بیوہ عورتیں حج پر جانے کے لئے شادی کرسکتی ہےیا نہیں؟ اگر شادی کرے تو یہ نکاح موقت اور متعہ کے حکم میں ہوگا؟یا نکاح صحیح ہوگا۔۔

بیوہ عورتیں حج پر جانے کے لئے شادی کرسکتی ہےیا نہیں؟ اگر شادی کرے تو یہ نکاح موقت اور متعہ کے حکم میں ہوگا؟یا نکاح صحیح ہوگا۔۔
بیوہ عورتیں حج پر جانے کے لئے شادی کرسکتی ہےیا نہیں؟ اگر شادی کرے تو یہ نکاح موقت اور متعہ کے حکم میں ہوگا؟یا نکاح صحیح ہوگا۔۔


حیله شرعیه برائے حج فرض


سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعض بیوہ عورتیں حج کے ارادہ سے بغیر اپنے کسی محرم رشتہ دار کے بمبئی پہنچ جاتی ہیں اور جب وہاں علم ہو جا تا ہے کہ یوں تنہا حج کے لئے روانہ ہونا درست نہیں تو وہاں بادل نا خواستہ رواداری میں کسی ہمراہی کے ساتھ نکاح کر نے پر مجبور ہوتی ہیں ۔ اس نکاح کی حیثیت متعہ کی سی ہوتی ہے، واضح فرمایئے کہ ایسی صورت میں کیا طریق اختیار کرنا چاہئے؟


 الـجـواب : سوال سے ظاہر کہ یہ بیوہ عورتیں لاعلمی کی حالت میں بمبئی پہنچ جاتی ہیں اور علم ہونے کے بعد ان عورتوں کو اپنے حج فرض یا نفل وغیر ہما کے جائز وصحیح طور پر انجام دینے کا دینی رحجان نکاح کرنے کی دعوت دیتا ہے، چونکہ عورت کا ہر ایسا سفر جو تین دن کی مسافت میں واقع ہو بغیر محرم یا زوج حرام ہے، نیز اگر کوئی عورت بغیر محرم یا زوج حج کرے، تو یہ حج مکروہ ہوگا۔ درمختار ہاشمی ص ۱۳۷ طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ۴۳۸ میں ہے۔ ولو حجت بلامحرم جاز مع الكراهة.

بغیر محرم حج کرلیا تو کراہت کے ساتھ حج ہو جائیگا۔


تو یہ نکاح اس ارتکاب سفر حرام اور حج مکروہ سے بچنے کی غرض سے بطور حیلہ شرعیہ صحیحہ ہوا جو درست و جائز ہے۔

فتاوی عالمگیری مطبوعہ کلکتہ جلد سادس ص ۵۵۹ میں ہے۔

ان كـل حيـلـة يـحـتـال بـهـا الرجل لا بطال حق الغير أو لادخال شبهة فيه أولتمويه باطل فهي مكروهة، وكل حيلة يحتال بها الرجل يتخلص بها عن حرام أوليتوصل بها إلى حلال فهي حسبه. یعنی ہر وہ حیلہ جو کسی غیر کے حق کو باطل کرنے کے لیے یاحق غیر میں شبہ پیدا کر نے کیلئے یا باطل کی ملمع کاری کے لیے کیا جائے مکروہ تحریمی قریب حرام ہے، اور ہروہ حیلہ جوکسی حرام کے ارتکاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے یا کسی امر کو حلال و جائز طریقہ پر انجام دینے کے لیے کیا جائے وہ جائز و صحیح اور بغیر کراہت درست ہے ۔

کسی مردمومن اور مومنہ عورت کے اس صحیح فعل اور درست اقدام کو بادل نخواستہ سے تعبیر کرنا اس کی نیت پر حملہ کرنا اور اس پر بدگمانی کرنا ہے، جو حرام وممنوع بنص صریح قرآن کریم ہے ۔ قال الله تعالى( ياأيها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن إن بعض الظن إثم) -[الحجرات: ۱۲ ] (اے ایمان والو بچو بہتیرے گمان سے بلاشبہ کوئی کوئی گمان گناہ ہوتا ہے ) ( معارف ) ۔ اور اس نکاح صحیحہ کومتعہ یا نکاح موقت جیسا قراردینایا سمجھنا کسی حجت شرعیہ کے بغیر جہل ونا دانی اور بلاشبہ فاسد و باطل ہے، اور مومن ومومنہ کے ساتھ حسن ظن کا جو حکم دیا گیا ہے ، اس کے منافی ہے، چونکہ متعہ اس عقد حرام و باطل کو کہتے ہیں ، جس میں صرف لفظ تمتع یا اس کا کوئی مشتق ضرور پایا جاۓ ،خواہ مدت قلیلہ کا ذکر وتعین ہو یا مدت طویلہ کا یا مدت کا تذکرہ مجہول طریقہ پر ہو یا مدت کا تذکرہ ہی نہ ہواور شہادت بھی نہ ہواورلفظ نکاح یا تزوج یا ان کے ہم معنی الفاظ یا ان کے مشتقات کا ذکر نہ ہواور نکاح موقت وہ عقد حرام و باطل ہے، جولفظ نکاح یا تزوج کے ساتھ ہواور صراحتاً کسی لفظ مدت وتوقیت کا بھی تذکرہ ہو، اور دو گواہ بھی ہوں ۔ 

