلد 2 صفحہ 608)
فقہی وہ اجتہادی ژرف نگاہی اور ان کے نمونے :
حضرت ابو موسی اشعری ان ممتاز فقہائے صحابہ میں سے تھے جنہیں بارگاہ رسالت و نبوت میں خاص تقرب اورشرف پذیرائی حاصل تھا۔ وہ بارگاہ رسالت سے براہ راست اپنی علمی، فقہی اوراجتہادی تشنگی بجھا چکے تھے۔ کوفہ میں حضرت علی اور ان سے بڑا کوئی فقیہ اور عالم موجود نہیں تھا۔ قرآن و حدیث اور فقہ و تفقہ میں مکمل درک اور مہارت رکھتے تھے۔ ان علوم معلومہ میں مہارت تامہ اور جدارت کاملہ کا نتیجہ تھا کہ خود سے مسائل کا استنباط کر لیتے اور لوگوں کو ان کے سوالوں کے جواب دے دیتے ۔ انہی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری ہی میں مسائل کے جواب دینے اور فتوی دینے کی اجازت عطا کر دی تھی۔ حضرت صفوان فرماتے ہیں: لم یکن یفتی فی زمن النبی ﷺ غیر عمرو وعلی ومعاذ وابی موسی۔ یعنی عہد رسالت میں ان چار نفوس قدسیہ کے سوا کوئی فتوی نہیں دیتا تھا۔(تذکرۃ الحفاظ، ج۱ص۲۲)
حضرت ابو موسی کی مجتہدانہ شان اور فقیہانہ عظمت و رفعت نرالی اور انوکھی تھی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اہل علم سے مسائل میں اکثر بحث کرتے رہتے تھے۔ فقہائے صحابہ سے اکثر علمی مجلسیں اور فقہی بحثیں ہوتی رہتی تھیں جن فقہائے صحابہ سے آپ کی علمی بحثیں ہوتی تھیں یوں تو ان کا دائرہ بڑا وسیع تھا مگر حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے خاص طور سے علمی بحثیں کرتے تھے بلکہ بسا اوقات خلوص و نیک نیتی کے ساتھ یہ بحثیں مناظرہ کی حد تک پہنچ جاتیں اور جب تک مسئلے کی مکمل تنقیح اور توضیح نہیں ہو جاتی بحث برابر جاری رہتی۔
ایک مجلس میں تیمم کا مسئلہ زیر بحث آیا۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت پیش آئے اور اس کو ایک ماہ تک پانی نہ ملے تو کیا کرے ؟کیا وہ تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ نہیں اگرچہ اسے ایک ماہ تک پانی نہ ملے اس پر حضرت ابو موسی نے ان سے کہا تو پھر کیا خیال ہے آپ کا سورہ مائدہ کی آیت طیبہ : فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیدا طیبا۔کے بارے میں تو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر لوگوں کو تیمم کی اجازت دے دی جائے تو سردیوں کے موسم میں جب پانی ٹھنڈا ہوتا ہے تو لوگ تیمم ہی پر اکتفا کر لیں گے اس بات پر راوی شفیق بن سلمان نے کہا کہ کیا صرف اس خدشہ کے پیش نظر آپ تیمم کو اچھا نہیں سمجھتے ؟حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ ہاں پھر اس پر حضرت ابو موسی نے کہا کہ کیا اپ نے حضرت عمار کا واقعہ جس کو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے نہیں سنا کہ ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا اچانک راستے میں غسل کی حاجت پیش ا گئی اور پانی نہ ملا تو انہوں نے جانوروں کی طرح زمین پر لوٹ لوٹ کر تیمم کر لیا اور پھر واپس آ کر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا تو اپ نے ان کو تیمم کا طریقہ بتایا اور پھر فرمایا کہ تمہارے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ زمین پر لوٹنے کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔اس پر حضرت عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ شاید آپ کو یہ نہیں معلوم کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس واقعے کو کافی نہیں سمجھا تھا مذکورہ مسئلے میں حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب میں آیت قرآنی کی دلیل پیش کرنا پھر اس کے بعد حدیث رسول سے استشہاد کرنا اس بات کی واضح اور بین ثبوت ہے کہ مسائل میں بحث و مباحثہ کے مابین آپ مجتہدانہ نگاہ اور فقیہانہ بصیرت ملحوظ رکھتے تھے۔اجتہادی وصف کی یہ ایک واضح اور نمایاں مثال ہے۔
اس کے علاوہ ایک مرتبہ دونوں بزرگوں میں حدیث کا مذاکرہ ہو رہا تھا، دونوں اپنے اپنے دلائل پیش کرتے جاتے اور دوسرے کی دلیل رد کرتے جاتے، باری حضرت ابو موسی کی تھی ،آپ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے قریب علم اٹھ جائے گا، جہالت کا دور دورہ ہوگا اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوگا۔( مسند امام احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۳۹۲)
