کسی غیر مقلد یا اس کے چار پانچ روز کے چھوٹےبچے کی نماز جنازہ پڑھاناکیسا

مسئلہ :

کسی سنی لڑکی کا غیر مقلد وہابی لڑکے کے ساتھ نکاح پڑھانا؟

امام کو مزدور تصور کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

محترم المکرم جناب مفتی صاحب !

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں

(١)کسی غیر مقلد وہابی کا چار پانچ دن کا بچہ اور غیر مقلد وہابی بڑے آدمی کی نماز جنازہ کسی سنی صحیح العقیدہ عالم دین کو پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟

(٢) کسی سنی کی لڑکی اور غیر مقلد وہابی کا لڑکا ان دونوں کا نکاح کسی سنی صحیح العقیدہ عالم دین کو پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟

(٣) اگر کسی سنی محلے کے کمیٹی کے لوگ جبرٙٙا غیر مقلد وہابی کی نماز جنازہ و نکاح پڑھانے کے لیے کسی سنی عالم دین پر دباو ڈالے ایسی سنی کمیٹی کے لوگوں کے لیے شریعت کا کیاحکم ہے؟

(۴) اگر کسی امام کو اھل محلہ مزدور تصور کرے پھر اسی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو ایسی صورت میں اھل محلہ کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون المک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب 


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ

(١۔ ٢) سوال میں مذکور وہابی غیر مقلد کی بدعقیدگی اگر حد کفر کو پہونچ چکی ہے اس طور پر کہ وہابی ، دیوبندی مذہب کی جن عبارتوں کے کفریہ ہونے پر علمائے عرب و عجم متفق ہیں ان عبارات کو یہ صحیح کہتا رہا ہے اور ان کتابوں کے مصنفین کو مسلمان سمجھتا اور اپنا پیشوا مانتا ہے۔ تو ایسی صورت میں وہ فی الواقع پکا غیر مقلد وہابی ہے پس ایسے غیر مقلد کا یا اس کے نابالغ بچے کا جنازہ پڑھانا جائز نہیں۔ اور اسی طرح ایسے غیر مقلد وہابی کے ساتھ کسی سنی لڑکی کا نکاح پڑھانا بھی جائز نہیں ہے۔

اس لیے کہ وہابیہ ، دیابنہ اپنے عقائد کفریہ ، ضلالیہ کی بناء پر کافر و مرتد ہیں اور کافر و مرتد انسان کی نہ نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے اور ان سے  سے کسی سنی صحیح العقیدہ لڑکی کا نکاح ہو سکتا۔

جیسا کہ ارشاد ربانی ہے

واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکر مع القوم الظلمین ۔ 

*اور صحیح ابن حبان جلد اول ، ص: ۲۷۷/ کی حدیث پاک میں ہے:* "ایاکم و ایاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم ان مرضوا فلا تعودوھم وان ماتوا فلا تشھدوھم وان لقیتموھم فلا تسلموا علیھم لا تجالسوھم ولا تواکلوھم ولا تشاربوھم ولا تناکحوھم ولا تخالطوھم ولا تعود امر ضاھم ولا تصلوامعھم ولا تصلوا علیھم"۔

 یعنی ان سے الگ رہو انھیں اپنے سے دور رکھو وہ تمھیں گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمھیں فتنے میں نہ ڈال دیں  وہ اگر بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو اگر مر جائیں تو ان کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہو ان سے ملاقات ہو تو انہیں سلام نہ کرو اور ان کے ساتھ نہ بیٹھو ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ اور پانی نہ پیو اور بیاہ شادی نہ کرو اور میل جول نہ کرو ، اور ان کی بیماری کی عیادت نہ کرو ، اور ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو ، اور مرجائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھو ۔

رد المحتار ، جلد دوم ، ص: ٣٠٠/میں ہے:* "اذا لا خلاف فی کفر المخالف فی ضروریات الاسلام من حدوث العالم وحشر الا جساد و نفی العلم بالجزئیات وان کان من اھل القبلة المواظب طول عمرہ علی الطاعات کما فی شرح التحریر"۔

حضور اعلی حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ ربہ القوی  فتاوی رضویہ جلد سوم ، ص :١٧٠/ میں تحریر فرماتے ہیں:

"اب کبرائے وہابیہ نے کھلے کھلے ضرویات دین کا انکار کیا اور تمام وہابیہ اس میں ان کے موافق یا کم از کم ان کے حامی یا انھیں مسلمان جاننے والے ہیں اور یہ سب صریح کفر ہیں تو اب وہابیہ میں کوئی ایسا نہ رہا جس کی بدعت کفر سے گری ہوئی ہو خواہ غیر مقلد ہو یا بظاہر مقلد"۔

الموسوعة الفقهية الكويتية ، جلد چہارم ، ٢٧٠/ میں ہے:

"اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّهُ إِذَا أَسْلَمَ الأَْبُ وَلَهُ أَوْلاَدٌ صِغَارٌ ...فَإِنَّ هَؤُلاَءِ يُحْكَمُ بِإِسْلاَمِهِمْ تَبَعًا لأَِبِيهِمْ"۔

اور فتاویٰ فقیہ ملت ، جلد اول ، ص: ٢٦٠/ میں ہے: کہ دیوبندی وہابی کے نابالغ بچہ کی بھی نماز جنازہ پڑھانا (یا پڑھنا) جائز نہیں۔

ہاں! اگر بچہ سمجھدار ہو اور اس کا عقیدہ اہل سنت و جماعت جیسا ہو تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔

فتاویٰ عالمگیری ، جلد اول ، کتاب النکاح ، ص: ٣١٠/ میں ہے

"لايجوز للمرتد أن يتزوج مرتدۃ ولا مسلمة ولا کافرۃ اصلیة وکذلک لايجوز نکاح المرتدۃ مع احد کذا في المبسوط"۔ یعنی کسی مرتد کے لیے جائز ہی نہیں ہے کہ وہ کسی مرتدہ یا مسلمہ یا کسی کافرہ اصلیہ عورت سے نکاح کرے۔ اور یوں ہی کسی مرتدہ عورت کا کسی بھی شخص سے نکاح جائز نہیں جیسا کہ مبسوط میں ہے ۔

اور فتاوی بحرالعلوم ، جلد دوم ، ص: ۴٠١/ میں ہے:

جن دیوبندیوں کے عقائد حد کفر کو پہنچ چکے ہوں اور اس کی بدعقیدگی پر اطلاع بھی حاصل ہوگئی ہو تو ایسے دیوبندیوں کا نکاح انھیں مسلمان سمجھ کر پڑھانا کفر ہے اور کافر سمجھ کر پڑھانا ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔

پس ان عبارات بالا سے معلوم ہوا کہ غیر مقلد وہابی دیوبندی کے نابالغ بچے کی بھی نماز جنازہ پڑھنا یا پڑھانا جائز نہیں بلکہ حرام و گناہ ہے۔

رہی بات سوال میں مذکور غیر مقلد وہابی بڑے آدمی کی نماز جنازہ یا نکاح کی۔

تو اس بارے حکم یہ مولانا کو اس بات کا علم تھا کہ اس غیرمقلد وہابی کا عقیدہ حد کفر پہنچا ہوا ہے اس کے باوجود اُس نے اس غیر مقلد وہابی کی نماز جنازہ یا نکاح اسے مسلمان سمجھ کر پڑھایا تو ایسی صورت میں اس کی نماز جنازہ پڑھانا فقط ناجائز و حرام ہی نہیں بلکہ کفر ہے۔ لہذا ایسی صورت میں اُس مولانا پر لازم ہے کہ پہلے وہ صدق دلی سے توبہ و استغفار کرے بعدہ تجدید ایمان کرے اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی کرے اور اگر کسی پیر سے مرید ہے تو تجدید بیعت بھی کرے ۔ اور اگر اُس نے مسلمان سمجھ کر نہیں بلکہ کافر ہی سمجھ کر جنازہ یا نکاح پڑھایا ہے تو پھر ایسی صورت میں کفر تو نہیں البتہ ناجائز و حرام اور گناہ ضرور ہوا لہذا ایسی صورت میں بھی اُس مولانا پر توبہ و استغفار لازم و ضروری ہے۔

اب اگر وہ مولانا ایسا کرتا ہے تو ٹھیک ۔ ورنہ اُس کی سماجی بائکاٹ کرے اور اس کی اقتدا میں اسے منصب امامت سے معزول کرے اور اُس وقت تک نماز نہ پڑھے جب تک کہ توبہ و استغفار غیرہ نہ کرلے ۔

