اسقاط حمل
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اس وقت ہمارے ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام چل رہا ہے جس میں مردوں کو نسبندی کرانے اور عورتوں کولوپ ڈلوانے کی ترغیب دی جارہی ہے ، تا کہ افزائش نسل کی روک تھام ہو سکے اور اس طرح غذائی بحران کو دور کرنے میں مددمل سکے ۔ اس سلسلہ میں مولوی محمد میاں صاحب دہلوی سابق ناظم جمعیۃ علماء ہندن جواز کا فتوی دیا ہے جو ریڈیو اور اخبارت میں نشر اور شائع ہو چکا ہے ۔ اس کے شائع ہو جانے سے عوام میں انتہائی ہیجان پھیلا ہوا ہے ۔ لہذا در یافت طلب امر یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی شرعاً جائز ہے یا ناجائز اور جو شخص اس کا سینٹر کھلواۓ یا اس اسکیم میں امدادواعانت کرے اس کے لئے شرعا کیا حکم ہے تفصیل سے تحریرفرمائیں؟
الـجـواب : خاندانی منصوبہ بندی ہو یا اور کوئی دوسری بندی یا کوئی تیسرا پھندہ سب کا اصل وضابطہ یہ ہے کہ اگر منشائے شرع وشارع کے خلاف ہو تو نا جائز وممنوع اور منشائے شرع وشارع کے موافق ہو تو جائز ومشروع۔ خاندانی منصوبہ بندی کا مکمل نظام نامہ آج تک میری نظر سے نہیں گذرا، نہ ناظم جمعیۃ علماء ہند کا فتوی میرے مطالعہ میں آیا ۔ لیکن یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ منصوبہ بندی کا پروگرام و انجام ذریعۂ نسل کشی اور قطع رحم اور سلسلہ تولید کا انسداد ہے ۔ جو مطلقا منشاۓ قدرت اور منشائے شرع وشارع کے خلاف ہے ۔ چونکہ مرد وعورت کا پیدا کرنا اور ان میں نکاح کے ذریعہ نسل انسانی کی تکثیر و زیادتی حق تعالی کو مطلوب اور شرع و شارع کومحبوب ہے جس پر حق تعالی نے اپنا انعام واحسان اور اپنی قدرت کا اظہار فرمایا ہے ۔سورۃ نساء کی پہلی آیت «يايها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا الله الذي تساء لون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيبا الـنـسـاء: 1] (اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت پھیلا دے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو رشتوں کا لحاظ رکھو بیشک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ منہ ) صراحی اس پر دال ہے، چونکہ اس میں صفت ربو بیت وقدرت کے بیان کے بعد کثیر مردوعورت کے پھیلا دینے پر اظہار احسان وامتنان فرمایا ہے ۔ تفسیر مدارک جلد اول ص ۳۱۴ میں ہے ۔
واتقوا الأرحام ان تقطعوها.
قرابت داری کو کاٹنے سے خوف کھاؤ۔
تفسیر خازن جلد اول ص ۳۱۴ میں زیرآیت مندرجہ بالا مذکور ہے ۔ و معناه واتقوا الارحام ان تقطعوها ..... والرحم القرابة ..... و في الآية دليل على تعظيم حق الرحم والنهي عن قطعها و يدل على ذالك ايضا الاحاديث الواردة فی ذالک. یعنی رحم کو قطع کر نے سے ڈرو۔ رحم کے معنی قرابت کے ہیں ۔ آیت میں حق رحم کی عظمت اور اس کے قطع کے حرام ہونے پر دلیل ہے ۔ اس مدعا پر احادیث بھی دال ہیں ۔
عـن عـائشة قالت قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم الرحم معلقة بالعرش تقول من وصلني وصله الله تعالى و من قطعني قطعه الله تعالى. یعنی حضرت سید نا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ رحم ،عرش اعظم سے متعلق ہو کر یہ کہتا ہے کہ جو مجھکو ملاۓ اللہ تعالی اس کو اپنی رحمت سے ملائیگا اور جو مجھکو قطع کرے اللہ تعالی اس کو اپنی رحمت سے قطع فرمائیگا ۔
عـن انس ان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قال من سره ان يبسط عليه من رزقه و ينسأ في اثره فليصل رحمه قوله ينسأ في اثره اي يوخر له في اجله.