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بلاشبہ فقہائے مجتہدین میں سے تھے، علماء و فقہاسے ان کی بحثیں ہوتی رہتی تھیں مگر ان سب کے باوجود وہ اس بات کی بھی قائل اور عامل تھے کہ دوران بحث ومباحثہ اگر کسی سے چوک ہو جائے تو حق واضح ہو جانے کے بعد فورا اسے تسلیم کر لینا چاہیے ،چنانچہ ایک مرتبہ کسی نے لڑکی، پوتی اور بہن کی وراثت کے متعلق فتوی پوچھا تو جواب میں ارشاد فرمایا کہ لڑکی اور بہن کو نصف نصف ملے گا مستفتی نے جا کر حضرت عبداللہ بن مسعود کو یہ سنایا اور ان سے بھی فتوی لیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اس کی تائید کروں تو گمراہ ہوں، میں اس مسئلے میں وہی فیصلہ کروں گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ لڑکی کو نصف ملے گا اور پوتی کو دو تہائی پورا کرنے کے لیے چھٹا حصہ ملے گا پھر باقی جو بچے گا وہ بہن کا حصہ ہے ۔مستفتی نے جا کر حضرت ابو موسی اشعری کو یہ جواب سنایا تو آپ نے فورا تسلیم کر لیا اور مزید یہ بھی فرمایا کہ جب تک تم میں یہ عالم موجود ہے اس وقت تک مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ (بخاری شریف جلد ۲ صفحہ۹۹۷، کتاب الفرائض باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ )
یہیں پر بس نہیں بلکہ امت محمدیہ کے مصالح اور مفادات کی خاطر بسا اوقات اپنا فتوی بھی مسترد کر دیتے تھے، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج میں شریک ہو چکے تھے، حضور نے طواف اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد احرام کھلوا دیا تھا ،آپ کے بعد لوگ بھی اس پر عمل کرتے رہے اس لیے حضرت ابو موسی بھی یہی فتوی دیتے تھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور خلافت میں حج مکمل ہونے کے بعد احرام کھلواتے تھے، ایک مرتبہ حج کے موقع پر لوگوں نے حضرت ابو موسی سے کہا کہ آپ فتوی دینے میں جلدی نہ کیجئے، امیر المومنین نے اس میں ترمیم کی ہے، اگرچہ حضرت ابو موسی اس فتوے میں حق بجانب تھے مگر امت کے اندیشے کی وجہ سے فورا اعلان کر دیا، لوگو: جس کو بھی میں نے فتوی دیا ہے اس کو چاہیے کہ ابھی ٹھہرے رہے، امیر المومنین آئیں گے، ان کی پیروی کرو۔( مسلم شریف جلد ایک صفحہ 401 ،کتاب الحج ،باب جواز تعلیق الاحرام وھو ان یحرم باحرام)
حضرت ابو موسی ا شعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علمی و فقہی ژرف نگاہی اس وجہ سے بھی تھی کہ آپ قرآن و حدیث کے متبحراور زبردست عالم دین تھے، قرآن کریم سے آپ کو غیر معمولی شغف تھا، فرصت کا سارا وقت تلاوت قران اور اس کی تعلیم میں صرف کر ڈالتے ،جب یمن کے گورنر تھے تو حضرت معاذ بن جبل کو اکثر ملنے آتے تھے اور کافی دیر تک رہتے ،ایک مرتبہ انہوں نے پوچھا: آپ قران کی تعلیم اور تلاوت کس طرح اور کب کرتے ہیں؟ فرمایا: جب جب فرصت ملتی ہے تھوڑا تھوڑا پڑھ لیتا ہوں ۔(طبقات ابن سعد ،ج ۴ ص۸۰)
قرآن کریم اورعلم قراء ت و تجوید میں ممتاز اور نمایاں تھے، انہی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ یمن بھیجا تھا تاکہ نو مسلموں کو قرآن پاک کی تعلیم دیں اور علم قرآن کے فیضان سے مستفیض فرمائیں۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد چار صفحہ 397)
قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ علم حدیث میں بھی نمایاں مقام رکھتے تھے، حفظ حدیث کے لحاظ سے آپ اپنے ہمسروں میں امتیازی شان کے حامل تھے، کوفہ میں آپ کا مستقل حلقہ درس تھا جس سے بڑے بڑے صاحب کمال لوگ پیدا ہوئے، آپ کی روایات کی تعداد مکمل 360 تک پہنچتی ہے جن میں 50 روایات متفق علیہ ہیں ۔ان کے علاوہ چار بخاری شریف میں اور 25 مسلم شریف میں ہیں۔ (تہذیب الکمال جلد 11 )
ان میں اکثر روایات وہ ہیں جو ٓاپ نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں اور جن حضرات سے روایت کی ہیں ان میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابی بن کعب، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہم خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔( تہذیب التہذیب جلد پانچ صفحہ 363)
