سیرت حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

ولادت۱۳ بعد فیل - وفات ۲۳ھ

نام: عمر، کنیت: ابو حفص، لقب: فاروق، امیر المومنین ۔

سلسلہ نسب:

عمر بن الخطاب نفیل قرشی عدوی بن عبدالعزی بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوئی بن فہر بن مالک۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ابن حجر عسقلانی ج :۴ص: ۴۸۴) 

عدی کے دوسرے بھائی مرۃ تھے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد میں سے ہیں، اس لحاظ سے حضرت عمر کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے نسبی سلسلۃالذہب سے مل جاتا ہے۔

ولادت با سعادت:

اکثرمصنفین نے آپ کی تاریخ ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد بتائی ہے مگر درایۃیہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ نبوت کے چھٹے سال آپ نے اسلام قبول کیا اور اس وقت آپ کی عمر۲۷ سال تھی، عام الفیل سرکار کا سال ولادت ہے اور ۴۰سال کی عمر میں آپ نے اعلان نبوت فرمایا، اس طرح ۶نبوت کو آپ کی عمر ۴۶ہوئی ،اب اگر اسی کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قبول اسلام کا سال مان لیا جائے تو اس وقت ۲۷ سال کا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔

بلکہ ۳۳ سال عمر ہوئی، اس لئے ماننا پڑے گا کہ آپ کی ولادت ۱۹عام الفیل کو ہوئی، بعثت نبوی کے وقت آپ کی عمر ۲۱ سال تھی۶ نبوی یعنی قبول اسلام کے وقت آپ کی عمر ۲۷ سال تھی۔ یہ قیاس محض نہیں ہے بلکہ نقلی دلیل سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے ۔(۱) علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ آپ کی ولادت فجار اعظم کے چار سال بعد ہوئی۔ (الاصابہ ج۴ ص:۴۸۴ )

اور فجار اعظم ۱۵ عام الفیل کوہوئی، اس لحاظ سے بھی آپ کا سن ولات۱۹ عام الفیل ہے۔ ۲۳ھ میں کے آپ کا وصال ہوا امام زہری نے کہا اس وقت آپ کی عمر ۵۴ سال تھی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ج ۳ ص ۲۴۲)یہ بھی اسی وقت ممکن ہے جب سال ولادت ۱۹ عام الفیل مانا جائے تو ثابت ہوا کے سال ولادت ۱۹ عام الفیل ہے۔ لیکن جمہور اصحاب سیر کے نزدیک مشہور یہی ہے۔کہ آپ کی ولادت ۱۳ عام الفیل کو ہوئی، نیز محمد مبارک کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عمرمبارک کے برابر یعنی ۶۳ سال تھی۔( تہذیب اسماء واللغات امام نووی ج: اص: ۳۹۸)یہ اس پر دال ہے کہ آپ کی ولادت ۱۳عام الفیل کو ہوئی، چونکہ شہرت بھی مفید یقین ہے اس لئے ہم اپنے قیاس کے مقابلے میں جمہور کے قول کو ترجیح دیتے ہیں۔

خاندانی پس منظر:

عہد جاہلیت میں اہل مکہ کے مذہبی، سیاسی، سماجی اور ملکی امور و مسائل قریش کے نامو ر خانوادوں میں بٹے ہوئے تھے۔

حضرت عمر کے جداعلی عدی بن کعب عربوں کے باہمی وبیرونی مناقشات میں ثالث و فیصل مقرر کیے جاتے تھے، صیفہ سفارت کی سربراہی بھی انہیں کے ذمہ تھی جسے وہ اپنی غیر معمولی استعداد و صلاحیت سے انجام دیتے تھے، عدی کے بعد بھی یہ دونوں منصب آپ کے خاندان میں باقی رہے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ ابن اثیر ج:۴ ص:۱۳۸)

آپ کا گھرانہ اشراف قریش میں سے تھا، آپ کے والد خطاب اپنی قوم میں معزز انسان تھے جو تنہ خوئی اور سخت مزاجی میں مشہورتھے، بعد خلافت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا گزر ایک بار وادی ضجبان سے ہوا تو فرمایا: ایک زمانہ تھا جب میں نمرے کا کرتاپہن کر یہاں خطاب کے اونٹ چرایا کرتاتھا، جب تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ سے مار کھاتا، خدا کی قسم!میںنے ان سے زیادہ سخت دل اور بے رحم کسی کو نہیں پایار آج یہ دن ہے کہ خدا کے سوا مجھ پر کوئی حاکم نہیں ہے۔ (طبقات ابن سعد ج ۳ ص: ۲۰۲) 

والدہ کا نام:

حنتمہ بنت ہاشم بن مغیرہ ہے، ایک قول ہے کہ حنتمہ بنت ھشام ہے اس لحاظ سے ابو جہل آپ کا ماموں ہے، یہی مشہور ہے مگر پہلاقول زیادہ صحیح ہے، اصحاب سیر نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، امام مزی ،جلد۷ ص :۴۶۷)

تعلیم و تربیت:

صغر سنی کے حالات پردہ خفا میں ہیں۔شباب کا آغاز ہواتو حضرت عمران شریفانہ امور میں مشغول ہوئے جو اس وقت اہل عرب میںرائج تھے۔ لکھنا پڑھنا سیکھ کر اپنی ایک امتیازی شان پیدا کی، سرکار کی بعثت کے وقت قریش میں صرف ۱۷ لوگ لکھنا جانتے تھے، ان میں ایک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہتھے ( فتوح البلدان، امام ابوالحسن بلاذری ص:۴۵۳ )۔