یعنی حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو رزق کی فراوانی اور عمر کی زیادتی کو دوست رکھتا ہو اور اس کے لئے یہ باعث مسرت ہوتو چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے ۔
عـن جـبيـر بـن مـطعم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا يدخل الجنة قاطع قال سفيان في رواية یعنی قاطع رحم و عن الحسن قال من سألك بالله فاعطه و من سألك بالرحم فاعطه و عن ابن عباس قال الرحم معلقة بالعرش فاذا اتاها الواصل يشب به و كلمته و اذا اتاها القاطع احتجبت عنه. یعنی حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ قطع رحم کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ جو تم سے اللہ کے نام پر مانگے تو اس کو دیدو اسی طرح جوتم سے رحم کے وسیلہ سے مانگے تو اس کو بھی دیدو ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رحم عرش اعظم سے معلق ہے۔ پس جو کوئی اس کا ملانے والا آ تا ہے تو وہ خوش ہو کر اس سے کلام کرتا ہے اور جب کوئی رحم کا قطع کرنے والا آتا ہے تو وہ اس سے محجوب اور پوشیدہ ہو جا تا ہے ۔
تفسیر جمل جلد اول ص ۳۵۱ میں ہے۔
اى واتقوا مودة الارحام فان قطع الرحم من اكبر الكبائر وصلة الرحم باب لكل خير فتزيد في العمر و تبارک فی الرزق و قطعها سبب لكل شر.
یعنی محبت ارحام کو قطع کرنے سے بچو اس لئے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے، اور صلہ رحمی ہر بھلائی کا دروازہ ہے ۔ اس سے عمر میں زیادتی اور رزق میں فراوانی ہوتی ہے۔اور قطع رحم ہر برائی کا ذریعہ ہے۔
آیت مذکورہ اور تفاسیر مندرجہ بالا سے بصراحت ثابت ہوا کہ نسل کشی اور قطع رحم اور سلسلہ تولید کاسد باب بلا شبہ امر مذموم فعل قبیح ہے ۔ اور حرام و ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے اور جو منصوبہ اس امر مذموم اور فعل قبیح کی جانب لے جاۓ اور اس کا ذریعہ بنے وہ منصوبہ بھی مذموم وقبیح ہوگا ۔ فـان مـقدمة الواجب واجب و مقدمة الحرام حرام و مقدمة المذموم مذموم و مقدمة القبيح قبيح. کیونکہ واجب کا مقدمہ واجب ، حرام کا مقدمہ حرام ، مذموم کا مقدمہ مذموم اور برے کا مقدمہ برا ۔ اس قاعدہ کے ماتحت البر و التقوی کی اعانت مطلوب ومحبوب ہے اور الإثم والعدوان کی اعانت ممنوع و غیر مشروع ہے ۔ *و تعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان » [المائده: ۲] ( اور باہم مدد کر تے رہو نیکی اور تقوی پر اور نہ مد دکر و گناہ اور زیادتی پر )۔ کلام حق تعالی اس پر بر ہان ناطق ہے۔ در مختارمصری جلد خامس ۳۵۴ میں ہے ۔
كل ما ادى الى مالا يجوز، لا يجوز. یعنی ہر وہ چیز جو نا جائز کی طرف پہنچاۓ وہ بھی ناجائز ہے۔
خلاصہ یہ کہ مردوں کی نسبندی اور عورتوں کی لوپ ڈلوائی اگر نسل انسانی ختم کرنے اور اولاد نہ ہونے کے ارادہ سے ہو تو ناجائز وحرام ہے۔ چونکہ نسل انسانی کی بقا شرعا مطلوب ہے اور تکثیر امت محبوب رب العلمین کومحبوب ہے ۔ مشکوۃ شریف جلد ثانی ص ۲۶۷ میں ہے ۔
عـن مـعـقـل بن يسار قال قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم تزوجوا الودود الولود فاني مكاثربكم الامم رواه ابودائود والنسائي. یعنی ابو داؤ دونسائی کی حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشادفرمایا کہ شوہر سے محبت کر نے والی ، زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرو ۔ اس لئے کہ میں ساری امتوں کے مقابلہ میں اپنی امت کی کثرت تعداد پر فخر ومباہات کر نے والا ہوں گا۔
