مفتی بدرالقادری کی شخصیت بے مثال تھی..

 ایک قطرہ سو طرح سے سرخرو ہو کر اٹھا

 کچھ لوگوں سے غائبانہ عقیدت ہوتی ہے،ان کے کارنامے ان کا چہرہ ہوتے ہیں،ان کا علم وفضل ان کی عظمت کی دلیل اور ان کی دینی خدمات ان کی ہستی کا آئینہ ہوتی ہیں،نادیدہ معشوق کی طرح ان کی محبت قلب وروح کو معطر کرتی ہے اور زندگی کا ہر لمحہ ان کی یاد سے معمور ہوتا ہے.

مظہر اقبال، فخر مشرق، حضرت *علامہ بدرالقادری* علیہ الرحمہ کی ذات کچھ ایسی ہی تھی، کبھی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوا، مگر دل میں آپ کی عقیدت کا چراغ ہمیشہ روشن رہا، آپ کی منظوم ومنثور تحریریں ہمیشہ ایمان میں جلا، ایقان میں تابانی اور قلب وروح میں انقلاب پیدا کرتی رہیں،آپ کو ماہ نامہ اشرفیہ کی قدیم فائلوں میں دیکھا، آپ کی انقلابی نظموں میں دیکھا، یورپ کی سنگلاخ زمین پر ان کی دینی خدمات کے آئینے میں دیکھا اور شعر وسخن کے آسمانوں میں دیکھا.

آپ کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے، آپ بزرگوں کی یادگار تھے، مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفی رضا خان ،جلالۃ العلم، ابوالفیض حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی، حضرت علامہ سید حامد اشرف کچھوچھوی، حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی، حضرت علامہ محمد شفیع اعظمی اور حضرت علامہ قاری محمد یحییٰ (برداللہ مضاجعھم) جیسے اساطین ملت کی بارگاہ اقدس سے فیض یافتہ تھے، اپنے آپ میں ایک انجمن تھے، حیات مستعار کا ہرلمحہ خدمت دین میں صرف کیا، ایسی ہستیاں بجا طور پر جماعت اہل سنت کی شناخت ہوا کرتی ہیں، دیار یورپ میں بلا شبہہ آپ اہل سنت کی پہچان اور مسلک اعلی حضرت کے سچے نقیب تھے.

٢٦ سے زائد نثر ونظم میں کتابیں یادگار ہیں، آپ کے ذریعے سیکڑوں افراد کو دامن اسلام سے وابستگی ملی، "الرحیل" نظم میں اور "حافظ ملت نمبر" نثر میں آپ کی دستار فضیلت کا طرہ افتخار ہے،الرحیل کے مقدمے میں رئیس القلم حضرت علامہ أرشد القادری علیہ الرحمہ کے زرنگار قلم سے صادر یہ چند جملے آپ کی حیات وخدمات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں :

 *"شخص واحد میں، نظم ونثر کی برابر صلاحیت بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے اور جہاں پیدا ہو جاتی ہے تو ایسے شخص کی تعبیر کے لئے" نادرہ روزگار" اور "مجمع البحرین" سے نیچے کا کوئی لفظ ہی لغت میں موجود نہیں ہے* "(الرحیل ص ٢٣)

زربکف ،گل پیرہن، رنگیں قبا، آتش بجام

ایک قطرہ سو طرح سے سرخرو ہو کر اٹھا


کمال احمد علیمی... جمدا شاہی

Post a Comment

0 Comments