پس ان عبارات مذکورہ بالا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک غیر مقلد وہابی یا اس کے نابالغ بچے کی نماز جنازہ پڑھانا جائز نہیں اسی طرح کسی غیر مقلد وہابی کا کسی سنیہ صحیح العقیدہ لڑکی سے نکاح پڑھانا بھی جائز نہیں اگر پڑھایا جائے تو نکاح ہوگا ہی نہیں ، پھر بعد نکاح جو بھی قربت ہو زنائے بدنام و بد انجام ہوگا اور گناہ عظیم ہوگا۔ اور جو شخص اس نکاح کو کرانے میں شریک وسہیم ہوگا وہ حدیث کی روشنی میں گناہ گار اور دیوث کہلائے گا ۔

چناں چہ حدیث شریف میں ہے:

"الدالُّ على الشرِّ كفاعلِهِ”۔ 

(طبقات الشافعية الكبرى٦/٣٧٧)

اور اگر سوال میں مذکور غیر مقلد وہابی* کی بد عقیدگی حد کفر کو نہیں پہونچی ہے یعنی نہ وہ اُن کفری عبارات سے واقف ہے جس پر علمائے حرمین شریفین نے فتوی دیا ہے اور نہ خود وہ ایسا کفری عقیدہ رکھتا ہے بلکہ جاننے پر شیاطین وہابیہ و دیابنہ اور ان کی کتب ضلالہ سے براءت کرتا ہے اور اہل سنت و جماعت کے عقائد کو صحیح درست مانتا ہے ، اس کا حال یہ کہ وہ صرف غیر مقلد مولویوں کی ظاہری ، اسلامی صورت اور ان کی نماز روزوں کو دیکھ کر انھیں عالم ، مولانا جانتا ہے ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتا ہے ، اور سنی وہابی اختلافات کو نیاز فاتحہ تک ہی محدود جانتا ہے اور وہ خود فاتحہ و درود و دگر مراسم اہل سنت کو بھی بجا لاتا ہے تو در حقیقت یہ غیر مقلد وہابی ہی نہیں صرف نام کا غیر مقلد وہابی ہے اور گمراہ و مذبذب ہے ۔ لہذا اس سے نکاح کرنا اصلا صحیح ہے اگر چہ یہ بھی گمراہ و مذبذب ضرور ہے۔  لہذا ایسے آدمی کی نماز جنازہ اور نکاح پڑھانے سے بھی ضرور بچنا چاہیے ۔ اس لیے کہ 

فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ:

ایسا گمراہ جس کی بد مذہبی حد کفر کو نہ پہونچی ہو اس سے نکاح کرنا صحیح خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔ مگر چوں کہ بد مذہب سے ، دوستی ، یارانہ جائز نہیں اس لیے ایسے دیوبندیوں سے بھی بیاہ شادی ہرگز ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ شادی بیاہ کے تمام رسموں میں دیوبندیوں سے اختلاط ان کے ساتھ نشست وبرخاست ، ان کے ساتھ خورد ونوش لازمی طور پر ہوتا ہے پھر شادی کے بعد آمد و رفت ، خلط و ملط شروع ہوجاتا ہے ۔ اس لیے ایسی وہابی کا بھی نکاح کارنا جائز نہیں اس لیے جو چیز حرام کی طرف مفضی ہوتی ہے وہ بھی حرام ہوتی ہے اگرچہ اصل میں جائز ہو۔ (ملخصٙٙا از فتاوی شارح بخاری جلد دوم وسوم)

اور قرآن مقدس میں بھی  ظالموں بد مذہبوں کے پاس بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے

جیساکہ اوپر گزرا ۔

اور قرآن مقدس میں ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے کہ:

ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان۔ یعنی اور سرکشی کے کام میں مدد مت کرو ۔

اور ایک حدیث پاک میں ہے:

ایاکم وایاھم لایضلونکم ولایفتنونکم " یعنی اپنے کو اس سے دور رکھو اور ان کو اپنے سے رکھو کہیں تم کو وہ گمراہ نہ کردیں کہیں تم کو وہ فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ 

لہذا واضح ہوا کہ جن کے عقائد کفر تو نہیں بلکہ بد مذہبی کی حد تک بھی اگر  پہنچی ہوئی ہو تو ایسے لوگوں کی نماز جنازہ یا نکاح پڑھانے سے بھی احتیاط ضروری ہے ۔ خاص کر ائمہ و پیشوا حضرات تو اس پر سختی سے عمل پیرا رہیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کرے ۔

فلھذا اگر مرنے والا غیر مقلد وہابی یا جس کا نکاح پڑھایا گیا ہے وہ اس قسم کا غیر مقلد تھا یعنی ان کی بدعقیدگی حدکفر کو نہیں پہنچی تھی فقط گمراہی کی حد تک تھی تو ایسی صورت میں ایسی قسم کے لوگوں کی نماز جنازہ یا نکاح پڑھانے والے مولانا پر کفر جیسا سنگین حکم تو عائد نہ ہوگا ۔