سرکار دو عالمﷺ کا یہ ارشاد کہ زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرو تا کہ اس سے زیادہ بچہ ہونے کے باعث میری امت کی تعداد میں کثرت واضافہ ہوگا اور میرے لئے باعث فخر ہوگا اور یہ منصوبہ بندی سرکار کے حکم مذکور کی مخالفت میں بچہ ہونے کے اسباب و وسائل کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔ کوئی مسلمان جس کے سینہ میں اسلام کا چمکتا نور ہوگا وہ حضور کے حکم کے خلاف چلنے کو ہرگز ہرگز گوارا نہ کرے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ فرعون اور بعض دوسرے افراد نے اپنے حلقہ اثر وحکومت میں مردوں اور لڑکوں کی نسل کشی کا اور بخت نصر نے یہودیوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنایا تھا لیکن کوئی کامیاب نہ ہو سکا۔ اسی طرح آج جن افراد نے نسل کشی کا منصوبہ بنایا ہے وہ بھی کامیاب نہ ہوں گے ۔ غذائی بحران کو دور کرنے کی خاطر اس منصوبہ بندی کو حیلہ بنانا اور اس کے جواز کی آڑ لینا سراسر وہم ناقص اور خیال باطل ہے اور خالق ارض وسما حق تعالی کی رزاقیت مطلقہ پر
کامل اعتقاد و مکمل یقین کی کمزوری کا سبب و ذریعہ ہے ۔ تفسیر خازن جلد دوم ص ۶۴ میں ہے ۔
ولا تقتلوا أولاد كم من إملاق » یعنی من خوف الفقر ، والاملاق : الاقتار. والمراد بالقتل، وأد البنات و هـن احـيـاء فـكـانـت الـعـرب تفعل ذالك في الجاهلية فنها هم الله تعالى عن ذالک و حرمه عليهم «نحن نرزقكم و إيـاهـم * يعني لا تئدوا بناتكم خوف العيلة والفقر فانی رازقکم و اياهم لان الله تعالى اذا تكفل برزق الوالد والولد وجب على الوالد القيام بحق الولد و تربيته والا تكال في امر الرزق على الله عز و جل. یعنی اپنی اولا دکوقتل نہ کر مفلسی کے باعث ، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دینگے۔اہل عرب زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو اند یشہ فقر کے باعث زندہ درگور کر دیا کرتے تھے تو اللہ تعالی نے ان کو اس سے منع فرمایا اورحرام فرمادیا کہ تمہارے اور تمہاری اولا د کا رزق کا ضامن میں ہوں ۔لہذا والد پر اولاد کی تربیت کا پورا پورا خیال اور معاملہ رزق کو رزاق مطلق کی طرف سپرد کرنا ضروری ہے۔ تفسیر مدارک جلد ثانی ص٦٤ میں ہے۔
ولا تقتلوا أولاد كـم مـن إملاق» من اجل فقر و من خشيته كقوله خشية املاق «نحن نرزقکم و إياهم * لان رزق العبيد على مولاهم. اپنی اولادکو املاق یعنی محتاجی اور مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی رزق دیتے ہیں ۔اس لئے کہ غلام کا رزق ان کے آقاپر ہوتا ہے ۔
اس کے جلد ثالث ص١٦٣ میں ہے۔ «و لا تقتلوا أولادكم» قتلهم اولادهم وأدهم بناتهم «خشية إملاق » فقر «نحن نرزقهم و إياكم» نهاهم عن ذالک و ضمن ارزاقهم. قتل اولاد کا مطلب ان کا اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا ہے محتاجی کے خوف سے ۔ ہم انہیں اور تمہیں دونوں کو رزق دیتے ہیں ۔ انہیں ان سے منع فرمایا اور ان کے رزق کی ضمانت لی ۔
تفسیر خازن جلد ثالث ص ١٦٣ میں ہے۔
ولا تقتلوا أولاد كـم خشية إملاق اى فـاقة و فقر «نحن نرزقهم و إياكم» و ذلک ان اهل الجاهلية كانوا يئدون بناتهم خشية الفاقة او يخافون عليهم من النهب والغارات، و ان ينكحوهن لغير اكفاء لشدة الحاجة و ذلك عار شديد عندهم فنهاهم الله عن قتلهن وقال نحن نرزقهم و ایاکم یعنی ان الارزاق بيد الله فكما انه فتح ابواب الرزق على الرجال فكذلك يفتحه على النسا ء (ثم ذكر بعد اسـطـر) قـيـل: ان الزنا يشتمل على انواع من المفاسد منها المعصية وايجاب الحد على نفسه و منها اختلاط الانسـاب فـلا يعرف الرجل ولد من هو ولا يقوم احد بتربيته و ذالک یوجب ضياع الاولاد،وانقطاع النسل و ذالک یوجب خراب العالم (ملخصا)
