بیرون ھند مقیم عورت اپنے زیور کی زکاة کہاں کے حساب سے ادا کرے گی

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے کہ ہندہ کے پاس نو تولہ سونا ہے اور ہندوستان سے باہر افریقہ میں رہتی ہے تو اب اگر ہندہ  اپنے سونے کی زکوة قیمت سے ادا کرنا چاہے تو ہندوستان کی قیمت کے اعتبار سے ادا کرے گی یا پھر افریقہ کی قیمت کے لحاظ سے؟ جواب مرحمت فرمائیں۔


الجواب بعون الملک الوھاب

سوال میں مذکور ہندہ کا سونا جہاں جس ملک میں رکھا ہوا ہے وہاں کی قیمت کے اعتبار سے وہ زکوة ادا کرے گی جیساکہ

*درمختار مع شامی جلد دوم ، ص: ٣۵۵/ میں ہے:*

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال ، وفي الوصية مكان الموصي ، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنہ"۔

ھدایة میں ہے:

وحیلة المصری اذا اراد التعجیل ان یبعث بھا الی خارج المصر فیضحی بھا کما طلع الفجر لانھا تشبہ الزکاة من حیث انھا تسقط بھلاک المال قبل مضی ایام النھر الزکاة بھلاک النصاب فیعتبر فی الصرف مکان المحل لا مکان الفاعل اعتبارا بھا بخلاف صدقة الفطر لانھا لاتسقط بھلاک المال بعد ما طلع الفجر من یوم الفطر"۔ اور شہری کا حیلہ جب کہ وہ قربانی جلدی کرنا چاہے یہ ہے کہ وہ قربانی والے جانور کو شہر سے باہر بھیج دے تو اسے فجر طلوع ہوتے ہی ذبح کیا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ زکوة کے مشابہ ہے اس اعتبار سے کہ ایام نحر سے پہلے مال کے ہلاک ہونے سے ساقط ہو جاتا ہے جیسے زکوۃ ساقط ہوجاتی ہے نصاب کے ہلاک ہونے سے پس ادائیگی میں محل کے مکان کا اعتبار ہوگا نہ کہ فاعل کے مکان کا زکوۃ پر قیاس کرتے ہوئے برخلاف صدقہ فطر کے کیوں کہ یوم عید الفطر کی فجر طلوع ہونے کے بعد مال کے ہلاک ہونے سے یہ ساقط نہیں ہوتا ۔ (ھدایة آخرین ، کتاب الاضحیة ، ص : ۴۴٦/ مطبوعہ لاہور)

ھدایہ کی مذکورہ عبارت کے تحت بنایہ میں ہے:

 (بخلاف صدقة الفطر) حیث یعتبر فیھا مکان الفاعل وھو المودی (لانھا لا تسقط بھلاک المال بعد ما طلع الفجر من یوم الفطر فحینئذ یعتبر مکان صاحب الذمة وھو المودی"۔ 

ترجمہ : برخلاف صدقہ فطر کہ اس میں فاعل کے مکان کا اعتبار ہے اور فاعل سے مراد ادا کرنے والا ہے ، کیوں کہ یوم عید الفطر کی فجر طلوع ہونے کے بعد مال کے ہلاک ہونے سے یہ ساقط نہیں ہوتا پس اب جس کے ذمہ صدقہ فطر لازم ہے اس کے مکان کا اعتبار ہوگا اور وہ ادا کرنے والا ہے ۔(البنایة شرح الھدایة کتاب الاضحیة جلد ١١ ، ص: ٢٧، ٢٨، مطبوعہ کوئٹہ)

اور بہار شریعت میں عالمگیری کے حوالے سے مذکور ہے:

"قیمت اس جگہ کی ہونی چاہیے جہاں مال ہے اور اگر مال جنگل میں ہو تو اُس کے قریب جو آبادی ہے وہاں جو قیمت ہو اس کا اعتبار ہے"۔

فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا:

زید ممبئی میں رہتا ہے اور اس کے بچے وطن میں ہیں تو ان کے صدقہ فطر کے گیہوں کی قیمت وطن کے بھاو سے ادا کرے یا ممبئی کے بھاو سے ؟ اور زیورات جن کا وہ مالک ہے وہ وطن میں ہیں تو زکوة کی ادائیگی میں کہاں کا اعتبار ہے؟

تو آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:

بچے اور زیورات جب کہ وطن میں ہیں تو صدقہ فطر کے گیہوں میں بمبئی کی قیمت کا اعتبار کرنا ہوگا اور زیورات میں وطن کی قیمت کا۔ لانہ یعتبر فی صدقة الفطر مکان المودی وفی الزکوة مکان المال ھکذا قال صاحب الھدایة فی کتاب الاضحیة"۔ (فتاوی فیض الرسول ، جلد اول ، ص: ۵١١)

فقط واللہ ورسولہ اعلم

کتبہ

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ

خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا وخطیب وامام گلشن مدینہ مسجد واگرہ بھروچ گجرات ۔

١/رمضان المبارک ١۴۴۴

٢۴/ مارچ ٢٠٢٣ بروز جمعہ

Post a Comment

0 Comments