نسب دانی میں ماہر تھے، یہ آپ کا خاندانی علم تھا، آپ کے والد خود مشہور انساب داں تھے، تقریر و خطابت اور فصاحت و بلاغت میں آپ کو ملکہ حاصل تھا،قبول اسلام کے بعد اور منصب خلافت سنبھالنے کے بعد آپ نے مختلف خطبے دیئے جن سے زور تقریر اور برجستگی کا اندازہ ہوتا ہے، سیرت کی مختلف کتابوں میں آپ کے خطبے مذکور ہیں۔ پہلوانی اور کشتی میں بھی کمال حاصل تھا۔عکاظ کے دنگل میں معرکۃ الآراکشتیاں لڑیں، شہسواری میں آپ کا کمال مسلم ہے۔شعر و شاعری کا بھی اچھا ذوق رکھتے تھے۔

قبول اسلام:

جب سرکار نے نبوت کا اعلان فرمایا اور صدیوں پرانے شرکانہ نظام کے بالمقابل صدائے توحید بلند کی، اور کچھ لوگوں نے اسے قبول کر لیا تو مکہ کے عالی بت پرست طیش میں آگئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام صف اول کے مخالفین میں تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کاظلم بڑھتا رہا، پھر بھی اسلام کا دائرہ وسیع ہوتا رہا، یہ صورت حال دیکھ کرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چراغ رسالت ہی کو گل کرنے کا ارادہ بنا لیا کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بچے گی بانسری اور برہنہ تلوار لے کر فرودگاہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑے۔ راستے میں حضرت نعیم بن عبد اللہ سے ملاقات ہوگئی، تیور دیکھ کرپوچھا: خیر ہے؟ بولے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کرنے جا رہا ہوں۔ نعیم نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن و بہنوی اسلام قبول کر چکے ہیں۔ فوراً پلٹے بہن کے گھر پہنچے۔ا س وقت وہ قرآن کی تلاوت کر رہی تھی، حضرت عمر کی آہٹ پاکر قرآن کے اجزا چھپا دیئے۔ حضرت عمر نے پوچھا: یہ کیسی آواز تھی؟ ۔ بہن نے کہا: کچھ نہیں۔ بولے میں سن چکا ہوں تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ پھر بہنوئی کو مارنے لگے۔ بہن بچانے آئی تو اسے بھی لہو لہان کر دیا '' بہن نے کہا: عمر جو بن آئے کر لو، اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا '' یہ جملہ سن کر حضرت عمر نے اپنا ہاتھ روک لیااور کہا جو تم پڑھ رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ۔ بہن نے وہ اجزا پیش کر دیتے اس میں سورہ حدید تھی، ''سبح للہ ما فی السموت والارض، و ھوالعزیز الحکیم ــ"ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں ہی یہ دعا کر چکے تھے: اللہم اعز الاسلام بابی جہل بن ہشام أو بعمر بن الخطاب (ترمذی شریف ج: ۲ ص:۲۰۵،باب مناقب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ)دعا نبوی باب اجابت سے ٹکرائی اور حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا مقدر جاگ اٹھا، جیسے جیسے قرآن پڑھتے جاتے تھے، آنکھوں سے ٹکرائی اور حضرت عمر کا مقدر جگمگا اٹھا،جیسے جیسے قرآن پڑھتے جاتے تھے، آنکھوں سے آنسو بہتے جاتے تھے جب''آمنوا باللہ ورسولہ '' پر پہنچے تو بے ساختہ پکار اٹھے اشھدان لاالہ الا اللہ واشہد ان محمدالر سول اللہ، پھر سرکار کی بارگاہ میں پہنچے اور اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ (اسد الغابہ ج :۴ ص :۱۴۰، ایک روایت میں سورہ طہ کا ذکر ہے) آپ کے اسلام سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، آپ کے اسلام لانے سے پہلے تقریبا ۴۰ یا ۵۰ آدمی مسلمان ہو چکے تھے مگر اب بھی مسلمان چھپ چھپ کر مذہبی امور انجام دیتے تھے، آپ ++اعلانیہ مسلمانوں کی جماعت۔ کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور نماز ادا کی، آپ کی بیعت سے سارے کفار عرب ساکت ہو گئے، کسی میں دم مارنے کی مجال نہ تھی، اسی دن سرکار نے آپ کا نام فاروق رکھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اسلام گویا اسلام کی فتح تھی، آپ کی ہجرت، نصرت اور آپ کی امامت رحمت تھی، ہم میں یہ طاقت نہ تھی کہ بیت اللہ شریف میں نماز پڑھ سکیں لیکن جب عمر نے اسلام قبول کیا تو مشرکین سے اس قدر جدال و قتال کیا کہ عاجزآکر انہوں نے ہمارا پیچھا چھوڑ دیا اور ہم بیت اللہ شریف میں نماز پڑھنے لگے (اسد الغابہ ج:۴ ص :۱۴۴) اور فرما یا،  ما زلنا أعزۃ عند اسلم عمر۔یعنی جب سے عمر نے اسلام قبول کیا ہم طاقتور ہو گئے۔ (بخاری شریف ج ۱ ص ۵۲۰)

ہجرت:

جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر مکہ کی زمین تنگ کر دی تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دیدی، چناں چہ مسلمان مدینہ کی طرف چھپ چھپ کر ہجرت کرنے لگے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اعلانیہ ہجرت کی، سب سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت حضرت مصعب بن عمیر نے کی تھی پھرابن مکتوم پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کی (تہذیب اسماء و اللغات ،ج: ۱ ص:۳۸۹)