مجمع الانہر استنبولی جلد اول ص ۱۶۶ میں ہے ۔

(و)لا يصح (نكاح المتعة و الموقت) الفرق بينهما أن يذكر في الموقت لفظ في النكاح أو التزويج مع التوقيت وفي المتعة لفظ اتمتع بك مدة بكذا من المال أو استمتع كمافي اكثر الكتب . نکاح متعہ اور نکاح موقت صحیح نہیں، دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ نکاح موقت میں لفظ نکاح یا تزویج کا ذکر ہوتا ہے، ساتھ ساتھ توقیت ( یعنی اتنے وقت کے لئے نکاح کر رہا ہوں ) بھی ہوتی ہے، اور متعہ میں یہ لفظ ہوتا ہے’’ میں تم سے اتنے پیسے کے بدلے میں اتنی مدت تک کیلئے متعہ کرتا ہوں‘‘جیسا کہ اکثر کتابوں میں ہے۔ ہدا یہ جلد ثانی ص۲۹۲ میں ہے۔ ونكاح المتعه باطل وهو أن يقول لا مرأة اتمتع بك كذامدة بكذا من المال. نکاح متعہ باطل ہے، وہ یہ ہے کہ عورت سے کہے کہ میں تم سے اتنے مال کے بدلے میں اتنے دنوں کیلئے متعہ کرتا ہوں۔

اس کے ص۲۹۳ میں ہے۔ (والنكاح الموقت باطل) مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين الى عشرة أيام . موقت نکاح باطل ہے، جیسے کسی سے دو گواہ کی موجودگی میں دس دن تک کیلئے نکاح کرنا۔

نہا یہ شرح ہدایہ جلد ثانی ص۷۰ میں ہے۔

والفرق بذكر لفظ التزوج في الموقت دون المتعة وكذا بالشهادة فيه دون المتعة. موقتی اور متعہ کا فرق ۔ موقت میں لفظ تزوج کا ذکر ہوتا ہے، متعہ میں نہیں ہوتا۔ موقت میں گواہ ہوتے ہیں ، متعہ میں نہیں. 

بحر الرائق مصری جلد ثالث ص ۱۰۸ میں ہے۔ وفـرق بيـنـهـمـا في النهاية والمعراج بأن يذكر في الموقت لفظ النكاح أو التزويج مع التوقيت وفي الـمـتـعـة لـفـظ اتمتع بك“ أو ”استمتع وفي العناية بفرق آخر : أن الموقت يكون بحضرة الشهود و يذكر فيه مدة معينة بخلاف المتعة.

 النہایۃ اور المعراج میں دونوں کے درمیان میں فرق بتایا گیا ہے کہ موقت میں تعین وقت کے ساتھ لفظ نکاح یا تزویج کا ذکر ہوتا ہے اور متعہ میں یہ لفظ ہوتا ہے۔ میں تم سے متعہ کرتا ہوں یا استمتاع کرتا ہوں ۔‘‘ العنایہ میں ایک دوسرا فرق بتایا گیا ہے۔ نکاح موقت گواہوں کی موجودگی میں ہوتا ہے اور اس میں مدت متعینہ کا ذکر ہوتا ہے، بخلاف متعہ کے ۔

منحۃ الخالق میں ہے۔

ان التـمـتـع مـا اشـتـمـل عـلـى مـادة متعة مع عدم اشتراط الشهود وتعيين المدة وفي الموقت الشهود وتعيين المدة. 

