کفریہ عقائد سے بے خبر دیوبندی، وہابی سے مناکحت کا کیا حکم ہے

مکرمی جناب مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ مزاج عالی بخیر ہوگا

بعدہ عرض ہے کہ علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں کہ.. 

زید اپنے بیٹے بکر کا عقد ایسی لڑکی (فاطمہ) سے کرنا چاہتا ہے جس کے گھر والے اور خود لڑکی بھی علمائے دیوبند کے کفریہ عقائد سے ناواقف اور جاہل ہیں لیکن خود کو دیوبندی ہونے کا دعوی کرتے ہیں نیز فاطمہ کو سنی طور طریقوں سے کوئی بیر نہیں ہے اور سنیوں کے عقائد و نظریات کو کماحقہ و اختیار کرنے کے لیے تیار ہے. ایسے میں کیا یہ عقد کرنا درست ہوگا؟ ازروئے شرع مطلع فرمائیں. عین نوازش ہوگی 

المستفتی؛ محمد اختر رضا اشرفی لوہردگا

حامد و مصلیا ومتبسملا

الجواب بعون الملک الوھاب...

اجمالی جواب: علمائے اہل سنت کے نزدیک بکر (سنی) کا فاطمہ (دیوبندی) سے عقد کرنا جائز نہیں ہے.


تفصیلی جواب : عام طور پر ایسے دیوبندی ملنا مشکل ہوتا ہے جسے اکابر دیوبند کے عقائد کفریہ قطعیہ کا علم نہ ہو یا انہیں اپنا امام، پیشوا یا مسلمان نہ جانتا ہو پھر بھی اگر کوئی ایسا ہو جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اس کے باوجود وہ دیوبندی ہونے کا دعوی کرتا ہے تو علمائے اہل سنت کے نزدیک احتیاطا اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی البتہ گمراہ و بد مذہب ہونے کی بنا پر بحکم قرآن و حدیث ایسے لوگوں سے مناکحت وغیرہ امر ممنوع و گناہ ہے. حدیث شریف میں ایسے ہی گمراہوں سے متعلق مذکور ہے لاتجالسوھم ولاتواکلوھم ولاتناکحوھم یعنی نہ ان کے ساتھ بیٹھو نہ ان کے ساتھ کھاؤ اور نہ ان سے نکاح کرو (فتاوی رضویہ قدیم؛ جلد 6 صفحہ 103)

لہذا دونوں صورتوں میں فاطمہ (دیوبندی) سے نکاح کرنا بکر کے لیے جائز نہیں ہے.

فاطمہ کا یہ کہنا کہ "اسے سنیوں کے طور طریقوں سے کوئی بیر نہیں ہے اور سنیت کو کما حقہ اپنانے کے لیے تیار ہے دو وجہوں سے ہو سکتا ہے ایک یہ ہے کہ اس کی شادی اس کے من پسند لڑکے سے ہو جائے اور عقد میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو. دوسری یہ ہے کہ وہ واقعی عقائد باطلہ سے تائب ہو کر سنیت کو اپنانے کے لیے تیار ہے. پہلی صورت میں نکاح کا حکم وہی ہے جو مذکور ہوا. دوسری صورت میں نکاح منعقد ہو جائے گا جبکہ عقد نکاح سے پہلے لڑکی عقائد باطلہ سے تائب ہو کر سنیت پر عمل پیرا ہو جائے اور اپنے دیوبندی والدین سے مکمل دور و نفور ہو لیکن اس میں بھی خیر نہیں ہے کیونکہ نکاح الفت و محبت کا مضبوط ذریعہ ہے اور محبت آدمی کو اندھا اور گونگا بنا دیتی ہے کما قال علیہ السلام حبک الشيئ یعمی و یصم رواہ احمد و البخاری فی التاریخ..