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرما یا عمر کے علاوہ کر نے اعلانیہ ہجرت نہیں کی، آپ تلوار اور تیر و کمان لے کر کعبہ شریف میں داخل ہوئے، سات مرتبہ طواف کیا، مقام ابراھیم پر نماز ادا کی پھر اشراف قریش کے حلقہ کے پاس آئے اور فرداً فردا ہر ایک سے فرمایا: تمہاری صورتیں بگڑیں! تمہارا ناس ہو! جو اپنی ماں کو بے اولاد، بیٹے کو یتیم اور بیوی کو بیوہ کرنا چاہے وہ آکر مقابلہ کرے! مگر وہاں کہ نہیں تاب نہ تھی کہ وہ پیچھا کرتا( تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری ج :۵ ص :۷۱) 

آپ ۲۰ سواروں کے ساتھ مدینہ منورہ کے لئے نکلے، قبا میں پہنچ کر ٹھہرے رہے۔ حتی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم قبا پہنچے، پھر آپ کے ساتھ مدینہ منور کے میں داخل ہوئے۔ سرکار نے مدینہ منورہ میں انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات قائم فرمائی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جس کا بھائی قرار دیا، ان کے نام عتبان بن مالک تھا جو قبیلہ بنی سالم کے سردار تھے۔ (اصابہ ج:۴ ص:۳۵۹)

ذات رسول سے وابستگی:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی سیرت کے نبوی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، وضع قطع ہر معاملے میں اسوئہ حسنہ کی پیروی کرتے تھے، خلافت ملنے کے بعد مدینہ میں ہر طرف زر و جواہر کی بارش ہو رہی تھی مگر اس میں بھی آپ سرکار کے نقش قدم کی پیروی کرتے رہے۔

آپ کو سرکار دو عالم صلح رسہ علیہ وسلم سے والہانہ لگاؤ تھا، سرکار کی شان اقدس میں ذرا سی گستاخی برداشت نہیں کرتے، کئی ایسے واقعات ہیں جن میں ذرا سی بے ادبی یا حکم رسول سے سرمو انحراف پر آپ نے تلوار میاں سے نکال لی، بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے وقت تلوار لے کر گھوم رہے تھے اور کہ رہے تھے '' اگر کسی نے کہا کہ رسول اللہ وفات پاگئے تو میں اس کا سر قلم کر دوں گا"۔( اسیرت ابن ہشام ج ۳ ص ۶۵۵)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ کو محبوب رکھتے تھے اور معاملات میں آپ کی رائے کی قدر کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت عمر نے سرکار صلی  اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کی اجازت مانگی تو سرکار نے فرمایا: یا اخی اشرکنا فی صالح دعائک ولا تنسنا. (طبقات ابن سعد ج :۳ ص :۲۰۶)

یعنی اے برادر! مجھے اپنی نیک دعاوں میں یاد رکھنا،بھول مت جانا، ا س سے دونوں حضرات کی آپسیم محبت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ رسول کی محبت دنیا و مافیھا پر غالب تھی، چناں چہ غزوہ بدر میں اپنے ماموں کو جو کفار قریش کی طرف سے لڑنے آئے تھے، اپنی تلوار سے مار ڈالا۔( خلفائے راشد ین ص:۳۲۸) آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خسرہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔

خلافت:

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی مرض وفات میں ہی حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کر دیا تھا اور ایک کاغذ پر لکھ کر لوگوں کے سامنے پیش کیاکہ میں اپنے بعد عمر کو خلیفہ بناتا ہوں، تم لوگ ان کی پیروی کرنا۔(اسد الغابہ ج:۴ ص:۱۵۸ )بعض لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا: آپ نے ہم پر اتنے سخت دل اور سخت مزاج کو خلیفہ بنا دیا ہے، اگر اللہ نے پوچھا توکیا جواب دیں گے؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا میں عرض کروں گا اے اللہ! تیرے بندوں میں جو سب سے بہتر تھا اس کو مسلمانوں کا خلیفہ بنایا ہوں۔ (طبقات ابن سعد ج:۳ ص:۲۰۷)

۲۲ جمادی الآخر ۱۳ ھ بروز منگل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کاانتقال ہوا اور اسی دن آپ خلیفہ منتخب ہوئے۔ (تاریخ الخلفا، علاوہ ماں کے الدین سیوطی، مترجم، شمس بریلوی ص ۲۰۸)

مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد جو خطبہ دیا تھا اس کے ابتدائی فقرے یہ ہیں:اللہم انی غلیظ فلینی، اللہم انی ضعیف فقونی، الا!و ان العرب جمل أنف وقد أعطیت خطامہ الا! وانی حاملہ علی المحجۃ -

اے اللہ ! میں سخت ہوں، مجھے نرم کر دے، میں کمزور ہوں، قوی کردے (پھر قوم سیمخاطب ہو کر کہا) ہاں! عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے،میں انہیں راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا۔ (طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۲۰۸)

فقہ و اجتہاد:

اجتہاد و استنباط کے باب میں حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کوئی ثانی نہ تھا اور نہ ہی آپ کے بعد آپ جیسا سلیم الفکر، صاحب الراء کوئی مجتہد پیدا ہوا، آپ اس امت کے سب سے بڑے فقیہ اور مجتہد اعظم تھے۔ بلکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فرمایا: فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا علم احکام میں وسیع النظر ہونا ضبط تحریر واحاط تقریر سے باہر ہے، علی الاطلاق امت کے سب سے بڑے فقیہ وہی ہیں،ان کے فقہ کی نسبت تمام فقہا صحابہ کے فقہ کے ساتھ ایسی ہے جیسے آپ کے مصحف کو دیگر اصحاب کے مصحف سے ہے کہ جو کچھ آپ کے مصحف میں ہے وہ قرات متواترہ ہے اور جو اس کے مخالف ہے وہ قرآت شاذہ ہے، ان کے فقہ کی نسبت تمام مجتہد ین اہل سنت کے فقہ کے ساتھ ایسی ہے جیسی متن کو نسبت ہوتی ہے شرح کے ساتھ۔ (ازا لۃ الخلفا عن خلافۃ الخلفاء ج :۳ ص :۲۹۶) 

 حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فقہ واجتہاد کے بارے میں شاہ صاحب کی یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت بات ہے، قرآن وحدیث، اقوال سلف آپ کی وسعت نظر و اصابت رائے پر شاہد ہیں۔

قرآن سے ثبوت:

آپ کے مفکر اعظم و مجتہد اکبر ہونے پر شہادت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیتیں آپ کی رائے کے موافق نازل ہوئیں،حضرت بن عمر سے مروی ہے کہ جب کوئی معاملہ پیش آتا تو لوگ کچھ اور کہتے. اور ابن عمر کچھ اور، تو قرآن انہیں کے موافق نازل ہوتا۔ (ترمزی ج ۲ ص ۲۰۹) 

قرآن کریم کی وہ آیتیں جو آپ کی رائے کے موافق نازل ہوئیں، ان کی تعداد علامہ ابن حجر عسقلانی پندرہ ہے اور امام ابن حجر ہیتمی کے مطابق ۱۷ہے، جب کہ علامہ جلال الدین سیوطی نے ان کی تعداد بیس تک پہنچائی ہے۔( المقالات سعید ص:۲۰۰)
جن میں سے چند یہ ہیں: اسیران بدر، پردہ ازواج مطہرات، مقام ابراہیم، تحریم شراب، رمضان کی شب بس مجامعت، واقعہ افک، تخلیق انسانی،منافق کی نماز جنازہ، استیذان وغیرہ۔
حدیث سے ثبوت:
حدیث رسول سے بھی آپ کا مجتہد اعظم ہونا ثابت ہوتا ہے۔بلکہ مسائل فقہیہ میں تو سرکار نے اشارہ فرمایا کہ ان سے اخذ کریں۔
(۱)ترمذی، ابن ماجہ و مستدرک علی الصیحین میں ہے: آپ نے فرمایا میرے بعدان دونوں کی اقتدا کرو یعنی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما ۔(ترمذی ج:۲ ص:۲۰۷)
(۲) سرکار نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حق کو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان اور قلب پر جاری کر دیا ہے ۔(ترمذی ج۲ ص ۲۰۹)
(۳)اور فرمایا تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں ان میں محدث ہوا کرتے تھے (جن کے قلوب پر من جانب اللہ القا ہوا کرتا تھا )حالاں کہ وہ نبی نہیں ہوتے تھے، میری امت میں اگر کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہیں۔ (بخاری شریف ج :۱ ص :۵۲۱، مسلم ج:۲ص:۲۷۶)
اقوال سلف سے ثبوت:
صحابئہ کرام، تابعین عظام بھی آپ کو سب سے بڑا فقیہ و مجتہد سمجھتے تھے اور بر ملا اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔
(۱)حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا:ان عمر کان اعلمنا بکتاب اللہ وافقھنا فی دین اللہ - عمر ہم میں کتاب اللہ کے سب سے بڑے عالم اور دین کے سب سے بڑے فقیہ تھے (اعلام النبلا ج :۱ ص :۵۲۰)
(۲) حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: ماکنا نبعد ان السکینۃ ینطق علی لسان عمر۔ ہم یہ بعید نہیں سمجھتے تھے کہ سکینہ عمر رضی رسہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر بولے ۔(تہذیب التہذیب ج :۴ ص: ۳۸۷) 
مذکورہ دلائل سے یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ جس کی رائے قرآن کے موافق ہو،جس کے علم و دین اور استقامت علی الحق کی گواہی حدیث رسول دے رہی ہو، اس سے بڑھ کر فقیہ و مجتہد کون ہو سکتا ہے؟ بلا شبہ آپ مجتہد مستقل ہیں اور دیگر ائمہ آپ کے سامنے مجتہد منتسب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آپ کا مجتہد مطلق ہونا محض دعوی نہیں ہے بلکہ زمینی حقائق کے مطابق اور خارج میں واقع ہے، فقہ کی نشر و اشاعت کے جتنے بھی طریقے ہو سکتے تھے۔آپ نے ہر ایک کو اختیار کیا اور فقہ اسلامی کو پورے عالم اسلام میں پھیلا دیا، کی تفصیل کچھ یوں ہے:

اجتہاد و افتا:
دس سالہ خلافت میں آپ قائد اعظم اور فقہ اعظم کی حیثیت سے معروف رہے، آپ کی راے سند سمجھی جاتی تھی، آپ کا اجتہاد تسلیم کیا جاتا تھا، آپ ایک انصاف پسند قاضی تھے جو مقدمات فیصل کرتے اور کمزوروں کا حق دلاتے تھے، آپ کے اجتہادی مسائل کئی تعداد ہزار تک پہنچتی ہیں شاہ ولی اللہ نے فقہ فاروقی پر مشتمل رسالہ ازالۃ الخلفا میں شامل کر دیا ہے۔ جو فقہ کے اہم مسائل پر مبنی ہے۔
مطلقہ عورت کا عدت میں نکاح کرنا: حضرت عمر کے زمانے میں ایک مطلقہ عورت نے اپنی عدت کے زمانے میں نکاح کر لیا (حالاں کہ قرآن میں اس کی ممانعت ہے) اس بنا پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شوہر کو چند کوڑے مارے اور دونوں میں علیحدگی کرادی اور فرمایا: جو عورت اپنی عدت میں نکاح کرلے تو دوسرے شوہر نے اگر اس کے ساتھ قربت نہیں کی ہے تو دونوں میں علیحد گی کرا دی جائے گی۔عورت پہلے شوہر کے طلاق کی بقیہ عدت گزارے گی پھر دوسرا شوہر اس سے منگنی کر سکے گا، لیکن اگر اس سے قربت کر لی ہے تو دونوں میں علیحدگی کرائی جائے پھر وہ پہلے شوہر کی بقیہ عدت گزارے گی پھر دوسرے شوہر کی عدت گزارے گی،اس کے بعد وہ اس سے کبھی بھی نکاح نہیں کر سکتا ۔( موطا امام مالک ص ۳۰۳ ، باب جامع مالا یجوز من النکاح) شوہر ثانی جب زوجہ معتدہ سے وطی کرلے تو وہ اس پر دائمی طور پر حرام ہوگی یا نہیں، قرآن میں اس کا کوئی ذکرنہیں ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے زجر و تادیب کے قاعدے پر عمل کرتے ہوئے یہ فتویٰ دیا تھا جب کہ حضرت علی نے اصول عاملہ کی رعایت کرتے ہوئے کہا کہ شوہر ثانی عدت کے بعد دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔

زوجہ مفقود الخبر کی عدت :
شوہر اگر غائب ہو جائے اور پتہ نہ چلے کہ وہ کہاں ہے تو عورت کتنے دن اس کا انتظار کرے؟ اس تعلق سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتوی دیا کہ وہ چار سال انتظار کرے پھر چارماہ دس دن عدت گزار کر دوسری شادی کرلے ۔ (مؤطا امام مالک ، باب عدۃ التی تفقد زوجھا ،ص:۳۲۳
امام مالک کا یہی مذہب ہے اور اس زمانے میں احناف کے نزدیک بھی اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔
دوران عدت،انقطاو حیض کا حکم:مطلقہ عورت کودوران عدت ایک یا دو حیض کے بعد حیض آنا بند ہو گیا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ یہ ایک مشترکہ مسئلہ ہے جس میں حائضہ اور آئسہ دونوںجمع ہو گئیں ہیں ، اس کا حکم قرآن میں نہیں ہے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتویٰ دیا کہ وہ نو مہینے انتظار کرے ، اگر اس دوران حمل ظاہر ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ اس کے تین مہینے وہ عدت گزارے پھردوسری شادی کر سکتی ہے۔ (مؤطا امام مالک ، باب جامع عدۃ الطلاق،ص:۳۲۷)

متوفی عنہازوجہاکاگھر سے نکلنا:

اگرشوہرانتقال کرجائے توبیوی کوچارماہ دس دن تک گھرسے نکلنے کی اجازت نہیں ہے،لیکن وہ فریضہ اسلام کے لیے گھرسے نکل سکتی ہے یانہیں؟اس تعلق سے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کاعمل یہ تھاکہ وہ عورت کواس کی بھی اجازت نہیں دیے تھے اوراگرایسی عورتیں حج کے لیے جاتیں تومقام بیدا سے آپ انہیں  واپس کردیتے اورحج کرنے سے منع فرمادیتے(موطاامام مالک ص:۳۳۲،باب مقام المتوفی عنھازوجھافی بیتھاحتی تحل)
مسائل فقہیہ میں اجماع:
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ جوفتاوی اور فقہی احکام صادر فرماتے، ان کی حیثیت شاہی دستور العمل کی ہوتی تھی، اس لیے آپ کوشش کرتے کہ وہ مسائل مجمع علیہ اور متفق علیہ ہوں ،اگر کسی مسئلے میں اختلاف ہوتا تو جب تک کسی ایک موقف پر اکثر صحابہ کا اتفاق نہ ہو جاتا وہ فتوی صادر نہ فرماتے، صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمرکی مجلس میںقراء (علما) کی ایک جماعت ہوتی تھی جن سے آپ مشورہ لیتے تھے خواہ وہ جوان ہویابوڑھے۔ مجمع علیہ مسائل کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے ان میں سے چند یہ ہیں:-

تراویح کی نمازبیس رکعت ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تر اویح کی کتنی رکعت پڑھیں اس میں علماء کا اختلاف ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نماز کے واجب ہو جانے کے اندیشے دو تین شب کے علاوہ صحابہ کے سامنے آپ نے یہ نماز ادا نہیں فرمائی، چناں چہ صحابہ کرام اپنے طور پر تنہا تنہا پڑھ لیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورخلافت میں ایک جماعت بنادی،جوآج تک متواترًچلاآرہاہے۔(موطاامام مالک ص:۷۰باب ماجاء فی قیام رمضان)

شراب نوشی کی حد:

شراب نوشی کی سزا حضرت عمر کے دورخلافت تک متعین نہیں ہوئی تھی۔ حضرت عمر نے اس سلسلے میں اکابر صحابہ سے مشورہ کیا،حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا آدمی شراب پی کرمست ہو جاتا ہے تولغو و ہذیان گوئی شروع کردیتا ہےاوراس میں لوگوں پر یہاں تراشی بھی گر گزرتا ہے، اس لیے جو سزا تہمت زنی (قذف) کی ہے یعنی ۸۰ کوڑے، شراب نوشی پر بھی دی جانی چاہئے، چناں چہ اس پر فیصلہ ہوا اور آج تک بر قرار ہے۔ (بخاری شریف ج ۲ ص: ۱۰۰۱، مسلم شریف ج ۲ ص :۷۲ موطا امام محمد ص: ۳۱۴)
کیا مباشرت میں محض ایلاج بغیراخراج منی غسل واجب ہے؟اس مسئلہ میںحضرت عمر اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ حضرت زید عدم وجوب کے قائل تھے جب کہ عدم وجوب کے اس مسئلہ کو آپ نے انصار مہاجرین کی مجلس میں پیش کر کے تنقیح طلب کی، پورے مجمع میں صرف حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے قائل تھے کہ محض ادخال سے غسل واجب ہو جائے گا خروج ہو یا نہ ہو، باقی تمام حضرات حضرت زید بن ثابت کی راے کے موافق تھے، یہ دیکھ کر امیر المومنین نے کہا: آپ حضرات ''بدری '' ہیں آج اگر آپ ہی لوگ اس طرح اختلاف کریںگے تو بعد میں آنے والوں کے درمیان اور بھی اختلاف پیدا ہوگا۔
یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اے امیر المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ اس مسئلے میں امہات المومنین سب سے زیادہ ہماری رہبری فرماسکتی ہیں۔
آپ نے حضرت حفصہ رضی رسے تعالٰی عنھا سے پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار '' فرمایا، پھر حضرت عائشہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: اذا جاوز الختان الختان فقدوجب الغسل۔
آخر میں اس پر اجماع ہوگیا اور یہی فیصلہ صادر فرمایا۔ (فقہ عمر،ص:۴۸، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی)

تکبیرات جنازہ:

عہد رسالت میں جنازے پرکہیں چار، کہیں پانچ ،کہیں چھ تکبیرات پڑھتے، اور یہ اختلاف عہد عمر تک باقی رہا آخر حضرت عمر نے فرمایا: آپ لوگ اصحاب رسول ہیں، اگر آپ ہی مختلف ہوں گے تو بعد والے اور زیادہ اختلاف کریں گے بہتر ہے اس کی تعداد کا تصفیہ کر لیجئے، تاکہ بعد میں نزاع نہ ہو۔
مشورہ ہوا کہ سرکار کا آخری عمل قابل تقلید قرار پائے تو سر کار کا آخری عمل چار تکبیرات تھیں۔ آخر میں سبھی صحابہ اس پر متفق ہوگئے (فقہ عمر، ص: ۱۲۸)

استنباط احکام کے اصول:

ائمہ اربعہ کی فقہ میں شدید اختلاف پایاجاتا ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے پاس روایتیں مختلف طرح کی پہنچیں، دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ انہوں نے استنباط احکام کے اصول مقرر تو کیے مگر صراحۃً ان سے منقول نہیں ہیں، البتہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے ایک رسالہ میں اپنے چند قواعد بیان کئے ہیں، بقیہ کسی سے صراحۃً منقول نہیں ہے،انہوں نے مسائل کا جس طرح سے استنباط کیا یا اس کے متعلق جو تقریر کی بعد کے ائمہ نے اسی بنیاد پر اصول مقرر کیے، مثلاً قرآن میں کفارئہ قتل کے سلسلے میں ہے" فـتحریر رقبۃ مومنۃ" اور کفارئہ یمین کے تعلق سے صرف فتحریر رقبۃ ہے، ایک امام نے کہا: دونوں کفارے ہیں لہذا ایک کودوسرے پر محمول کردیں گے اور دونوں صورتوں میں مومن غلام آزاد کرنا ضروری ہوگا۔جب کہ دوسرے امام نے کہا: دونوں مسئلے الگ الگ ہیں اس لیے حکم بھی الگ ہی ہوگا۔اس سے معلوم ہوا کہ وہ اس اصول کے قائل تھے۔ "المطلق یجری علی اطلاقہ کما ان المقید علی تقییدہ"۔
اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جن میں اصول و قواعد کی وجہ سے ائمہ مختلف ہوگئے۔ یہی حال حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ بھی ہوا کہ آپ نے اصول تو مقرر کیے مگر صراحۃً وہ منقول نہیں ہیں، البتہ آپ کے فتاوی، استنباط احکام کی تقریر سے اکثر کی اصول کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً:

قطع ید کا حکم کب ہے:

عبد اللہ بن عمرو بن حضرمی اپنے غلام کے ساتھ حضرت فاروق اعظم کی بارگاہ میں آئے اور عرض گزار ہوئے: اس نے میری سوی کا آئنہ چرا لیا ہے۔جس کی قیمت ۶۰ درھم تھی، آپ اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: تمہارا غلام تمہاری ہی چیز چرائی ہے۔ اس پرہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا۔ (مؤطا امام مالک، ص :۴۶۹، باب مالا قطع فیہ)
اس سے یہ قاعدہ نکلا کہ سرقہ کے لیے ضروری ہے کہ صارف کو مال مسروق میں کسی طرح کا حق نہ ہو۔