نکاح متعہ میں کوئی ایسا لفظ ضروری ہوتا ہے جس میں ’’م ت ع‘‘ کا مادہ ہوتا ہے اس میں گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہوتی ،نہ مدت کی تعیین شرط ہوتی ہے۔اور موقت میں گواہ اور مدت کی تعیین ہوتی ہے ۔ اور اس نکاح میں جو حج کے موقعہ پر بیوہ عورتیں کرتی ہیں ، اس میں نہ لفظ متعہ یا اس کا کوئی مشتق ہوتا ہے ، نہ وقت نکاح صراحت سے لفظ توقیت و تعین مدت کا تذکرہ ہوتا ہے ، لہذا یہ نکاح نہ متعہ ہے نہ نکاح موقت بلکہ نکاح صحیح و جائز ۔

اگر کسی عقد نکاح میں لفظ تزوج یا نکاح وغیر ہما کے ساتھ لفظ متعہ بھی مذکور ہو تو وہ نکاح بھی ہمارے فقہاۓ احناف کی تصریح کی بناپر صحیح وجائز ہوگا،  اور لفظ متعہ لغو باطل قرار دیا جاۓ گا۔ مجمع الانہر استنبولی ١۲۲میں ہے۔

لوقال اتز وجك متعة انعقد النكاح ولغا قوله متعة كما في الخانية. اگر کہا میں تم سے نکاح کرتا ہوں ، متعہ کے طور پر نکاح منعقد ہو جاۓ گا اور اس کا قول’’ متعہ لغو ہوجاۓ گا. 

اس جزئیہ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ متعہ میں لفظ تزوج یا نکاح نہیں ہوتا صرف لفظ متعہ یا اس کا کوئی مشقق ہوتا ہے، نیز اگر نکاح لفظ تزوج وغیرہ سے شہادت کے ساتھ ہو اور نکاح کی نیت یہ ہو کہ کسی مدت معینہ تک ہی اس عورت کے ساتھ رہوں گا لیکن عقد نکاح میں لفظ توقیت وتعین مدت کا تذکرہ صراحت سے نہ ہوتو یہ نکاح بھی مسلک احناف میں صحیح ہوگا،اور نکاح موقت نہ ہوگا، چونکہ نکاح موقت میں توقیت وتعین مدت کا لفظ صراحت کے ساتھ ہونا ضروری ہے ۔ 

بحرالرائق جلد ثالث ص ۱۰۸ اور مجمع الانہر استنبول ص ١٦٦ میں ہے ۔

ولوتزوجهابنية أن يقعد معهامدة نواهافالنكاح صحيح لأن التوقيت انمايكون بلفظ. 

اگر کسی عورت سے اس نیت سے نکاح کیا کہ اس کے ساتھ مدت متعینہ فی النبیت تک زندگی گزارے گا تو نکاح صحیح ہے۔کیونکہ نکاح موقت کے لئے لفظ توقیت ہونا ضروری ہے۔ تعلیل جزئیہ مذکورہ سے مصرح طور پر معلوم ہوا کہ صرف نیت میں توقیت تعیین مدت،نکاح کو نا جائز نہیں کرتی ، جب تک کہ عقد نکاح میں صراحت کے ساتھ لفظ توقیت تعیین مدت مذکور نہ ہو۔ 

یہ جزئیہ فتاوی عالمگیری مصری جلد اول ص ۲۶۴ میں بھی بحوالہ تبیین الحقائق منقول ہے۔  ولو تزوجهامطلقاوفي نيته أن يقعد معها مدة نواها فالنكاح صحيح كذافي التبيين. کسی عورت سے اگر نکاح کیا اور دل میں یہ ہے کہ ایک مخصوص مدت کے لئے کر رہا ہوں اس نیت پر نکاح صحیح ہے۔ایسا ہی تبیین الحقائق میں ہے۔

    اصل تحقیق یہ ہے کہ نکاح صحیح کی ابتداء اور بنیاد ہی معنی دوام و تابید پر شرعا ہوتی ہے، اس لیے تفریق وفسح قاضی سے یا طلاق وخلع یا موت احدالزوجین سے علاقہ نکاح منقطع ہو جا تا ہے، اور میراث و ایلاءوظہار وغیرہ کے احکام اس پر مرتب ہوتے ہیں ، اور نکاح موقت ومتعہ کی ابتداء اور بنیاد معنی دوام وتا بید پرنہیں ہوتی، اسی لیے بغیر طلاق وخلع یا موت احد الزوجین وغیر ہا کے ہی انقطاع مدت معینہ کے بعد یا عورت سے علیحدگی کے بعد عقد متعہ وموقت منقطع ہو جا تا ہے اور اس پر احکام نکاحِ صحیح میراث وایلا ، وظہار وغیرہ مرتب نہیں ہوتے اور نکاح موقت ومتعہ سے عورت پر طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ۔ عنایہ شرح ہدایہ میں زیر قول ماتن‘‘والنکاح باطل“ جلد ثانی ص ٧ پر مسطور ہے۔

