محراب و منبر مسجد کے احکام
السلام علیکم ورحمتہ الله
کیا فرماتے ہیں مسئلۂ ذیل میں کہ مسجد کا محراب جہاں امام کھڑے ہو کر نماز پڑھاتاہے وہ وسط مسجد میں ہوناہے یا اور کہیں اور۔ اگر کسی مسجد کا محراب دائیں یا بائیں جانب زیادہ ہو تو کیا حکم ہے آیا محراب شہید کرکے دوبارہ تعمیر کی جائے یا اسی میں نمازیں پڑھائی جائے نیز یہ بھی فرمائیں کہ ممبر کی سیڑھیاں کتنی مسنون ہیں دونوں کی تحقیق حوالہ جات کی روشنی میں دے کر عند الله ماجور ہو
سائل: مولانا عبدالخالق اشرفی، تھانہ چوپڑا، بنگال
الجواب بعون الملک الوھاب:
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
۱: سنت متوارثہ یہ ہے کہ امام نماز میں وسط مسجد میں کھڑا ہو اور یہی حقیقی محراب ہے۔ اور دیوار قبلہ کے وسط میں جو ایک طاق نما خلا بنایا جاتا ہے، وہ در اصل محراب صوری ہے جو اس محراب حقیقی کی علامت ہے۔ اگر یہ محراب صوری غلطی سے غیر وسط میں بنائی جائے تو اس کا اتباع نہ ہوگا بلکہ امام وسط میں ہی کھڑے ہوکر نماز پڑھائے گا۔
رہا یہ کہ کیا اس محراب کو شہید کر کے دوبارہ تعمیر کی جا سکتی ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ عام حالات میں محراب شہید کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں! کوئی خاص صورت ہو تو اس کی تفصیلات پر غور کرنے کے بعد ہی کچھ حکم دیا جا سکتا ہے۔
سنن ابی داوُد میں ہے
" عَنْ يَحْيَى بْنِ بَشِيرِ بْنِ خَلَّادٍ ، عَنْ أُمِّهِ ، أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، فَسَمِعَتْهُ يَقُولُ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَسِّطُوا الْإِمَامَ وَسُدُّوا الْخَلَلَ ".(سنن أبي داود ،كتاب الصلاة ،تفريع أبواب الصفوف ،باب مقام الإمام من الصف)
رد المحتار میں ہے
"السُّنَّةُ أَنْ يَقُومَ الْإِمَامُ إزَاءَ وَسَطِ الصَّفِّ، أَلَا تَرَى أَنَّ الْمَحَارِيبَ مَا نُصِبَتْ إلَّا وَسَطَ الْمَسَاجِدِ وَهِيَ قَدْ عُيِّنَتْ لِمَقَامِ الْإِمَامِ(رد المحتار،كتاب الصلاة، باب الإمامة)
اسی میں ہے
"قَوْلُهُ وَيَقِفُ وَسَطًا) قَالَ فِي الْمِعْرَاجِ: وَفِي مَبْسُوطِ بَكْرٍ: السُّنَّةُ أَنْ يَقُومَ فِي الْمِحْرَابِ لِيَعْتَدِلَ الطَّرَفَانِ، وَلَوْ قَامَ فِي أَحَدِ جَانِبَيْ الصَّفِّ يُكْرَهُ، وَلَوْ كَانَ الْمَسْجِدُ الصَّيْفِيُّ بِجَنْبِ الشِّتْوِيِّ وَامْتَلَأَ الْمَسْجِدُ يَقُومُ الْإِمَامُ فِي جَانِبِ الْحَائِطِ لِيَسْتَوِيَ الْقَوْمُ مِنْ جَانِبَيْهِ"(المصدر السابق)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
"وَيَنْبَغِي لِلْإِمَامِ أَنْ يَقِفَ بِإِزَاءِ الْوَسَطِ فَإِنْ وَقَفَ فِي مَيْمَنَةِ الْوَسَطِ أَوْ فِي مَيْسَرَتِهِ فَقَدْ أَسَاءَ لِمُخَالَفَةِ السُّنَّةِ.(الفتاوى الهندية ،كتاب الصلاة ،الباب الخامس في الإمامة ،الفصل الخامس في بيان مقام الإمام و المأموم)
فتاویٰ رضویہ میں ہے "امام کے لئے سنت متوارثہ کہ زمانہ اقدس رسالت سے اب تک معہود وسط مسجد میں قیام ہے کہ صف پوری ہو توامام وسط صف میں ہو اور یہی جگہ محراب حقیقی ومتورث ہے، محراب صوری کہ طاق نماایک خلا وسط دیوار قبلہ میں بنانا حادث ہے اُسی محراب حقیقی کی علامت ہے، یہ علامت اگر غلطی سے غیروسط میں بنائی جائے اس کا اتباع نہ ہوگا مگرمراعات توسط ضروری ہوگی کہ اتباع سنت وانتفائے کراہت وامتثال ارشاد حدیث توسطوا الامام (امام درمیان میں کھڑا ہو۔ت(فتاویٰ رضویہ ،جلد ٧، ص:٣٨، رضا فاؤنڈیشن لاہور )
۲: امام دو خطبوں کے دوران جس جگہ بیٹھتا ہے،اس کے علاوہ منبر مسجد میں تین سیڑھیاں مسنون ہیں۔
رد المحتار میں ہے
" وَمِنْبَرُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ ثَلَاثَ دَرَجٍ غَيْرَ الْمُسَمَّاةِ بِالْمُسْتَرَاحِ(رد المحتار، كتاب الصلاة ،باب الجمعة)
فتاویٰ رضویہ میں ہے" منبر اقدس کے تین زینے تھے علاوہ اوپر کے تختے کے جس پر بیٹھتے تھے"(فتاویٰ رضویہ ،جلد ٨، ص:٣٤٣، رضا فاؤنڈیشن لاہور )
و الله أعلم
كـتـبـه سرور المصباحي،
المتدرب على الإفتاء بالجامعة الأشرفية
0 Comments