اصل اشیا میں اباحت ہے:

ایک دفعہ سفر میں ایک تالاب کے قریب اترے، حضرت عمرو بن العاص بھی ساتھ تھے، انہوں نے لوگوں سے پوچھاکہ یہاں درندے پانی پینے تو نہیں آتے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لوگوں کو روک دیا کہ '' مت بتانا" (موطا امام محمد، ۲۶، باب الوضوء مما یشرب منہ السباع وتلغ فیہ)
اس سے دو قاعدے مستنبط ہوئے(۱) اصل اشیا میں اباحت ہے (۲) ظاہر حال اگر صحیح ہے تو ہم تفحص و جستجو پر مکلف نہیں ہیں۔

 ظن غالب مفید یقین ہے:

ایک دفعہ رمضان میں بدلی کے سبب سورج کے چھپ جانے کا دھوکا ہوا، حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے روزہ کھول دیا، تھوڑی دیر میں آفتاب نکل آیا۔ لوگ متردد ہوئے تو آپ نے فرمایا: "الخطب یسیر وقد اجتھدنا" کھبرانے کی بات نہیں ہے ہم اپنی طرف سے کوشش کر چکے تھے۔(مؤطا امام مالک ،ص: ۱۸۰، باب ما جاء فی قضاء رمضان والکفارات، موطا امام محمد، ص :۱۸۸، باب الرجل یفطر قبل المساء ویظن انہ قد امسیٰ)
اس طرح کے اور بہت سے فتاوی ہیں جن سے اصول فقہ کے بہت سے کلمات منضبط ہوتے ہیں۔

اپنے اجتہاد پرقرآن و حدیث کو ترجیح دینا:

فقہ کا فن اگرچہ تمام تر آپ ہی کا ساختہ پر داختہ ہے اور فقہ کے تمام سلسلوں کا مرجع آپ ہی ہیں۔
اور اجتہاد مطلق کے درجے پر فائز ہیں پھر بھی قرآن و حدیث کو دین کی بنیاد اور مسائل شریعہ کا مصدراساسی تسلیم کرتے تھے، چندمثالیں ملاحظہ ہوں:
(۱) ایک بار حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک مجنونہ زانیہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین شخص مرفوع القلم ہیں(۱) سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے (۲)بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے (۳) مجنون جب تک صحیح نہ ہو جائے۔ (الاستیعاب ج ۳ ص ۳۰۶)
یہ حدیث سن کر آپ نے عورت کو چھوڑ دیا، حد جاری نہ کی اور فرمایا: لولا علی لھلک عمر۔اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فتوی دیا کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کی دیت ان کی منفعت اور حسن و خوبی کے مطابق دلوائی جائے۔ مثلاً چھنگلی نفع و خوبصورتی میں بقیہ چاروں سے کم، اور سبابہ سب سے فائق ہے، اس لیے چھنگلی کی دیت سب سے کم اور سبابہ کی سب سے زیادہ ہوگی۔ یہ آپ کا ابتدائی فتوی تھا مگر جب یہ حدیث علی" ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فی کل اصبح ما ھنالک عشر من الابل"یعنی پانچوں انگلیوں میں سے ہر ایک کی دیت دس اونٹ ہیں۔ تو امیر المومنین نے اس روایت کو خبر واحد ہونے کے باوجود قبول فرمایا اور اپنے قیاس سے رجوع فرمالیا۔(فقہ عمر، ص: ۲۷)
کار خلافت اور اجتہادی امور میں یہی آپ کا طریقہ کار تھا کہ خطا پر کوئی مطلع کرتا تو اس پر بر ہم ہونے کے بجائے خندہ پیشانی قبول کر لیتے، آپ نے خود فرمایا: میرے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو مجھے میرے عیوب پر مطلع کردے۔ (طبقات ابن سعد ،ج:۲، ص: ۲۲۲)

مسائل فقہیہ کی اشاعت:

حضرت عم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صرف اجتہاد واستنباط احکام پربس نہیں کیا بلکہ چہارجانب اس کی اشاعت کے لیے تمام ممکنہ وسائل اختیار کیے۔ صحابہ میں چھ آدمی قضا پر فائز تھے، حضرت عمر، حضرت علی، عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، ابو موسی اشعری، اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ لیکن جتنی شہرت و اشاعت حضرت عمر کے علم وفقہ کو ملی، کسی کے حصے میں نہ آئی، اس کی وجہ نشرواشاعت کے تعلق سے آپ کے انتظامات تھے جیسا کہ آگے واضح ہوگا۔

جمع قرآن:

مذھب اسلام کی اساس و بنیاد قرآن کریم ہے، مذہبی احکام کا یہی مصدر اصلی ہے۔ عہد رسالت میں اس کی تدوین نہیں ہوئی تھی، مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا یا صحابہ کے سنیوں میں محفوظ تھا، عہد ابو بکر میں جب مسیلمہ کذاب سے جنگ ہوتی تو سیکڑوں کی تعداد میں صحابہ شہید ہوگئے جن میں خاصی مقدار حفاظ قرآن کی تھی۔ جنگ کے بعد حضرت عمرحضرت ابو بکر کے پاس آئے اورکہا: اگراسی طرح صحابہ شہید ہوتے رہے تو قرآن جاتا رہے گا؟ اس لیے اس کی جمع و تدوین کی فکر ابھی سے کرنی چاہیے۔ حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: جو کام سر کارصلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں کیا وہ میں کیسے کر سکتا ہوں، حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ باربار اس کی ضرورت ومصلحت بیان کرتے رہے حتی کہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ راضی ہو گئے اور یہ کام حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سپرد کر دیا گیا۔ اس طرح آپ نے اسلام کی اصل اور روح کی حفاظت کا بندوبست کرایا جیسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے عہد خلافت میں پایئہ تکمیل پہنچایا۔