وهـو قـول عـامـة الـفـقـهـاء و في المحيط كل نكاح موقت متعة. وفي ملتقى الابحر النكاح الموقت في معنى المتعة عندنا

یہی عام فقہاء کا قول ہے اور محیط میں ہے۔ ہر’’ وقتی نکاح متعہ ہے .... نکاح موقت ہمارے نزدیک متعہ کے معنی میں ہے۔

اس کےص ٧١ میں ہے۔

مقتضى قوله تزوجتك التابيد لأنه لم يوضع شرعا الا لذالك. اس کے قول میں نے تم سے نکاح کیا‘‘ کا مقتضا تابید یعنی نکاح ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے کیونکہ یہ لفظ شرعا اس کیلئے وضع کیا گیا ہے۔

 بحر الرائق جلد ثالث ص۱۸۰ اور مجمع الانہر استنبولی ص ۱٦٦ میں فتح القدیر شرح ہدایہ سے منقول ہے ۔ 

والـتـحـقـيـق مـافـى فتح القدير أن معنى المتعة عقد على امرأة لا يراد به مقاصد عقد النكاح من القرار للولد وتربيته بل إما الى مدة معينة ينتهى العقد بانتهائها أوغير معينة بمعنى بقاء العقد ما دام معها الى أن ينصرف عنها فيدخل فيه ما بمادة المتعة والنكاح الموقت أيضا فيكون من افراد المتعة. 

فتح القدیر کے مطابق تحقیق یہ ہے کہ متعہ کا معنی عورت سے اس نیت سے نکاح کرنا جس میں اولاد کا حصول، اس کی پرورش وغیرہ مقاصد عقد نکاح کا ارادہ نہیں ہوتا بلکہ یا تو ایک متعینہ مدت کیلئے عقد کا ارادہ ہوتا ہے، یہ عقد مدت کے ختم ہوتے ہی ختم ہو جا تا ہے، یا غیر معین مدت کیلئے ہوتا ہے ۔ اس وقت تک نکاح باقی رہتا ہے ، جب تک عورت کے ساتھ ہے، اس سے دور ہوتے ہی نکاح ختم ہو جا تا ہے، لہذا اس کے اندر وہ تمام الفاظ جو متعہ کے مادہ ( م ت ع ) سے ہیں داخل ہو جائیں گے۔ نیز نکاح موقت بھی داخل ہو جاۓ گا۔ لہذا یہ بھی متعہ کے افراد میں سے ہو گیا۔

فتاوی عالمگیری مصری جلد اول ص ۲۶۴ میں ہے۔ 

نـكـاح الـمـتـعـة بـاطل لا يفيد الحل ولا يقع عليها طلاق ولا ايلاء ولا ظهارولايرث أحدهما من صاحبه، هكذا في فتاوی قاضی خان فی الفاظ النكاح. وهو أن يقول لامرأة خالية من الموانع: اتمتع بك، كذا مدة عشر أيام مثلاأويقول أياما أومتعيني نفسك أياما أوعشرة أيام ولم يذكر أياما بكذا من المال، كذا في فتح القدير. 

