دنیا کی سب سے طاقت ور ملک امریکا میں منایاجانے والےتہواروں میں یہ ایک مشہور تہوار ہے جس میں گلی کوچوں، بازاروں، تفریح گاہوں اور دیگر مقامات پر لوگ ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لباسوں میں ملبوس ہوکر بھوت اور چڑیلوں کی مانندچلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو رکھے جاتے ہیں جن پر ہبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں اورچراغیں جل رہے ہوتے ہیں۔ بعض گھروں کے باہر خوفناک ڈھانچے نصب کر دیتے ہیں اور ان کے قریب سے گزرنے پر وہ ایک خوف ناک قہقہہ لگا کر دل دہلا دیتے ہیں۔
کاروباری جگہوں میں بھی یہ مناظر اکتوبر شروع ہوتے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ 31 اکتوبر کو جب اندھیری پھیلنے لگتی ہے تو دہشتناک کاسٹیوم پہن کر بچوں اور بڑوں کی جماعت گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی آوازاں بلند کرتی ہیں۔ جس کا یہ صاف مطلب ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دیں یا ہماری طرف سے کسی شرارت کے لیے تیار ہو جایں۔ گھروالے انہیں چاکلیٹ اور میٹھی گولیاں دے کر روانہ کر دیتے ہیں۔
![]() |
ہالووین کیا ہے، ہالووین منانا کیسا ہے؟ہالووین کی ابتدا کب اور کیسےہوئی |
کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہالووین کی شروعات 1921ء میں شمالی ریاست منیسوٹا سے ہوئی اور اس سال پہلی دفعہ شہر ی سطح پر تہوار اس کا جشن منایا گیا۔ پھر دھیرے دھیرے دو ہزار سال قدیم یہ تہوار امریکا کے دیگر قصبوں اور شہروں تک پھیل گیا اور پھر اس نے قومی سطح کے بڑے تہوار اور ایک بہت بڑی کاروباری سرگرمی کی شکل اختیار کرلی۔
تاریخ نگاروں کا مانناہےکہ ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے ہا ں نئے سال کی شروعات یکم نومبر سے ہوتی تھی۔ موسمی سرگرمیوں کی وجہ سے ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ موسم سرما کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں۔
سیلٹک قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ نئے سال کے آغازسے پہلے کی رات یعنی 31 اکتوبر کی شب کو زندہ انسانوں اور مردوں کی روحوں کے درمیان سرحد نرم ہوجاتی ہے اوران کی روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے سیلٹک قبائل 31 اکتوبر کی رات آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کرتے تھے، اناج بانٹتے تھے اور جانورں کی قربانی دیتے تھے۔ اس موقع پر وہ جانوروں کی کھال پہنتے اور اپنے سروں پرجانوروں کے سینگ لگا کر عجیب ع غریب شکلیں بناتے تھے۔
جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس پرانے تہوار کویکسر ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے ایک نومبر کو ’تمام معتبر شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔ یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد میں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت ان کےدلوںمیں کم نہ ہو ءی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے طریقےپر مناتے رہے۔
امریکا دریافت ہونے کے بعد کثیر تعداد میں یورپین یہاں آکر آباد ہوئے۔ وہ اپنے ساتھ اپنی ثقافت اور ریت و رواج اور تہوار بھی لے کر آئے۔ کہا جاتا ہے کہ شروع میں ہالووین میری لینڈ اور جنوبی آبادیوں میں یورپی مہاجرین مقامی طور پر چھوٹے پیمانے پر منایا کرتے تھے۔ انیسویں صدی میں بڑے پیمانے پر یورپ سے لوگ امریکا آکر آباد ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد آئرش باشندوں کی بھی تھی۔ ان کی آمد سے اس تہوار کو بڑا فروغ اور شہرت ملی اور اس میں کئی نئی چیزیں بھی شامل ہوئیں جن میں، ٹرک آر ٹریٹ، خاص طور پر قابل ذکر ہے، جو آج اس تہوار کا سب سے اہم جزو ہے۔
انیسویں صدی کے آخر میں امریکا میں ہالووین پارٹیاں عام ہونے لگیں، جن میں چھوٹے بڑے سب شریک ہوتے تھے۔ ان پارٹیوں میں لہو ولعب اور کھانے پینے کے ساتھ ساتھ خوفناک کاسٹیوم پہنے جاتے تھے۔ اس دور کے اخباروں میں اس طرح کے اشتہارات شائع ہوتے تھے جن میں ایسے بہروپ دھارنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی جنہیں دیکھ کر لوگ جیرت میں پڑ جائیں۔
بیس ویں صدی میں
لگ بھگ1950ء میںہالووین کی حیثیت ایک مذہی تہوار کی بجائے ایک ثقافتی تہوار کی بن گءی تھی، جس میں دنیا کے دوسرے خطوں سے آنے والے مہاجرین بھی اپنے اپنے انداز میں حصہ لینے لگے۔ آہستہ آہستہ تجارتی شعبوں نے بھی ہالووین سے اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کاسٹیوم اور دیگر چیزیں بازار میں لانا اور ان کی سائنسی بنیادوں پر تجارت کرنا شروع کردی۔ اور اب حال یہ کہ ہالووین اربوں ڈالروں کے کاروبار کا ایک بہت بڑا ثقافتی تہوار بن چکا ہے۔
شرعی نقطہ نظر:
ایسے تمام کام اور رسوم و رواج جو کسی خاص تہذیب، مذہب یا نظریے سے جنم لیتے ہوں اور ان کی پہچان سمجھے جاتے ہوں، ان کو بطور تہوار منانا اہلِ اسلام کے لیے قطعاجائز نہیں۔ کیونکہ پیغمبرِ اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: من تشبہ بقوم فھو منہم
’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘(ابوداؤد)
لیکن ایسے افعال جوکسی خاص مذہب و تہذیب سے متعلق نہ ہو بلکہ مختلف قومیں بلاتخصیص ان کو انجام دیتی ہوں، ان کا کرنا مباح ہے۔
ہالووین مغربی تہذیب کا تہوار ہے جس کی شروعات آئرلینڈ کے قبائل نے کیا۔ ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ 31 اکتوبر کی شب کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے قبائلی 31 اکتوبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کرتے، اناج بانٹتے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ایسے تہوار منانا اسلام میں جائز نہیں بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے حرام ہے۔
واللہ اعلم با لصواب
1 Comments