رات میں اگر برتن جوٹھا چھوڑ دیا گیا تو کیا اس سے گھر کی برکت چلی جاتی ہے اور پریشانیاں آتی ہیں؟

سوال:

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ سے متعلق کہ رات میں اگر برتن جوٹھا چھوڑ دیا گیا اور اسے صاف نہ کیا گیا تو کیا اس کی وجہ سے گھر کی برکتیں چلی جاتی ہیں اور اس کے بدلے پریشانیاں آتی ہیں؟ ذرا جواب عنایت فرمائیں۔


الجواب بعون الملک الوھاب

تلاش بسیار کے باوجود کہیں اِس طرح کی کوئی معتبر و مستند روایت نہ ملی کہ جس میں یہ لکھا ہو کہ "اگر رات کو برتن جوٹھا چھوڑ دیا گیا اور اسے صاف نہ کیا گیا تو اس کی وجہ سے گھر کی برکتیں چلی جاتی ہیں اور اس کے بدلے بلائیں آتی ہیں"۔ ۔ اور نہ کہیں کسی مفسر و فقیہہ نے ایسا لکھا ہے کہ جیسا سوال میں درج ہے۔ 

البتہ ! اسی مفہوم کی ایک روایت ضرور ملی کہ 

ایک عورت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے پاس آئی اور اپنے گھر کی پریشانیاں ذکر کرنے لگی اور کہنے لگی کہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ہمارے گھر کی پریشانیاں کیوں بڑھتی چلی جارہی ہیں؟

 تو اس پر حضرت علی نے اس عورت سے پوچھا کہ کیا تم رات کو برتن دھوکر سوتی ہو یا جوٹھے برتن ایسے ہی چھوڑ کر سوجاتی ہو ؟

 اس عورت نے کہا کہ میں تو رات کے برتن ویسے ہی چھوڑ کر سوجاتی ہوں اور صبح اٹھ کر دھوتی ہوں۔

 تو اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ "تمھارے گھر میں پریشانیوں اور بے برکتی کی وجہ یہی ہے اس لیے برتن رات کو صاف کرکے سویا کرو۔ 

پس اس روایت سے معلوم ہوا کہ رات کو برتن گندے نہ چھوڑے جائیں بلکہ اسے دھوکر صاف کرکے سویا جائے ۔


نیز اگر سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو سائنس کا بھی تقاضہ یہی ہے کہ* برتنوں کو زیادہ دیر کے لیے گندہ نہ چھوڑا جائے ورنہ اس میں نقصان دہ قسم کے بیکٹریاں پیدا ہوسکتے ہیں ۔ جس سے مختلف بیماریاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

اور ظاہر سی بات ہے کہ جب برتنوں میں کھانے کے اثرات ہوں گے تو اس میں مختلف زہریلے کیڑے مکوڑوں کے چلنے پھرنے کا خدشہ ہوگا ۔ اس لیے بہتر اور مناسب یہی ہے کہ رات کے برتن کو رات ہی میں دھو لیا جائے ۔

ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ جس کام کے لیے آپ کا دل روکے اس کام کو چھوڑ دینا چاہیے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اگر ہمارا دل رات کو برتن چھوڑنے پر مطمئن نہیں ہوتا ہے تو پھر کیوں نہ رات کے برتن کو رات ہی میں دھو لیے جائیں ۔ 

بجائے اس کے کہ رات بھر آپ کے ذہن میں یہ بات گردش کرتی رہے برتن نہیں دھویا تو یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا ۔ 

لہذا رات کے برتن کو رات ہی میں دھو لیے جائیں تو زیادہ اولی وانسب ہے۔

اور  یہ بات بھی واضح ہے کہ کسی معتبر و مستند کتب احادیث یا فقہ و تفسیر وغیرہ میں ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہو کہ رات کے برتن کو دھونا ضروری ہی ہے ورنہ بے برکتی اور پریشانیاں آئیں گی ۔ ایسا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ جیساکہ ہم نے ابتداء جواب ہی میں اس کا ذکر کیا۔