دارالافتا والقضا کا قیام :

بوقت ضرورت احکام و مسائل کا جواب دینے کیلئے آپ نے مستقل شعبئہ افتا قائم فرمایا، آپ کے دور میں ہر شخص کو فتوی دینے کی اجازت نہ تھی، افتا اور قانون اسلام کی تشریح کے لیے چند اشخاص کو نامزد کردیا تھا جن میں حضرت علی، حضرت عثمان، معاذ بن جبل، عبد الرحمن بن عوف، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابو ہریرہ اور ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنھم تھے۔ (خلفائے راشدین،ص:۳۰۸)

تعلیم فقہ کا انتظام:

قرآن و حدیث اورفقہ کی تعلیم کا آپ نے خاص اہتمام کیا تھا صحابہ میں جو لوگ اس میں درک رکھتے تھے انہیں حدود سلطنت میں حدیث وفقہ کی تعلیم کے لیے مقرر فرمایا، حضرت عبادہ بن صامت کو حمص،ابودرداء کو دمشق اور حضرت معاذ بن جبل کو فلسطین پر تعلیم فقہ کے لیے مامور کیا۔(طبقات ابن سعد، ج:۲، ص: ۴۲۹)
عبد اللہ بن مغفل منجملہ ان دس بزرگوں میں سے ہیں جنہیں آپ نے بصرہ میں تعلیم فقہ کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ (اسدالغابہ،ج:۳،ص: ۳۹۵)۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کوفہ بھیجا۔ (اسد الغابہ ،ج:۳، ص: ۳۸۵) ان حضرات نے ممالک محروسہ میں حدیث وفقہ کی تعلیم کے لیے بڑے بڑے حلقے قائم کیے، جہاں شائقین علم جمع ہو کر حدیث وفقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سائلین سوال کرتے، شیوخ ان کا جواب دیتے، تلامذہ ان سے احادیث اور احکام قلمبند کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان محدثین وفقہا کی بیش بہا تنخواہیں بھی مقرر کی۔ صرف بھیجنے پراکتفا نہیں کرتے تھے کہ میں عاملوں کو تمہارے پاس مارے یامال چھیننے کے لیے نہیں بھیجتا، بلکہ تمہیں دینی تعلیم اور سنت نبوی سکھانے کے لیے بھیجتا ہوں۔ اگر وہ اس کے خلاف کریں تو مجھے اطلاع دو ۔(کتاب الخراج، امام ابو یوسف، ص: ۵۰)۔

خدمت حدیث:

آپ عظیم محدث تھے۔ بقول امام نووی رحمہ اللہ تعالی آپ سے ۵۳۹ حدثیں مروی ہیں جن میں سے ۲۶ متفق علیہ ہیں ۳۴ میں امام بخاری منفرد ہیں اور ۲۱ میں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہما) تہذیب الاسماواللغات، ج:۱،ص:۳۸۸)  حضرت عثمان ،حضرت علی، حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس و حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت طلحہ، حضرت سعد،حضرت ابوزرغفاری اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہم جیسے عظیم محدثین صحابہ آپ کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔

وصال پر ملال:

بالآخراسلام کا یہ درنایاب عمرکی ۶۳ بہاریں گزار کراللہ کو پیارا ہوگیا۔ ہوا یہ کہ مدینہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ کا فیروز نامی ایک مجوسی یا نصرانی غلام تھا، اس کی کنیت ابو لؤلؤ تھی، ایک دن اس نے حضرت عمر سے شکایت کی کہ میرا آقا مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے ، پوچھا کتنی؟کہا: روزانہ دو درہم - آپ نے پوچھا کیا کام کرتا ہے؟ بولا: نقاشی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: پھر تو یہ کوئی بھاری رقم نہیں ہے۔ اس پر وہ سخت ناراض ہوااور آپ کو قتل کرنے کی ٹھان لی، دوسرے دن فیروز خنجر لے کر نماز میں مسجد کے ایک گوشے میں چھپ گیاجیسے ہی آپ نے نماز شروع کی اس نے پے در پے چھ وار کیے،اس نے بارہ افراد کو زخمی کیا پھر آخر میں خود کشی کرلی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج :۳، ص: ۲۴۰) (سیر اعلام النبلا،ج:۱، ص: ۵۹)
۶۲ ذی الحجہ بروز چہار شنبہ کو آپ زخمی ہوئے، تین دن کے بعد انتقال فرمایا، یکم محرم ۲۳ھ مطابق ۶۴۴ء ، بروز یک شنبہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے آپ کو غسل دیا، پانچ کپڑوں میں آپ کو کفن دیا گیا۔ (معرفۃ الصحابہ، ابونعیم اصبہانی، ج:۱، ص: ۶۷) صہیب بن سنان نے نماز جنازہ پڑھائی، عبد اللہ بن عمر، عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف، سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہم نے قبر میں اتار۔ا (اسد الغابہ، ج: ۴، ص:۱۶۶) اور اس طرح افتاب عالم، دنیا کی نگاہوں سے روپوش ہو گیا۔

Post a Comment

0 Comments