لکھنؤ کا کا نظارہ.

 لکھنو کی شام


اس مختصر سی زندگی میں لکھنو کا سفر کثرت سے ہوا۔ بلکہ لگاتار دو سال رہنے کا بھی اتفاق ہوا۔ہندوستان کی مشہور دانش گاہ"دارالعلوم ندوة العلماء" میں علم و ادب کا جام شیریں، پینا بھی میسر ہوا۔ آج جب کہ دسمبر کا مہینہ، رخت سفر باندھ رہا ہے۔2021کا سن ہمیں الوداع کہہ رہا ہے۔ سورج کی روشنی پس پردہ جا چکی ہے۔سردرات ہے۔اوس کا سماں ہے۔بھیگی ہوئی رات اور بارش میں نہایا ہوا دن ہے۔ہم لوگ، اتر پردیش کی راجدھانی کے لیے پا برکاب ہیں۔Brezza کار پر چار لوگوں کا وفد سوار ہے۔ مخدوم زادہ سید محامد اشرف،عزیزم مولانا عتیق احمد اشرفی، اور اس ناچیز کے علاوہ، معراج بھائی ہیں۔سب کی سوچ اور فکر میں قدرے یکسانیت ہے۔ آپس میں باتیں ہو رہی ہیں۔ راستہ نیا ہے۔ "پروانچل ایکسپریس وے" پر ہماری کار دوڑ رہی ہے۔ دورویہ روشنی میں خوبصورت نظارہ ہے۔زیرو ٹریفک ہے۔ڈرائیور ایک سو بیس اور تیس کی رفتار سے، کار چلا رہا ہے۔ آپس میں خوش گپیاں چل رہی ہیں۔ سڑک اور اس کا ارد گرد، سنسان ہے۔کہیں کہیں شبنم کا حصار دکھائی دیتا ہے۔ ہماری تیز رفتاری میں کمی پیدا کرنے کے لیے، چوپایوں کا اچانک ظہور ہوتا ہے۔ گاڑی میں بریک لگتی ہے۔ ہم لوگ تھوڑی دیر کے لیے سہم جاتے ہیں۔ رات ڈھل رہی ہے۔ ستارے جھلملا رہے ہیں۔ مسافت بڑی تیزی سے طے ہورہی ہے۔ بات چیت اور ہنسی خوشی کا تسلسل برقرار ہے۔ رات کے نو بج رہے ہیں۔ لکھنو میں ہمارا یہ وفد داخل ہو رہا ہے۔ ہر طرف نور کی برکھا ہے۔ روشنی میں نہائی ہوئی رات ہے۔ شب دیجور کا تصور مفقود ہے۔ شب شیراز کا عکس دکھائی دے رہا ہے۔ منزل قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ اودھ کا ماضی اپنا ورق الٹ رہا ہے۔ نواب شجاع الدولہ کا شہر ہے۔ جسے اس کے فرزند، نواب آصف الدولہ نے خوب سجایا ہے۔جس طرح بنارس کی صبح، خوبصورت ہوا کرتی ہے۔ یونہی لکھنو کی شام دل فریب منظر پیش کرتا ہے۔گنگا کی گود میں سورج طلوع ہوتا ہے، گومتی کی آغوش میں وہ غروب ہوجاتا ہے۔ بنارس کی حسینائیں ہیں۔ہاتھ میں پیتل کا لوٹا ہے۔مندر میں گھنٹیوں کی نقرئی آواز ہے۔ گنگا کی طرف پیادہ پا رواں دواں ہیں۔ یہی صبحِ بنارس کا حسن ہے۔