البتہ بطور احتیاط توبہ و استغفار ان پر بھی لازم ہے۔

(٣) اسی طرح اگر کوئی سنی عالم اس کی بدعقیدگی کو جانے اور اسے کے باوجود بھی لوگوں کے ڈر سے ، یا نذرانہ کی لالچ میں، یاملامت کے خوف سے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ یا نکاح نکاح پڑھا دے ، مگر دل میں اس کی نفرت موجود ہو ، تو ایسی صورت میں وہ عالم مرتد نہیں، نہ اس کے نکاح سے اس کی بیوی نکلی۔ مگر اس پر ضروری ہوگا کہ وہ علانیہ توبہ و استغفار کرے ، نکاح کے ناجائز ہونے کا اعلان کرے ، نکاحانہ پیسہ بھی واپس کرے اور وکیل وگواہان بھی توبہ کریں ۔

اور اگر عالم اس کے کفری عقائد کو درست وصحیح جانتے ہوئے جنازہ یا نکاح پڑھایا ہے تو اب وہ مولانا اسلام سے نکل گیا اور تجديد ایمان اور بیوی والا ہے تو تجديد نکاح دونوں ضروری ہوگا.

جیساکہ اوپر ہم نے اس کو بیان کیا ہے ۔

ھذہ خلاصة ممافی فتاوی فیض الرسول ، جلد : اول ، ص: ٦٠٩،  ٦١٠ ،کتاب النکاح، فصل فی المحرمات۔

(۴): اب رہی بات یہ کہ اھل محلہ کا امام کو مزدور تصور کرنا سراسر شریعت مطہرہ کے تقاضے کے خلاف ہے۔ جو لوگ ایسا سوچتے ہیں ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنی اس گندی سوچ سے فورا توبہ کرلیں ۔

اس لیے کہ اسلام اور مسلم معاشرے میں امامت ایک معزز منصب رہا ہے اور اس پر فائز رہنے والے لوگوں کو عام و خاص ہر طبقے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے ، کیوں کہ امام ملازم نہیں ، بلکہ قوم کا قائد و رہبر ہوتا ہے ، امام صاحب کا احترام اور ان کی خبر گیری کرنا تمام محلہ والوں کی انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔

امامت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امامت سنت نبوی ﷺاور سنت صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم ہے ، آپﷺ امامت جبرئیل علیہ السلام کے بعد سے تاحیات امامت فرماتے رہے۔ آپ ﷺکے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنھم اور مسلم سلاطین اس منصب کو اپنے لیے شرف کا باعث سمجھتے ہوئے امامت کرتے رہے ہیں۔

یقینا اسلام میں منصب امامت کی بہت بڑی اہمیت ہے ، یہ ایک باعزت ، باوقار اور قابل قدر دینی شعبہ ہے ، یہ مصلّٰی درحقیقت رسول اللہﷺکا مصلّٰی ہے ، امام نائبِ رسول ہوتا ہے ۔ نیز اللہ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان ایک اہم وسیلہ کی حیثیت رکھتاہے ؛ اس لیے احادیث میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔

چناں چہ امام ترمذی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک حدیث نقل فرمایا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا :

تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلےپر ہوں گے: ایک وہ جس نے اللہ کے اور اپنے غلاموں کے حقوق اداکیے ہوں گے ، دوسرا وہ شخص جس نے لوگوں کی امامت کی اور اس کے مقتدی اس سے خوش رہے۔ اور تیسرا وہ شخص جس نے روزانہ پانچ وقت لوگوں کو نماز کی دعوت دی۔ یعنی جو اذان دیا کرتا تھا، اس حدیثِ پاک سے یہ لوب واضح ہوچکی کہ امامت اور موذنی اللہ کے نزدیک کتنا قابل عزت و تکریم عمل ہے اور دونوں قسم کے لوگوں کے لیے من جانب اللہ کتنی خاص رحمت ومہربانی ہے۔

اور ایک دوسری حدیث پاک میں ہے کہ:* حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

امام و مؤذن کو ان کے برابر ثواب ہے جنھوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے- (بہار شریعت : جلد اول ، ص: ۵۵٨)