املاق یعنی فاقہ وفقر کے خوف سے اپنی اولا دکوقتل مت کرو ( ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں) ایسا اس لئے فرمایا کہ جاہلیت والے اپنی بیٹیوں کو فاقہ کے اندیشے سے زندہ درگور کر دیتے تھے یا انہیں لوٹ مار اور حملے کا خوف ہوتا تھا اور یہ کہ انہیں شدت حاجت کی وجہ سے غیر کفو میں اپنی بیٹیوں کی شادی نہ کرنا پڑے۔ یہ بات ان کے نزدیک نہایت باعث تنگ و عار تھی ۔اس لئے اللہ نے انہیں ان کے قتل کرنے سے منع کیا اور فرمایا ہم ہی انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی دیتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ رزق کا مالک اللہ ہے اس کا دروازہ جس طرح مردوں پر کھول دیا ہے اسی طرح عورتوں پر بھی کھولے گا۔ ایک قول یہ ہے کہ زنا چند قسم کی خرابیوں پرمشتمل ہے ۔ گناہ اور اپنے آپ پر حد کو واجب کرنا اورنسبوں کا مخلوط ہو جانا پس نہ پہچانا جاۓ کہ یہ کس کی اولاد ہے اور کوئی اس کی دیکھ بھال پر تیار نہ ہو یہ باتیں اولاد کے ضائع ہونے اور نسل کے منقطع ہونے کو مستلزم ہوں گی اور یہ خرابئ عالم کو لازم کر دیگا ۔
تفسیر جمل جلد ثانی ص ۱۰۸ میں ہے ۔
اى لا تـقـتـلـوا اولادكـم لاجـل الاملاق والاملاق الفقر في قول ابن عباس و قيل الجوع بلغة لخم... فهذه الآية تفيد النهى للآباء عن قتل الاولاد و ان كانوا ملتبسين بالفقر و الاخرى عن قتلهم و ان كانوا موسرين و لكن يخافون وقوع الفقر (بعد اسطر) و قد قال صلى الله عليه وسلم في حق العزل هذا وأد خفى اه كرخی.
یعنی اطلاق کے خوف سے اپنی اولا دکوقتل نہ کرو اور ابن عباس رضی اللہ عنھما کے قول کے مطابق املاق محتاجی کو کہتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ املاق بھوک کو کہتے ہیں۔ یہ آیت آباء کے لئے اپنی اولاد کے قتل کی نفی کا فائدہ دے رہی ہے ۔ اگر چہ کہ وہ فقر سے متلبس ہوں اور دوسری آیت سے بھی قتل کی نفی مستفاد ہے ۔اگر چیکہ وہ مالدار ہوں لیکن انہیں محتاجی میں پڑ جانے کا خوف ہو۔ رسول اللہﷺ نے عزل کے سلسلہ میں فرمایا یہ پوشید طریقہ سے زندہ درگور کرنا ہے ۔ اس کے ص٦٢٣و٦٢٤میں ہے۔
ولا تقتلوا اولادكم خطاب للموسرين بدليل قوله خشية املاق اى خشية وقوع الفقر بكم (بعد اسطر) وفـي الـكـرخـی حـاصله ان قتل الاولاد وان كان بخوف الفقر فهو من سوء الظن بالله تعالى و ان كان لاجـل الـغيرة على البنات فهو سعى في تخريب العالم فالاول ضدالتعظيم لامر الله تعالى والثاني ضد الشفقة على خلق الله تعالى و كلاهما مذموم اه (قوله بالواد) الدفن بالحياة والا قتصار عليه لانه الذي كانوا يفعلونه والا فقتل الولدحرام مطلقاً اه.
یعنی خلاصہ یہ ہے کہ اولاد کا قتل کرنا مفلسی کے اندیشہ سے ہے تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ ( معاذ اللہ ) بدگمانی ہے اور اگر لڑکی پر غیرت کے سبب سے ہے تو یہ نظام عالم کی خرابی میں کوشش کرنا ہے ۔ اول امرالہی کی تعظیم کے منافی اور ثانی مخلوق خداوندی پر شفقت کے مغائر ہے اور یہ دونوں چیزیں بری ہیں۔ ان کا قول بالواد یعنی زندہ دفن کرنا ۔ اس لفظ پر اقتصار اس لئے کیا کہ عرب یہی سنگین عمل کرتے تھے ۔ ورنہ قتل ولد مطلقاً حرام ہے ۔ ہاں اگر کسی خاص شکل وصورت اور مخصوص حالت و شرعی ضرورت و عذر کی بناء پر یہ عمل کیا جاۓ کہ زوجین میں سے کوئی فرد یا دونوں حد درجہ کمزور ہو چکے ہیں یا بیمار ہوں یا عورت بار حمل از ابتداء تا انتہا برداشت کرنے کے قابل نہ ہو بلکہ اس کی جان وصحت کو خطرہ میں پڑنے کا ظن غالب ہو تو ایسی صورت میں عمل مذکور جائز ہوگا ۔ فان الامـور بـمـقـاصـدهـا، والضرورات تبيح المحظورات.