اسی طرح لکھنو میں شام کا وقت ہے۔سورج ڈھل رہا ہے۔ سڑک کے دونو کنارے پر، پھول اور گجرے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں۔ داشتائیں اور طوائفوں کے سنورنے کا وقت ہے۔ زیوروں کی جھنکار میں، بادشاہ سلامت کے استقبال کا حسین ترین لمحہ ہے۔قمقمے روشن ہورہےہیں۔ رومی دروازہ آج بھی اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ ایستادہ ہے۔ جس کے مشرق میں "بڑا امام باڑہ" اور مغرب میں "چھوٹا امام باڑہ"فن تعمیر کا شاہکار بنا ہے۔ بھول بھلیاں بھی ہے۔ جس کے سامنے ٹیلہ شاہ کی مسجد ہے۔سفید پوش یہ مسجد، اندر سے نقش و نگار کا حسین تر نمونہ ہے۔اورنگ زیب کے ذوق تعمیر کا مظہر ہے۔ اور اس کے جنوب میں شاہ مینا علیہ الرحمہ کا مدفن ہے۔یہ آٹھویں صدی ہجری کے بلند پایہ بزرگ ہیں۔ان کے در پے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا ہے۔کچھ مفلوک الحال بھی پڑے رہتے ہیں۔جن کی نظر سخی لوگوں کی داد و دہش پر ہوتی ہے۔ اسی پر ان کا گزر بسر ہوتا ہے۔ یہاں امین آباد کا بازار بھی ہے۔جو کپڑے، جوتا چپل، بک ڈپو اور ریسٹورنٹ کے لیے مشہور ہے۔ ٹونڈے کباب بہت ہی مشہور ہوٹل ہے۔ جہاں کباب، پراٹھا، تندوری، روسٹیڈ اور بریانی کھانے کے لیے، ازدحام سا لگا رہتا ہے۔ لذیذ اور ذائقہ دار پکوان کے لیے پورے ملک میں مشہور ہے۔ اس سے بیس قدم کی دوری پر، پرکاش کی قلفی ہے۔ جو اپنے مخصوص آئس کریم اور فالودہ کے لیے مشہور ہے۔ بریانی اور کباب وغیرہ کے بعد تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔یہاں بارہ دری کی بھی عمارت، قابلِ دید ہے۔جس پر کبھی زربفت کے پردے لگے رہتے۔ آج معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی معمولی سفید چادر سے ڈھکی ہے۔  اس کے صحن میں پر فضا چمن ہے۔سنگ مرمر کی نہریں بنی ہیں۔جس میں جگہ جگہ فوارے لگے ہیں۔جہاں کبھی تہذیب و ثقافت کا منظر پیش کیا جاتا۔ مشاعرے کی محفل سجا کرتی۔ ادب نواز اور قدر دان سخن، اکٹھا ہوا کرتے۔اور اپنی شب زندہ داری کا ثبوت پیش کیا کرتے۔ اسی سے چند گز کے فاصلے پر "بیگم حضرت محل پارک" ہے۔

جسے ایک جاں باز خاتون کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یہ وہی سرگرم خاتون ہے، جس نے جنگ آزادی میں بڑا جوش دکھایا۔ برطانوی سامراج سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جب ان کے شوہر نواب واجد علی کو انگریزوں نے یرغمال بنایا، تو اس وطن دوست خاتون نے، ہندو مسلم اتحاد کا بگل بجایا اور اس میں کامیابی کا پھریرا بلند کیا۔ صنف نازک ہونے کے باوجود، اس نے اپنی شجاعت اور بہادری سے پست ہمتوں کو حوصلہ مند بنایا۔ 

یہاں سے دو کیلومیٹر کی دوری پر"حضرت گنج"ہے۔ عیسائیوں کی مشہور عبادت گاہ"کیتھی ڈریل چرچ" یہیں پر واقع ہے۔عقیدہ تثلیث کے ماننے والے، کثیر تعداد میں آتے ہیں۔شمع روشن کرتے ہیں۔منتیں پوری کرتے ہیں۔اور بزعم خویش اپنی مرادیں حاصل کرلیتے ہیں۔ آگے بڑھیے تو چڑیا گھر ہے۔ یہاں خوبصورت چرند پرند کے علاوہ، ڈراؤنے اور خوفناک جانور بھی ہیں۔لیکن سب اپنے مربی اور نگراں کے وفادار ہیں۔ ان کے اشارہ ابرو کے پابند ہیں۔سرمو انحراف کا نام نہیں لیتے۔مثالی تربیت کے حامل ہیں۔  یہ تو قدیم لکھنو سے متعلق کچھ یادیں ہیں اور کچھ باتیں ہیں۔

جدید لکھنو کا منظر تو بڑا دلکش ہو چکا ہے۔ امبیڈکر پارک ہے۔ جسے "مایاوتی" نے اپنے دور اقتدار میں تعمیر کرایا۔اور"بابابھیم راؤامبیڈکر"کی طرف اس کی نسبت کی۔بڑاوسیع و عریض رقبہ ہے۔ سرخ پتھروں سے بنا ہوا یہ پارک متعدد جہتوں سے منفرد ہے۔ سہارا گنج ہے۔ سہارا ہاسپیٹل ہے۔بہت سی قومی اور بین الاقوامی کمپنیاں ہیں۔لوہیا پارک ہے، جسے" ملائم سنگھ" نے اپنے دور حکومت میں بنایا اور" ڈاکٹر رام منوہر لوہیا" کی طرف منسوب کیا۔ اس کے علاوہ بہت سے جاذب نظر باغات ہیں۔ عالیشان محلات ہیں۔ ہر نکڑ اور چوراہے پر، کسی نہ کسی مثالی شخصیت کا مجسمہ نصب ہے۔

لکھنو کے اس باغ وبہار میں سیر وتفریح ہو رہی ہے۔ اور عمدہ پکوان سے ہم لوگ شکم سیر اور آسودہ حال ہو رہے ہیں۔ فلله الحمد و له الشكر.


محمد قمر عارف

Post a Comment

0 Comments