البتہ رات کو سونے سے پہلے کھانے پینے کے برتنوں کے 

  ڈھانکنے کاحکم کئی روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ جیساکہ 

عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ إِذَا رَقَدْتُمْ ، وَغَلِّقُوا الْأَبْوَابَ ، وَأَوْكُوا الْأَسْقِيَةَ ، وَخَمِّرُوا الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ  وَأَحْسِبُهُ قَالَ : وَلَوْ بِعُودٍ تَعْرُضُهُ عَلَيْهِ ۔(صحیح البخاری ،کتاب الاشربة ، باب تغطیة الاناء ، رقم الحدیث : ۵٦٢۴)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : جب تم رات کو سونے لگو تو چراغ بجھادو ، دروازے بند کردو ، برتنوں کو ڈھانک دو اور کھانے پینے کی چیزوں پر اوپر سے کپڑا ڈال کر محفوظ کردو ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے یوں یاد پڑتا ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ برتن کی چوڑائی پر کوئی لکڑی کا ٹکڑا ہی رکھ دو۔ اس مفہوم کی اور بھی کئی احادیث موجود ہیں ۔ 

*علامہ نووی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں* اس مفھوم کی احادیث پر عمل کرنے میں کئی فائدے ہیں ، دو تو خود احادیث مبارکہ میں ذکر کئے گئے ہیں کہ۔

*پہلا فائدہ* یہ ہے کہ شیطان سے حفاظت ، کیوں کہ شیطان ڈھکے ہوئے برتن کو کھول نہیں سکتا۔

*دوسرا فائدہ* یہ ہے کہ

مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ *ایک رات ایسی آتی ہے کہ اس میں وبا اترتی ہے جو برتن چھپا ہوا نہیں ہوتا یا مشک کا منہ بندھا ہوا نہیں ہوتا تو اگر وہاں سے وہ وبا گزرتی ہے تو اس میں وہ وبا اتر جاتی ہے ۔ پس اگر برتن صاف ستھرا رہا یا اس کا منہ ڈھکا ہوا رہا تو نازل ہونے والی وباء سے حفاظت ہوجاتی ہے

*تیسرا فائدہ* یہ ہے کہ نجاست اور گندگی سے حفاظت ہوجاتی ہے۔

*چوتھا فائدہ* یہ ہے کہ حشرات اور کیڑے مکوڑوں سے حفاظت ہوجاتی ہے ، کیوں کہ بسا اوقات کیڑے مکوڑے برتن میں گرجاتے ہیں ، اور آدمی کبھی بے خبری میں اس برتن میں کھا پی لیتا ہے اور اس کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ جیساکہ

*شرح النووي على مسلم ،  183/13/ میں ہے:*

يعرض على انائه عودا او يذكر اسم الله فليفعل فهذا ظاهر في انه انما يقتصر على العود عند عدم ما يغطيه به وذكر العلماء للامر بالتغطية فوائد منها الفائدتان اللتان وردتا في هذه الاحاديث وهما صيانته من الشيطان فإن الشيطان لايكشف غطاء ولايحل سقاء وصيانته من الوباء الذي ينزل في ليلة من السنة والفائدة الثالثة صيانته من النجاسة والمقذرات والرابعة صيانته من الحشرات والهوام فربما وقع شيء منها فيه فشربه وهو غافل او في الليل فيتضرر به والله اعلم

*اور اسی میں ہے:*

هذا الحديث فيه جمل من انواع الخير والادب الجامعة لمصالح الآخرة والدنيا فامر صلى الله عليه وسلم بهذه الآداب التي هي سبب للسلامة من ايذاء الشيطان وجعل الله عز وجل هذه الاسباب اسبابا للسلامة من ايذائه فلايقدر على كشف اناء ولا حل سقاء ولافتح باب ولاايذاء صبي وغيره اذا وجدت هذه الاسباب وهذا كما جاء في الحديث الصحيح ان العبد اذا سمى عند دخول بيته قال الشيطان لامبيت اى لاسلطان لنا على المبيت عند هؤلاء وكذلك اذا قال الرجل عند جماع اهله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان مارزقتنا كان سبب سلامة المولود من ضرر الشيطان وكذلك شبه هذا مما هو مشهور في الاحاديث الصحيحة وفي هذا الحديث الحث على ذكر الله تعالى في هذه المواضع 

(مرقاة المفاتيح: 185/8).

فلھذا *ان عظیم الشان فوائد اور بھلائیوں* کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ احکام دئے ہیں کہ رات کو سونے سے پہلے اپنے برتنوں چھپادو ۔

 اور ان احادیث سے یہ بھی واضح ہوچکا کہ جوٹھے برتن کو رات ہی میں صاف کرلینا چاہیے یہی بہتر و افضل اور اولی ہے اور اسی میں خیر  و بھلائی ہے۔

فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔ 

کتبہ!

*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ* 

خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا ، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات، 

٢۴/شعبان المعظم ١۴۴۵/ ہجری 

٦/ مارچ ٢٠٢۴ عیسوی۔ بروز بدھ

Post a Comment

0 Comments