نکاح میں وکیل کا وکیل بنانا کیسا ہے. وکیل نکاح قاضی کو وکیل بنا سکتا ہے یا نہیں

نکاح میں وکیل کا وکیل بنانا کیسا ہے. وکیل نکاح قاضی کو وکیل بنا سکتا ہے یا نہیں
نکاح میں وکیل کا وکیل بنانا کیسا ہے. وکیل نکاح قاضی کو وکیل بنا سکتا ہے یا نہیں 

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک لڑ کی زینب بنت فلاں نے اپنے نکاح کے لئے اپنی جانب سے ایک شخص زید کوا پناوکیل بنایا اور اس کو اپنا نکاح ولید بن فلاں سے کرانے کا اختیار دید یا مع شاہدین کے ۔ پھر اس وکیل نے یہ اختیار قاضی صاحب کو دے دیا اور اس قاضی نے زینب کا نکاح ولید کے ساتھ کر دیا۔ اب آیا وکیل کا اختیار قاضی کو دینا صحیح ہے یا نہیں؟ یا وکیل خود نکاح پڑھاۓ گا؟ کسی محقق کتاب کا مع صفحہ حوالہ فرمایئے ، بندہ شکر گذار ہوگا ۔


الـجـواب: اصل و ضابطہ نکاح میں یہی ہے کہ لڑکی اگر اپنے نکاح کا وکیل کسی شخص کو کسی شخص کے ساتھ دین مہر معین کر کے بنا دیا ہوتو یہ وکیل خود نکاح پڑھاۓ یعنی ایجاب و قبول کراۓ ۔ اس وکیل بالنکاح کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بجائے کسی دوسرے کو اپنی طرف سے بغیر اجازت مؤکل و مؤکلہ وکیل بناۓ ۔ فقہ حنفی میں ظاہر الروایہ اسی کو قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے خلاف دوسرا قول غیر ظاہر الروایہ کا ہے جو مرجوح ہے ۔ درمختار جلد رابع ص٤١٠ میں ہے ۔الوكيل لا يؤكل الا باذن آمره الخ.وکیل کو حکم دینے والی کی اجازت کے بغیر دوسرے کو وکیل بنانے کا اختیار نہیں ۔


ردالمختار میں ہے۔ الوكيل في النكاح ليس له التوكيل، وبه صرح في الخلاصة والبزازية والبحر من كتاب النكاح. وکیل نکاح کو، دوسرے کو وکیل بنانے کا اختیار نہیں ۔ فتاوی خلاصہ، بزاز یہ اور بحرالرائق کتاب النکاح میں ایسی ہی تصریح کی۔


درمختار جلد ثانی ص۳۰۰ میں ہے۔ الـوكـيـل لـيـس لـه الـتـوكـيـل فـي الـنكاح، وأنه ليس من المسائل التي استثنوها من هذه القاعدة. وقال الـرحـمـتـى هناک و في حاشية الحموى على الأشبـاه عـن كـلام محمد في الاصل: ان مباشرة وكيل الـوكـيـل بـحضرة الوكيل في النكاح لا تكون كمباشرة الوكيل بنفسه بخلافه في البيع، و في مختصر عصام أنه جعله كالبيع فمباشرته بحضرته كمباشرته بنفسه اه فيمكن ان يكون ما في القنية مفرعا على رواية عصام لكن الاصل وهو المبسوط من كتب ظاهر الرواية فالظاهر عدم الجواز. 

وکیل کو یہ اختیارنہیں کہ وہ نکاح کا وکیل دوسرے شخص کو بنادے ۔ اور یہ ان مسائل میں سے نہیں ہے اس قاعدہ سے علماء نے جس کا استثناء کیا۔ علامہ رحمتی نے وہاں کہا اور حاشیہ حموی علی الاشباہ میں کتاب الاصل کے اندر امام محمد کے کلام سے روایت یہ مروی ہے کہ نکاح کے معاملہ میں ، وکیل کی موجودگی میں وکیل کے وکیل کاعمل ، اس عمل کے مثل نہیں جسے خود وکیل کرے، بخلاف اس کے عمل کے بیع کے اندر. مختصر عصام میں ہے اگر اسے مثل بیع وکیل بنادیا تو اس کا عمل اس کی موجودگی میں خود اس کے عمل کی طرح ہے۔ ممکن ہے کہ جو کچھ قنیہ میں ہے وہ عصام کی روایت پر تفریع ہے۔ لیکن اصل یہی مبسوط ہے کتب ظاہر الروایہ میں سے ۔ظاہر یہی ہے کہ جائز نہیں ہے۔ واللہ تعالی اعلم

Post a Comment

0 Comments