لیکن علی الاطلاق یہ عمل ناجائز وحرام ہے اور رہے گا اور اس عمل نا جائز وحرام کی اعانت و امداد بھی ناجائز وحرام
ہے ۔ خواہ اس کا سنٹر کھلوا کر یا اسکیم مذکور کی اور کوئی دوسری مدد کی جاۓ ، سب ناجائز وحرام ہوگا۔ اور حرام و ناجائز کا مرتکب فاسق ومرتکب گناہ کبیرہ ہے ۔ ان ہی امور کے پیش نظر آزاد بیوی سے عزل کرنے کو (یعنی خارج فرج میں انزال کر نےکو) اس کی اجازت کے بغیر ناجائز وحرام قرار دیا گیا ہے ۔ اور اس کے علاوہ جن صورتوں میں عزل کو مباح قرار دیا گیا ہے تو اس میں بھی سرکار دو جہاں حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ناپسندیدگی اور کراہت ہی کا اظہار فرمایا ہے ۔ مشکوۃ شریف جلد ثانی ص ۲۷۵ میں ہے۔
عـن جابران رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ان لي جارية هي خادمتنا وانا اطوف عليها واكره ان تحمل فقال اعزل عنها ان شئت فانه سياتيها ما قدر لها فلبث لاجل ثم اتاه فقال ان الجارية قد حبلت فقال قد اخبر تک انه سياتيها ما قدر لها رواه مسلم.
یعنی مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سرکار کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری ایک باندی خدمتگذار ہے اور میں اس سے وطی ومباشرت کرتا ہوں اور اس کا حاملہ ہونا ناپسند کرتا ہوں تو سر کار نے جواب میں ارشادفرمایا کہ اگر تو چاہے تو اس سے عزل کر لیکن تجھے اس سے فائدہ نہ ہوگا ۔ اس لئے کہ جو بچہ اسکے لئے مقدر کیا گیا ہے وہ ضرور پیدا ہوگا۔ پھر تھوڑے دنوں کے بعد اسی شخص مذکور نے حاضر بارگاہ رسالت ہو کر عرض کیا کہ باندی حاملہ ہوئی تو سرکار نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تجھے پہلے ہی خبر دیدی تھی کہ تیرے حق میں اس سے عزل کرنا کچھ مفید نہ ہو گا ، جو بچہ اس باندی کے لئے مقدر کر دیا گیاوہ ضرور پیدا ہوگا.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باندی سے عزل کرنا جائز ومباح ہے اور اشارۂ عزل کا مکروہ ہونا بھی معلوم ہوا ۔ اسی حدیث کے ماتحت حضرت شیخ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اشعۃ اللمعات جلد ثالث ص ۱۳۱ میں تحریر فرماتے ہیں ۔
ایں حدیث نیز دلالت دارد بر اباحت عزل و لیکن دروے اشارت هست بکراهت آن بجهت عدم نفع أں۔ یہ حدیث عزل کے جائز ہونے پر دلالت کر رہی ہے لیکن اس کے اندر کراہت کا اشارہ بھی ہے ۔ کیونکہ اس میں کوئی نفع نہیں ۔اس میں دوسری حدیث حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جو عزل سے متعلق ہے اور بقد رضرورت درج کی جارہی ہے ۔ فسالناه عن ذالك فقال ما عليكم ان لا تفعلوا ما من نسمة كائنة الى يوم القيمة و هي كائنة متفق عليه. یعنی بخاری شریف و مسلم شریف کی حدیث میں بروایت ابوسعید خدری ہے کہ ہم نے آنحضرت سے غزل کے بارے میں دریافت کیا تو ارشادفرمایا کہ تم پر عزل کرنے میں گنا نہیں سے یا تم پر واجب نہیں ہے کہ عزل کرو. نہیں ہے کوئی پیدا ہونے والی جان ونفس روز قیامت تک مگر وہ جان و نفس پیدا ہونے والا ہے ۔ اسی مشکوۃ شریف میں حضرت ابوسیعد خدری رضی اللہ عنہ سے دوسری حدیث مروی ہے ۔
قـال سـل رسـول الله صلى الله عليه وسلم عن العزل فقال ما من كل الماء يكون الولد و اذا ارادالله
خلق شيء لم يمنعه شيء رواه مسلم . یعنی مسلم شریف میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ سے عزل کے متعلق دریافت کیا گیا تو ارشادفرمایا کہ ہر نطفہ و منی سے بچہ پیدا نہیں ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو کوئی چیز اس کے پیدا کرنے کے ارادہ کو نہیں روک سکتی.
0 Comments