سوال:
عوام الناس میں پیدائش کے روز نکاح ، شادی اور ختنہ کرنے کو منحوس سمجھا جاتا ہے یعنی عوام کا یہ خیال ہے کہ اگر کوئی انسان مثال کے طور پر اتوار کے دن پیدا ہوا تھا تو اب اتوار کے دن اُس انسان کا نکاح ، شادی یا ختنہ کرنے کو خطرہ و نقصان کا باعث سمجھا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اگر پیدائش کے دن یہ سب کام کیا گیا تو ضرور کچھ نہ کچھ حادثہ ہوجائے گا ، بلا و مصیبت آجائے گی ۔ پس یہی سوچ کر عوام الناس اُس روز نہ ختنہ کرتی ہے اور نہ نکاح و شادی کی تاریخ طے کرتی ہے۔ اگر کسی نے تاریخ طے کر بھی دیا تو تاریخ تبدیل کردی جاتی ہے۔ تو اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا عوام الناس کا یہ وہم و گمان اور خیال درست ہے؟
جواب:
جی بالکل نہیں ! ایسی سوچ رکھنا نادانی و جہالت پر مبنی ہے اس لیے کہ شریعت مطہرہ نے نکاح و شادی یاختنہ کے لیے کسی دن یا تاریخ کی تخصیص کی ہے اور نہ ایسے تقریبات کے لیے پیدائش کے دن کو باعث نقصان قرار دیاہے ۔ لہذا جب بھی جس کو سہولت ہو وہ ان تاریخوں میں نکاح و شادی اور ختنہ کرسکتا ہے ؛ پس یہ سمجھنا کہ پیدائش کی تاریخ کو نکاح و شادی یا ختنہ نہیں کرسکتے محض جہالت اور فاسد وہم ہے۔
بلاشبہ پیدائش کے دن نکاح و شادی اور ختنہ کرسکتے ہیں اس میں کوئی حرج و قباحت نہیں ہے۔ کہ اسلام میں کسی دن ، جگہ ، چیز یا وَقْت کو منحوس جاننے کا کوئی تصوُّر نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ بدشگونی کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
شرعِ مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں ، لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں حکم ہے:
اِذَا تَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْا"۔ یعنی جب کوئی شگون بدگمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہیے کہ ”اَللّٰھُمَّ لَاطَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ ، وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ ، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ“۔
(اے اﷲ! نہیں ہے کوئی بُرائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سِوا کوئی معبود نہیں) پڑھ لے اور اپنے رب عزوجل پر بھروسہ کرکے اپنے کام کو چلا جائے ، ہرگز نہ رُکے ، نہ واپس آئے۔ وَاﷲُ تعالٰی اَعْلَمُ (ملخصا از : فتاویٰ رضویہ جدید ایڈیشن ، جلد ٢٩،ص ٦۴١). اور حضرت سیدنا امام محمد آفندی رُومی برکلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
’’بَدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مُسْتَحَب ہے"۔ (طریقہ محمدیہ ، جلد دوم ،ص: ٢۴)
مفسر شہیر حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یارخاں نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
’’اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے ، بدفالی ، بدشگونی لینا حرام ہے۔‘‘(تفسیر نعیمی ، پارہ: ۹، سورہ: الاعراف ، آیت نمبر : ۱۳۲، جلد ۹/ ص: ١١٩)
اور ہاں ! یہ بھی اچھی طرح یاد یاد رہے کہ شرعی نقطہ نظر سے پیدائش کا دن منحوس نہیں بلکہ اس کے برعکس بہت ہی مبارک اور مسعود دن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیھما السلام نے اپنے اپنے پیدائش کے دنوں پر سلام بھیجا ہے ۔
*جیساکہ قرآن مقدس میں ہے:
"وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا(٣٣)
ترجمہ: کنزالایمان : اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا
اسی کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:
(وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ: اور مجھ پر سلامتی ہو۔) آخر میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ویساہی کلام کیا جو گزشتہ رکوع میں حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ میں جس دن پیدا ہوا اس دن مجھ پر سلامتی ہو ، جس دن وفات پاؤں اس دن مجھ پرسلامتی ہو اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں اس دن مجھ پر سلامتی ہو"۔ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ کلام فرمایا تو تمام لوگ خاموش ہوگئے اور ان کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ ماجدہ کے نیک ، پرہیزگار ہونے پر یقین آگیا کہ جو بچہ اس طرح کی باتیں کر رہا ہے اس کی والدہ ہمارے لگائے ہوئے الزامات سے بَری ہیں ، اس کلام کے بعد آپ خاموش ہوگئے اور دوبارہ اسی وقت کلام کیا جب دوسرے بچوں کی طرح بولنے کی عمرتک پہنچ گئے۔( بحوالہ تفسیر خازن ، سورہ مریم ، تحت الآیة : ٢٣۴/ ٣۳۳) اس سے معلوم ہوا کہ پیدائش کا دن بڑا عظیم دن ہے جس دن اچھا اور نیک کام کرنا چاہیے جیساکہ انبیائے کرام اپنے پیدائش کے دن پر سلام بھیجا۔
اور حضرت امام مسلم نے حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ"سُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ؟ قَالَ: ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ - أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ۔
ترجمہ: یعنی حضور ﷺ سے سوموار کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس دن میری پیدائش ہوئی ہے اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی (مسلم شریف ، حدیث نمبر(١١٦٢)
پس مذکورہ حضرت یحیی اور حضرت عیسی اور ہمارے نبی علیھم السلام کے اعمال سے خوب واضح ہوچکا کہ پیدائش کا دن منحوس اور باعث خطرہ نہیں بلکہ بڑا عظیم اور قابل نیک عمل دن ہے اور نکاح و شادی اور ختنہ یہ سب مسنون یعنی نیک عمل ہیں لہذا ان دنوں میں نکاح و شادی یا ختنہ کرنا منحوس نہیں بلکہ باعث خیر و برکت ہے۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ انبیائے علیھم السلام تو اپنے افعال و اقوال سے ہمیں یہ بتارہے ہیں کہ پیدائش کا دن بڑا اچھا اور مبارک دن ہے مگر ہم امتی ہوکر اُسی دن کو منحوس اور باعث خطرہ دن سمجھتے ہیں ۔ نعوذ باللہ من ذٰلک۔
لہذا ہم پھر بطور خلاصہ یہ کہتے ہیں کہ:
"اسلام میں نحوست اور بد شگونی کا کوئی تصور نہیں ۔پیدائش کے دن نکاح ، شادی اور ختنہ نہیں کرنا چاہیے یہ محض توہم پرستی ، بدشگونی اور بے بنیاد اور جاہلانہ خیال ہے ۔
اور حدیث شریف میں بد شگونی کے عقیدہ کی تردید فرمائی گئی ہے ۔ لہذا اس طرح کے خیالات اپنے ذہن و دماغ سے نکال دیں اور یہ ذہن نشیں کرلیں کہ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بد اعمالیاں اور فسق و فجور ہیں۔ جو آج مختلف طریقوں سے گھر گھر میں ہو رہا ہے ۔ یہ بد اعمالیاں اور نافرمانیاں خدا کے قہر اور لعنت کی موجب ہیں ۔ پس ہم سب کو ان بد اعمالیوں سے لازما بچنا ہے۔
مؤدبانہ التجا
ہمارے علمائے کرام سے پُر خلوص التجا ہے کہ اس طرح کی ہر بدشگونی کو پورے سماج سے ختم کرنے کی حتی المقدور کوشش فرمائیں۔ ور نہیں تو کم از کم اپنی شادی یا اپنے گھر یا فیملی کے بھائی ، بہنوں وغیرہ کی شادیوں کو ہر شنیع و بری رسموں اور بدشگونیوں سے پاک رکھیں ۔ اگرہم لوگ ایسا کریں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ پورے سماج سے دھیرے دھیرے اس طرح کی ہر غیر شرعی رسمیں اور بد شگونیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔
کتبہ:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
(خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا و خطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ، واگرہ ، بھروچ ، گجرات ۔
٢١/ رجب المرجب ، ١۴۴۵
0 Comments