نکاح متعہ باطل ہے ، اس سے عورت حلال نہیں ہوگی ، اس پر طلاق ،ایلاء ،ظہار وغیرہ مرتب نہیں ہوگا ، نہ ایک دوسرے کا وارث ہوگا۔ ایسا ہی فتاوی قاضی خاں میں ہے ۔ متعہ یہ ہے کہ کسی عورت سے جوموانع نکاح سے خالی ہو کہے ۔’’میں تم سے دس دن کیلئے متعہ کر رہا ہوں‘‘یا صرف ایام کہے۔ یا کہے۔’’مجھے اپنے نفس سے پیش کر نے دے‘‘۔ چند دن ، یا دس دن یا مدت کا ذکر نہ کرے،اتنے مال کے بدلے میں ۔ ان دلائل شرعیہ و براھین دینیہ کی روشنی میں آفتاب نصف النہار کی طرح واضح ہوا کہ مذکورہ بالا بیوہ عورتوں کا نکاح صیح و جائز اور بلاشبہ حلال ومباح ہے، چونکہ اس عقد نکاح میں نکاح کے جملہ مقاصد و معانی اور تمام مبادی ومبانی موجود ہیں اور اس نکاح صحیح پر اس کے تمام احکام بھی مرتب ہوں گے ، لہذا اس نکاح کو متعہ یا نکاح موقت قرار دینا باطل محض غلط ہے، اور جب یہ نکاح صحیح و درست ہے، تو پھر دوسراطریقہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ، نیز بعضے صورتوں اجلہ فقہاء کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عورت پر نکاح کر کے شوہر کے ساتھ حج ادا کرنے کو واجب قرار دیا ہے، اور اکابر علمائے مرجحین نے اس کو ترجیح دے کر اسی پر فتوی دیا ہے ۔ فقہاۓ احناف کا اس امر میں اختلاف رہا ہے کہ وجود محرم یا زوج عورت کے حق میں ادائے حج کے لیے شرط ہے یا نفس وجوب حج کے لیے شرط ہے۔ دونوں قول فقہاۓ کرام کے ملتے ہیں محقق علی الاطلاق علامہ کمال الدین ابن ہمام رضی اللہ عنہ نے قول اول کو راجح بتایا ہے کہ عورت کے لیے محرم یا زوج کا ہونا اداۓ حج کے لیے شرط ہے ۔اس قول کی بنا پر جب کسی غیر شادی شدہ یا بیوہ عورت پر حج فرض ہواور وہ اتنی مالدار ہو کہ نکاح کرنے کے بعد اپنے شوہر کوبھی اپنے ساتھ حج کرا سکے تو ایسی عورت پر واجب ہے کہ وہ نکاح کر کے شوہر کے ساتھ حج فرض ادا کرے ۔ 

بحر الرائق مصری جلد ثانی ص ۳۱۵ و ۳۱۶ میں ہے۔ 

واشار الـمـصـنـف الـى أن أمـن الـطريق والمحرم من شرائط الوجوب؛ لأن عطفه على ماقبله وهو احد الـقـولـيـن وقـيـل شـرط وجوب الاداء وثـمـرة الاختلاف تظهر في وجوب الوصية وفي وجوب نفقة الـمـحـرم وراحـلتـه اذا ابـى أن يـحـج مـعها الا بهما وفي وجوب التزوج عليها ليحج معها أن لم تجد مـحـرمـا فمن قال هو شرط الوجوب قال لا يجب عليها شئى من ذالك؛ لأن شرط الوجوب لا يجب تـحـصـيـلـه ولهذالو ملك المال كان له الا متناع من القبول حتى لا يجب عليه الحج وكذا لو ابيح له ومن قال انه شرط وجوب الاداء وجب جميع ذالك ورجح المحقق في فتح القدير أنهما مع الصحة شروط وجوب اداء.

مصنف نے اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ راستے کا مامون ہونا اور محرم فرضیت حج کیلئے شرط ہیں ، کیونکہ اس کا عطف ما قبل پر ہے اور یہ دوقول میں سے ایک ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں فرضیت حج کیلئے شرط نہیں بلکہ فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے شرط ہیں ،اور اختلاف کا نتیجہ کھل کر سامنے آ جا تا ہے۔ جب یہ دیکھا جا تا ہے کہ اس کیلئے حج کی وصیت کردینا محرم کے جملہ اخراجات وسواری کا خرچ دینا ، (اگر وہ انکار کرے کہ اس کے بغیر ہم ساتھ نہیں جائیں گے اور اگر کوئی محرم نہ ہو تو شادی کرنا تا کہ وہ حج میں جاسکے یہ تمام باتیں واجب ہیں ۔لہذا جس نے یہ کہا کہ محرم فرضیت حج کے لئے شرط ہے تو گویا اس نے یہ کہا کہ مذکورہ بالا باتوں میں سے کوئی بات اس کیلئے واجب نہیں ، کیونکہ فرضیت حج کے شرط کی تحصیل واجب نہیں، اس لئے اگر اس کو مال دیا جاۓ تو اس کیلئے قبول کرنے سے باز رہنا جائز ہے ، تو اس پر حج فرض نہیں ہوگا .اسی طرح اگر اسے اجازت دی د جاۓ اور جس نے یہ کہا کہ راستے کا محفوظ ہونا اور محرم فرضیت حج کی ادائیگی کیلئے شرط ہے، اس کے نزدیک او پر مذکور تمام باتیں واجب ہو جائیں گی ) محقق ابن ہمام علامہ ابن عابدین شامی منحته الخالق مصری جلد ثانی ص ۳۱۵ میں شرح لباب سے نقل فرماتے ہیں ۔

ثم اختلفوا في أن المحرم أو الزوج شرط الوجوب أوشرط وجوب الاداء كما اختلفوافي أمن الطريق فصحح قاضی خان وغيره أنه من شرائط الاداء وصحح صاحب البدائع والسروجي أنه من شرائط الوجوب، وصنيع المصنف أي صاحب اللباب يشعر بأنه من شرائط الاداء على الارحج. 