اس حدیث سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شریعت میں امام کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہے! کوئی شخص اگر نماز پڑھتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو اسے صرف اپنی نماز اور اپنے نیک عمل کا اجر ملتا ہے لیکن امامت ایک ایسا اعلی اور جامع ثواب عمل ہے کہ امام کو فقط اپنی نماز کا ثواب نہیں بلکہ ان کے پیچھے جتنے بھی لوگ نماز ادا کرتے ہیں ان سب نمازیوں کے برابر کا بھی ثواب ملتا ہے اس طرح اللّہ تعالٰی امام کے نامئہ اعمال میں بے حساب نیکیوں کا اضافہ فرماتا ہے۔ 

*ایک تیسری حدیث پاک میں ہے کہ:* تم میں جو سب سے بہتر ہو ، اس کو امام بناؤ کیوں کہ وہ تمھارے اور تمھارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امامت کا منصب کوئی معمولی منصب نہیں ہے ؛ بلکہ امام قوم میں سب سے افضل و برتر اور ان کی نمازوں کا ضامن و ذمہ دار ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ نبی پاکﷺکے وصال فرمانے کے بعد امر خلافت کو لے کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے درمیان اختلاف ہوا ، تو بالاتفاق حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہہ کر خلیفہ منتخب کیا گیا کہ نبی اکرمﷺ نے انھیں مرض وفات میں قوم کی نماز کا امام بنایا تھا۔

منصب امامت کے افضل ہونے کاذکر کرتے ہوئے امام غزالی ؒلکھتے ہیں:

”بعض سلف کا قول ہے:

 انبیاء علیھم السلام کے بعد علما سے افضل کوئی نہیں اور ان کے بعد نماز کے امام سے افضل کوئی نہیں ؛ کیوں کہ یہ تینوں فریق(انبیا ، علما اور ائمہ) اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کے مابین رابطے کا ذریعہ ہیں۔

انبیا علیھم السلام تو اپنی نبوت کے باعث ، علما علم کی وجہ سے اور ائمہ کرام دین کے سب سے زیادہ اہم رکن(نماز) کے سبب“۔(احیاء العلوم)

شریعت مطھرہ میں امام کے کچھ حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

پہلا حق : امام کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کو امام تسلیم کیا جائے اگر کسی میں امامت کی جامع شرائط پائی جا رہی ہیں اور مسجد انتظامیہ متفقہ فیصلے سے اس کو امام منتخب کرچکی ہے تو اس کو امام تسلیم کر لینا چاہیے خواہ مخواہ اس کی ذات پر کیچڑ نہ اُچھالا جائے۔ 

دوسرا حق :

  امام کا دوسر احق یہ ہے کہ امام کی غیبت ، چغلی وغیرہ سے بچا جائے کیوں کہ غیبت کرنا ویسے ہی بُرا کام ہے کہ غیبت کرنے والا گویا اپنے مردار بھائی گوشت کھاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے پیش امام کی غیبت کرنا کس قدر بُرا ہوگا لہذا اپنے مسجد کے امام کی غیبت وغیرہ کرنے سے بچنا چاہیے۔

تیسرا حق : امام کا حق ہے کہ اس کی عزّت کی جائے اور ہونی بھی چاہیے کیوں کہ ہماری نمازیں اس امام کے ساتھ وابستہ ہیں جب تک امام نماز شروع نہ کرے ہم نماز شروع نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پیش امام کی عزّت کریں اور طعنہ زنی کا نشانہ نہ بنائیں اور حقارت سے دیکھتے ہوئے اسے مزدور نہ سمجھیں ۔

چوتھا حق: جہاں امام کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت کی جائے وہیں امام کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی بھی کی جائے امام کو پریشان دیکھ کر اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی جائے اور ہمت بڑھائی جائے اور ان کو حوصلہ دیا جائے۔ 

ان مذکورہ بالا ساری عبارات سے اب خوب واضح ہوچکا کہ* امام کو مزدور نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ انھیں اپنا رہبر و قائد تصور کرنا چاہیے اور ہرممکن طور پر اس کی تعظیم و توقیر کرنی چاہیے ۔ فلھذا جو لوگ امام کو حقارت سے دیکھتے ہیں ، انھیں مزدور سمجھتے ہیں وہ فورا اپنی اس غلیظ اور خبیث سوچ سے توبہ کریں ۔ فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔

کتبہ:

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ

خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا ، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،

٢٠/رجب المرجب ١۴۴۵/ ہجری

١/ فروری ٢٠٢۴عیسوی۔

Post a Comment

0 Comments