علم قرآن اور علم حدیث میں درس و تدریس کے طریقے مختلف تھے، عام طور پر مستقل حلقہ درس لگا لیتے مگر گاہے بگاہے لوگوں کو جمع کر کے ان سے خطاب بھی فرماتے چنانچہ ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! شرک سے بچنے کی کوشش کرو اس لیے کہ یہ چونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی اور غیر محسوس ہے ۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 402)
جہاں کہیں دیکھتے کہ لوگ جمع ہیں ان تک کوئی نہ کوئی حدیث ضرور پہنچا دیتے چنانچہ ایک مرتبہ بنوثعلبہ کے چند آدمی کہیں جا رہے تھے ان کو راستے میں ایک حدیث پہنچا دی۔ ( مسند امام احمد بن حنبل ج چار صفحہ 417 )
اصفہان کی لڑائی سے واپسی پر ایک جگہ قیام فرمایا، مجمع بہت زیادہ تھا چنانچہ فرمایا :لوگو! میں تم کو ایک حدیث سنانا چاہتا ہوں جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنائی ہے، لوگوں نے کہا کہ اللہ آپ پر رحم کرے !ضرور سنائیے ،آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے قریب ہرج کی کثرت ہوگی لوگوں نے پوچھا ہرج کیا ہے؟ فرمایا: قتل اور جھوٹ۔ لوگوں نے کہا کہ کیا اس سے بھی زیادہ قتل اور غارت گری ہوگی جتنی ہم لوگ کرتے ہیں؟ فرمایا: اس سے کافروں کا قتل مراد نہیں ہے بلکہ آپس کی لڑائیاں مراد ہیں یہاں تک کہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کو ،ایک بھائی دوسرے بھائی کو، ایک بھتیجا اپنے چچا کو اور چچا اپنے بھتیجے کو قتل کرے گا ۔لوگوں نے کہا سبحان اللہ! کیا وہ لوگ عقل و ہوش رکھتے ہوئے ایسا کریں گے؟ فرمایا: عقل و ہوش تو اس دور میں باقی نہ رہے گا یہاں تک کہ ٓادمی خیال کرے گا کہ وہ کسی حق بات پر ہے حالانکہ حقیقت میں کسی حق بات پر نہ ہوگا۔( مسند احمد بن حنبل جلد چار صفحہ 403)
اس کے بعد حضرت ابو موس اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہم میں سے کوئی بھی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشین گوئی سے خارج نہ ہو سکے گا ،اس سے نکلنے کی راہ صرف اور صرف یہ ہے کہ کچھ کہے بغیر اسی طرح پاک و صاف نکل جائیں جس طرح اس میں شریک ہوئے تھے۔( مسند احمد بن حنبل ج ۴ص ۴۰۶)
بحث و مباحثہ اور درس و تدریس میں غایت درجہ نرمی و آسانی ملحوظ رکھتے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اعتراض بھی کرتا تو نہایت نرمی و آسانی سے سمجھا دیتے، حضرت عبداللہ رقاشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں ایک بار حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہمراہ نماز پڑھ رہا تھا ،آپ حالت قعدہ میں تھے ،کسی نے زور سے ایک جملہ کہا جو مسنون دعاؤں میں سے نہ تھا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کس نے کہا تھا ؟لوگ خاموش رہے پھر پوچھا کہ فلاں فقرہ کس نے کہا تھا؟ لوگ پھر خاموش رہے ،پھر فرمایا حطان شاید تم نے کہا تھا، انہوں نے عرض کیا میں نے نہیں کہا تھا مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا کہ ٓاپ مجھے ہی ڈانٹیں گے اتنے میں ایک شخص نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ حضور میں نے کہا تھا اس سے میری کوئی بری نیت نہیں تھی بلکہ بھلائی تھی، حضرت ابو موسی نے اسے نماز کا پورا مسنون طریقہ بتایا اور کسی قسم کی ترش روئی اور سختی سے کام نہ لیا۔(ّ مسلم شریف جلد ایک صفحہ 174، کتاب الصلاۃ ، باب التشہد فی الصلاۃ)
وصال پرملال:
آپ کی وفات کے سال اور جگہ کے سلسلے میں روایات مختلف ہیں، بعض میں یہ ہے کہ مکہ میں وفات ہوئی، بعض میں کوفہ کے بارے میں ،مگر راجح مکہ کی روایت ہے۔ اسی طرح سن وفات کے سلسلے میں بھی روایات مختلف ہیں ؛بعض کے نزدیک 42 ہجری میں وفات ہوئی بعض کے نزدیک 44 ہجری میں اور بعض کے نزدیک 52 ہجری کو مگر ان سب میں صحیح روایت یہ ہے کہ ذی الحجہ 44 ہجری کو آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے خالق حقیقی سے حقیقی سے جا ملے۔ تذکرۃ الحفاظ اور سیر اعلام النبلا میں ہے:مات فی ذی الحجۃ سنۃ اربع واربعین علی الصحیحیعنی آپ صحیح روایت کے مطابق ذی الحجہ 44 ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے (تذکرۃ الحفاظ جلد اصفحہ ۲۳)
0 Comments