اور عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ مرد بیوی کی محبت میں اپنے گمراہ یا بد مذہب ساس سسر سے یہ کہہ کر میل جول رکھنا شروع کر دیتا ہے کہ ان کا دین ان کے ساتھ، ہمارا دین ہمارے ساتھ اور دھیرے دھیرے سنیت میں وہ کمزور پڑ جاتا ہے اور کمزور نہ بھی ہو تو دیوبندی اور تبلیغی ساس سسر سے میل جول، ان کے ساتھ نشست و برخاست، کھان، پان بجائے خود ایک امر ناجائز و گناہ ہے. جس پر شارع علیہ السلام کا فرمان عالیشان شاہد عدل ہے حدیث شریف میں ہے

اياكم واياهم لا يضلونكم ولا يفتنونكم وان مرضوا فلا تعودوهم وان ماتوا فلا تشهدوهم وان لقيتموهم فلا تسلموا عليهم لا تجالسوهم ولا تشاربوهم ولا تواكلوهم، لا تصلوا عليهم ولا تصلوا معهم، رواه مسلم و ابوداؤد و ابن ماجه والعقيلي و ابن حبان.. یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: " ان سے الگ رہو۔ انھیں اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں اور وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں، وہ بیمار پڑیں تو پوچھنے نہ جاؤ ، مر جائیں تو جنازے میں حاضر نہ ہو، جب انہیں ملو تو سلام نہ کرو، ان کے پاس نہ بیٹھو، ساتھ پانی نہ پیو، ساتھ کھانا نہ کھاؤ، ان کے جنازے کی نماز نہ پڑھو، ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو۔ (مذکورہ حدیث امام مسلم ، ابوداؤد، ابن ماجہ عقیلی اور ابن حبان کی مرویات کا مجموعہ ہے ) فتاوی رضویہ قدیم ، ج : 6 ص 170 ملخصا ] بحوالہ فتاویٰ ازہری دار الافتاء

خلاصہ کلام یہ ہے کہ بہر صورت بکر کا عقد نکاح فاطمہ کے ساتھ ناجائز و گناہ ہے.

ھذاما عندی والعلم عند اللہ تعالیٰ و رسولہ جل جلالہ و صلی اللہ علیہ و سلم 

حوالہ جات :

1: فتاوی رضویہ قدیم ج 5 ص 261 میں ہے.. 

دنیا کے پردے پر کوئی وہابی ایسا نہ ہوگا جس پر فقہائے کرام کے ارشادات سے کفر لازم نہ ہو اور نکاح کا جواز و عدم جواز نہیں مگر ایک مسئلہ فقہی تو یہاں حکم فقہا یہی ہوگا کہ ان سے مناکحت اصلا جائز نہیں خواہ مرد وہائی ہو یا عورت وہابیہ اور مرد سنی ، ہاں ضرور یہ ہے کہ ہم اس باب میں قول متکلمین اختیار کرتےہیں اور ان میں جوکسی ضروری دین کا منکر نہیں نہ ضروری دین کے کسی منکر کو مسلمان کہتا ہے اسے کافر نہیں کہتے مگر یہ صرف برائے احتیاط ہے، دربارہ تکفیر حتی الامکان احتیاط اسی میں ہے کہ سکوت کیجیے مگر وہی احتیاط جو وہاں مانع تکفیر ہوئی تھی یہاں مائع نکاح ہوگی کہ جب جمہور فقہائے کرام کے حکم سے ان پر کفر لازم تو ان سے مناکحت زنا ہے تو یہاں احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے دوررہیں اور مسلمانوں کو باز رکھیں. للہ انصاف کسی سنی صحیح العقیدہ معتقد فقہائے کرام کا قلب سلیم گوارا کرے گا کہ اس کی کوئی عزیزه کریمہ ایسی بلا میں مبتلا ہو جسے فقہائے کرام عمر بھر کا زنا بتائیں، تکفیر سے سکوت زبان کے لیے احتیاط تھی اور اس نکاح سے احتراز فرج (شرمگاہ) کے واسطے احتیاط ہے کہ یہ کون سی شرع ہے کہ زبان کے باب میں احتیاط کیجئے اور فرج کے بارے میں بے احتیاطی ، انصاف کیجے تو بنظر واقع حکم اس قدر سے منقح ہو لیا کہ نفس الامر میں کوئی وہابی ان خرافات سے خالی نہیں نکلے گا اور احکام فقہیہ میں واقعات ہی کا لحاظ ہوتا ہے نہ احتمالات غیر واقعہ کا بل صرحوا ان احكام الفقه تجرى على الغالب من دون النظر الى النوادر ".

بحوالہ ازہری دار الافتاء.

2: لايجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولا مسلمۃ ولا کافرۃ اصلیۃ و کذالک المرتدہ مع احد کذا فی المبسوط


کتبہ : محمد چاند علی اشرفی قمر جامعی

خادم التدريس و الافتاء : مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ

تاریج ٢٣ ربیع الآخر ١٤٤٦ ھ

Post a Comment

0 Comments