السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شر ع متین مسئلہ ذیل میں کہ ۔۔۔
زید اور ہندہ کے درمیان کچھ دنوں سےمسلسل جھگڑے چل رہے تھے ۔ہندہ (بیوی) کا دعوی ہے کہ زید (شوہر) نے اسے تین طلاقیں دی ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی بار طلاق دینے کی دھمکی دی ہے جبکہ زید (شوہر) طلاق کا بالکل انکار کر رہا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ہندہ کے کہنے سے دونوں کے درمیان طلاق واقع ہوگی؟ جبکہ اس کے پاس کوئی گواہ بھی موجود نہیں ہے یا زید کی بات پر فیصلہ ہوگا ؟قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیںاور عند اللہ ماجور ہوں
المستفتیان: محمد غلام رسول اشرفی،ڈانگی بستی۔ محمد اکرام الحق اشرفی کالوگھاٹ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حامدا و مصلیا
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مسئولہ میں عورت (ہندہ) کا تین طلاقوں کا دعویٰ اور شوہر کا اس سے انکار کرنا، دعویٰ و انکار کا مسئلہ ہے، جس میں شریعت کا واضح اصول یہ ہے: البینة علی المدعی والیمین علی من أنکر، یعنی دعویٰ کرنے والے پر دلیل ہے، اور انکار کرنے والے پر قسم۔
لہٰذاپہلی صورت: اگر ہندہ (بیوی) کے پاس طلاق کے شرعی ثبوت موجود ہوں:مثلاً: دو عادل مرد گواہ، یاشوہر کی تحریر، طلاق نامہ وغیرہ تو طلاق واقع ہوجائے گی ، اور نکاح ختم ہو جائے گا لہذا بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی،عدت گزارنا لازم ہوگا اور دوبارہ نکاح، صرف حلالہ شرعیہ کے بعد ہی ممکن ہوگا۔
دوسری صورت:اگر عورت کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ نہ ہوتو شوہرسے حلف لیاجائے گا اگر شوہر قسم کھانے سے انکار کردے تو فیصلہ عورت کے حق میں ہی ہوگا یعنی طلاق واقع مانی جائے گی۔تیسری صورت: اگربیوی شرعی ثبوت نہ پیش کر سکے اور شوہر اللہ کی قسم کھا کر طلاق دینے سے انکار کرے اور کہے کہ واللہ میں نے طلاق نہیں دی ہے، تو شرعا شوہر کا قول قابلِ اعتبار ہوگا، نکاح بدستور قائم رہے گا، طلاق شرعاً واقع نہ ہوگی اور ہندہ شوہر کی بیوی ہی شمار ہوگی۔البتہ جب عورت کوتین طلاق کایقین ہواور گواہ نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ عدم وقوع طلاق کا ہو تواس پر لازم ہے کہ شوہرکواپنے اوپرقدرت نہ دے اور خلع وغیرہ سے چھٹکارے کی کوئی صور ت بنائے۔
اگرعورت کا دعویٰ جھوٹا ہویعنی عورت جان بوجھ کر شوہر پر طلاق کا جھوٹا الزام لگا رہی ہو، تو یہ نہایت سنگین گناہ اور شرعی جرم ہے۔ ارشاد باری ہے،وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا، فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ۔ ترجمہ:اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ کئے ستاتے ہیں توانہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا ہے۔ اس جھوٹے الزام کی وجہ سےبیوی، کبیرہ گناہ اور شرعی خیانت کی مرتکب ہوگی اور جہنم کے خطرے میں ہے ۔اس پرسرعام توبہ و استغفار لازم ہے۔ لہذا ان لوگوں کا نکاح بدستور قائم رہے گا۔
عورت کے لیے شرعی راستہ:اگر بیوی شوہر سے ناراض یا پریشان ہے، تو شریعت نے اس کے لیے خلع کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ وہ قاضی یا مفتی کے سامنے فسخ نکاح یا علیحدگی کی درخواست دے سکتی ہے، لیکن جھوٹ بول کر طلاق ثابت کروانا سخت حرام ہے۔
واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم
کتبہ : محمد چاند علی قمر جامعی
خادم الدرس: مدرسہ مجتبی اشرفیہ ڈھولیگاوں
تاریخ: ۲۰ ذوالحجہ ۱۴۴۶ ہ
0 Comments