تکبیر رکوع اور سجدۂ سہو
سوال:
رکوع میں جاتے وقت تکبیر انتقال بھول گیا تو کیا اس سے سجدۂ سہو واجب ہوگا۔ اگر نہیں ہوگا تو غلط فہمی میں اگر کر لیا تو کیا حکم ہے۔؟ بینوا توجروا
سائل: حیدر رضا، دیبی گنج، گوال پوکھر
الجواب بعون الملک الوھاب:
اگر کوئی رکوع میں جاتے وقت تکبیر بھول جائے تو اس سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا ،کیونکہ تکبیر رکوع اور دیگر تکبیرات انتقال سنن نماز سے ہیں ،واجبات سے نہیں ۔اور سجدۂ سہو صرف واجبات کی تلافی کے لیے ہے۔
پھر بھی اگر کوئی سجدۂ سہو کے وجوب کا گمان کر بیٹھے اور سجدۂ سہو کر لےتو اس سے نماز کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، نماز ہو جائے گی۔ہاں! اگر وہ امام ہے اور مسبوق بھی سجدۂ سہو میں شامل تھا تو صرف اس مسبوق کی نماز نہ ہوئی۔
فتاویٰ ہندیہ میں سنن نماز میں ہے
"وَتَكْبِيرُ الرُّكُوعِ وَتَسْبِيحُهُ ثَلَاثًا، وَأَخْذُ رُكْبَتَيْهِ بِيَدَيْهِ، وَتَفْرِيجُ أَصَابِعِهِ، وَتَكْبِيرُ السُّجُودِ وَالرَّفْعِ، وَكَذَا الرَّفْعُ نَفْسُهُ(الفتاوى الهنديه، كتاب الصلاة ،الباب الرابع ،الفصل الثالث في سنن الصلاة و آدابها و كيفيتها)
بدائع الصنائع میں ہے
"أَمَّا التَّكْبِيرُ عِنْدَ الِانْتِقَالِ مِنْ الْقِيَامِ إلَى الرُّكُوعِ فَسُنَّةٌ عِنْدَ عَامَّةِ الْعُلَمَاءِ،(بدائع الصنائع، كتاب الصلاة ،فصل في سنن الصلاة)
در مختار میں ہے
"وَلَوْ ظَنَّ الْإِمَامُ السَّهْوَ فَسَجَدَ لَهُ فَتَابَعَهُ فَبَانَ أَنْ لَا سَهْوَ فَالْأَشْبَهُ الْفَسَادُ لِاقْتِدَائِهِ فِي مَوْضِعِ الِانْفِرَادِ"(الدر المختار، كتاب الصلاة، باب الإمامة)
امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں”بے حاجت سجدہ سہو نماز میں زیادت اور ممنوع ہے مگر نماز ہوجائے گی۔ہاں اگر یہ امام ہے تو جو مقتدی مسبوق تھا یعنی بعض رکعات اس نے نہیں پائی تھیں وہ اگر اس سجدہ بے حاجت میں اس کا شریک ہو ا تو اس کی نماز جاتی رہے گی لانہ اقتدی فی محل الانفراد (کیونکہ اس نے محلِ انفراد میں اس کی اقتدا کی۔ت)“
(فتاوی رضویہ،جلد 6،صفحہ 328، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
واضح رہے کہ عیدین کی دوسری رکعت کی تکبیر رکوع اس سے مستثنی ہے، کیونکہ تکبیرات عید کی تبعیت میں وہ بھی واجب ہے لہذا اسے ترک کردے تو سجدۂ سہو ضرور واجب ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ عیدین و جمعہ میں یہ سجدہ نہ کرنے کا حکم ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
"وَلَوْ تَرَكَ تَكْبِيرَةَ الرُّكُوعِ الثَّانِي فِي صَلَاةِ الْعِيدِ وَجَبَ عَلَيْهِ السَّهْوُ؛ لِأَنَّهَا وَاجِبَةٌ تَبَعًا لِتَكْبِيرَاتِ الْعِيدِ بِخِلَافِ تَكْبِيرَةِ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ؛ لِأَنَّهَا لَيْسَتْ مُلْحَقَةً بِهَا، كَذَا فِي التَّبْيِينِ السَّهْوُ فِي الْجُمُعَةِ وَالْعِيدَيْنِ وَالْمَكْتُوبَةِ وَالتَّطَوُّعِ وَاحِدٌ إلَّا أَنَّ مَشَايِخَنَا قَالُوا لَا يَسْجُدُ لِلسَّهْوِ فِي الْعِيدَيْنِ وَالْجُمُعَةِ؛ لِئَلَّا يَقَعَ النَّاسُ فِي فِتْنَةٍ، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ نَاقِلًا عَنْ الْمُحِيطِ"(الفتاوى الهندية، كتاب الصلاة. الباب الثاني عشر في سجود االسهو)
و الله أعلم
كتبه سرور المصباحي،
المتدرب على الإفتاء بالجامعة الأشرفية
0 Comments