پھر اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ محرم یا شوہر ہونا فرضیت حج کی شرط ہے یا ادائیگی کی شرط ہے، یہی اختلاف راستے کے مامون ہونے میں ہے، قاضی خان وغیرہ کے نزدیک زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ ادائیگی کی شرط ہے ، نہ فرضیت حج کی شرط۔ اور صاحب البدائع اور السروجی نے اس بات کی تصحیح کی کہ یہ فرضیت حج کیلئے شرط ہے مصنف کتاب صاحب اللباب کے رجحان سے راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شرائط اداء میں سے ہے۔

اسی کے ٣١٦ میں ہے۔ 

وعن ابن شجاع عن ابي حنيفة أن لا محرم لها يجب عليها أن تتزوج زوجا يحج بها اذا كانت موسرة. ابن شجاع سے ، وہ ابوحنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ جس عورت کے محرم نہیں ہے ، تو اس پر فرض ہے کہ کسی سے شادی کرے جو اسے حج میں لے جائے ، بشرطیکہ عورت مالدار ہو۔

طحطاوی علی الدرالمختار مصری جلد اول ص ٤٨٤ میں ہے . 

قال الزيلعي في أن الزوج أو الـمـحرم شرط الوجوب أم شرط وجوب الاداء وتظهر الثمرة فی وجوب الوصیۃ وفـي وجـوب نـفـقـة الـمـحـرم وراحلته إذا ابي أن يحج معها الا بالزاد منها والراحلة وفي وجوب التزوج عـليـهـا ليحج معها لم تجد محرما فمن قال شرط الوجوب وصححه فی البدائع قال يجب علیھا شـئى من ذلك لأن شرط الوجوب لايجب تحصيله ومن انه شرط وجوب الاداء وصححه في النھایۃ تبعا للقاضي خان واختاره في الفتح كمافي النهر وجب عليها جميع ذالک ذکرہ ابو سعود.

 کہا شوہر یا محرم فرضیت حج کیلئے شرط ہے یا فرض کی ادائیگی کیلئے ہے شرط ہے ، یہ اختلاف وجوب وصیت وجوب نفقہ  نیز اس کے سواری کے خرچ پر ظاہر ہوتا ہے، نیز یہ اختلاف عورت پر شادی کے وجوب میں بھی کھل کر آتا ہے،اگر ساتھ جانے کیلئے محرم موجود نہ ہوں تو جس نے یہ کہا کہ یہ حج فرض ہونے کیلئے شرط ہے (الـنـهـاية میں اسی کی تصحیح کی ) تو گویا اس نے یہ کہا کہ اس پر ان باتوں میں سے کچھ بھی ضروری نہیں، اس لئے کہ شرط6وجوب کی تحصیل واجب نہیں، ابوسعود نہایہ شرح ہدایہ اور جوہرہ نیرہ میں اسی قول کو صحیح قرار دیا ہے 

اس قول کی بنا پر اس صورت مخصوصہ میں بقول فقہائے کرام اللہ تعالی عنہم ایسی عورت جس کا  کوئی محرم نہ ہوتو اداۓ حج فرض کیلئے نکاح کر کے شوہر کے ساتھ جانا واجب ہے۔لہذا مطلقاً اس نکاح کو متعہ قرار دینا یا نکاح موقت ٹہرانہ یقینا ’’جہل مرکب‘‘ اور نادانی ہے۔ یہ جتنے احکام مذکور ہوۓ ، سب اس صورت میں ہیں کہ نکاح صحیح کے جملہ ارکان و شرائط پاۓ جائیں، ورنہ کسی رکن یا شرط کے نہ پائے جانے کی صورت میں یہ نکاح نا جائز بھی ہوسکتا ہے۔


وقـد بـيـنـت الا حـكـام المذكورة بناء على الظاهر، هذا ما عندي والله سبحانه وتعالى أعلم وعلم عزاسمه اتم واحكم.


thought of peace

Post a Comment

0 Comments