الجواب : ’’ضروریات مسجد‘‘ کا لفظ بہت عام ہے ۔ اس میں شعائر وقف اور عمارت وقف اور مصالح مسجد جواقوال فقہاء میں آۓ میں سب داخل ہیں ۔ بلفظ دیگر اس میں مسجد کی تعمیر و مرمت اور مسجد کے تحفظ و بقاء اور اس کی آبادی و نمازیوں اور عبادت کرنے والوں اور ذکر و تلاوت کرنے والوں کے لئے جو جو چیز ضروری ہو اس پر جائدادموقوفہ کی آمدنی خرچ کی جاسکتی ہے۔ مثلا مسجد کے لئے تعمیر ومرمت کی ضرورت ہو تو اینٹ ،سمنٹ ، چونا، سرخی، کنکریٹ ،لوہا لکڑی اور دیگر ضروریات تعمیر ومرمت کی تمام اشیاء جائداد مذکورہ کی آمدنی سے خرید کر تعمیر ومرمت پر متولی خرچ کرسکتا ہے ۔اور اس میں معمار ومزدور وغیر ہم کی اجرت بھی دے سکتا ہے ۔ اسی طرح مسجد کو خرابی و ویرانگی سے بچانے کے لئے اس کی حفاظت و بقا کی ہر مد میں جائداد مذکورہ کی آمدنی خرچ کر سکتا ہے ۔ مسجد کے لئے چٹائیاں ،مصلے، دریاں، لوٹے ،گھڑے، بالٹی ، ڈول ، رسی، شامیانے ، جاجم ،ترپال، پانی کا انتظام بذرایہ کنواں یا دستی نل یا بہشتی یا حوض یا سقایہ یا واٹرورکس موسم سرما میں پانی گرم کرنے کے لئے لکڑی، سوختی اور روشنی کے لئے چراغ،چراغداں،تیل ، ماچس، یا بجلی کی روشنی کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہو ہر چیز پر جائداد مذکورہ کی آمدنی متولی خرچ کرسکتا ہے ۔اسی طرح مسجد کی صفائی کے لئے کناس ( جھاڑو دینے والا ) اور مسجد کو صاف ستھرا کرنے والا و فراش و چٹائیاں دریاں بچھانے والا ، امام ومؤذن ، چوکیدار بشرطیکہ ان خدمات کا انجام دینے والا بغیر معاوضہ کے خالصا لوجہ اللہ نہ ملے اور ایسے خدام کی ضرورت ہو تو ان کے وظائف ومشاہرہ پر بھی جائداد مذکورہ کی آمدنی متولی خرچ کر سکتا ہے ۔ اسی طرح مسجد کی بالائی حصہ کی اندرونی و بیرونی صفائی اور پوتائی کرانے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتو سیڑھی بھی اس آمدنی سے متولی خرید سکتا ہے ۔ ہر چیز کی اجرت و معاوضہ یا وظیفہ یا مشاہرہ جومناسب ورائج اجرت و معاوضہ یا وظیفہ ومشاہرہ ہو وہی متولی دے سکتا ہے ۔ اس سے زائد متولی نہیں دے سکتا ورنہ زائد کی ذمہ داری متولی پر اپنے مال سے ہوگی اور ہر وہ کام جس کی مسجد کو کوئی ضرورت نہ ہو اور ہر ایسی چیز جس کی مسجد کو حاجت نہ ہو تو متولی ایسے کام اور ایسی چیز کی خریداری پر جائداد مذکورہ کی آمدنی خرچ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح وقف کی آمدنی سے مسجد کی زیب و زینت پرخرچ نہیں کر سکتا۔ ہرنا جائز خرچ کی پوری ذمہ داری متولی پر خود اس کے مال سے ہوگی اور فعل نا جائز کے ارتکاب کا اس سے مواخذہ ہوگا۔ بحرالرائق مصری جلد خامس ص ۲۱۳ میں ہے ۔
فـي الـحـاوى الـقدسي قال والذي يبتدأبه من ارتفاع الوقف عمارته شرط الواقف ام لا ثم ما هو اقرب الى العمارة واعم للمصلحة كالامام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف اليهم الى قدر كفايتهم ثم السراج والبساط کذالک الی آخر المصالح. حاوی القدی میں ہے۔’’ کہا۔ وقف کے ارتفاع کے تعلق سے جس چیز سے شروعات کی جائے گی وہ اس کی تعمیر ہے۔ واقف نے شرط لگائی ہو یا نہ لگائی ہو۔ اس کے بعد جو کام تعمیر سے زیادہ قریب ہے اور جس کا فائدہ زیادہ عام ہے اس کا نمبر آۓ گا۔ جیسے مسجد کے لئے امام اور مدرسے کے لئے مدرس ۔ ان لوگوں پر وقف کی اتنی آمدنی خرچ کی جاۓ گی جتنی انہیں کفایت کر جاۓ ۔ پھر روشنی اور فرش اسی طرح دیگر ضروری مصارف پر خرچ کیا جاۓ گا۔
اس کے ص۲۱۵ میں ہے۔
وقـولـه الـى آخـر الـمصالح اى مصالح المسجد فيدخل المؤذن والناظر لانا قدمنا انهم من المصالح وقـدمـنـا ان الـخـطـيـب داخل تحت الامام لانه امام الجامع فتحصل ان الشعائر التي تقدم في الصرف مطلقابعد العمارة الامام والخطيب والمدرس والوقاد والفراش والمؤذن والناظر و ثمن القناديل والـزيـت والحصر و يلحق بثمن الزيت والحصر ثمن ماء الوضوء او اجرة حمله او كلفة نقله من البئرالى الميضاة.
(ان کا قول الى آخـر الـمصالح ) یعنی مسجد کے مصالح ۔ اس میں مؤذن اور نگراں داخل ہو جاۓ گا اس لئے کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ یہ لوگ بھی مصالح میں سے ہیں ۔ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خطیب امام کے تحت داخل ہے، کیونکہ وہ جامع مسجد کا امام ہے۔ حاصل کلام یہ ہوا کہ وہ شعائر جنہیں خرچ کے مد میں مطلقاً مقدم کیا جاۓ گا وہ امام ،خطیب و مدرس و چراغ روشن کرنے والا ،جھاڑو دینے والا مؤذن، نگراں، قندیل و تیل چٹائی کی قیمت ہے ۔ تیل و چٹائی کی قیمت میں وضو کے پانی کی قیمت یا اس کے کنویں سے اٹھا کر وضوخانے تک لانے کی اجرت بھی لاحق ہو جاۓ گی ۔...
واللہ اعلم بالصواب...
مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی
0 Comments