سوال:
قرآن شریف ، بغدادی قاعدہ ، یسرناالقرآن ودگر کتابیں یا استعمال کی ہوئیں کاپیاں ۔ جو بالکل بوسیدہ استعمال کے لائق نہیں رہتے، پھٹے پرانے ہوجاتے ہیں ایسی کتاب کاپیوں کو کچھ لوگ جلادیتے ہیں ۔ کیا یہ جلانا شرعٙٙا درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان کتاب کاپیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
جواب:
ہر وہ کتاب و کاغذ ات اور اخبارات، کاپیاں جس میں اللہ اور اس کے رسول کے نام ، دگر نبیوں ، رسولوں یا فرشتوں کے نام ، یا قرآنی آیات یا احادیث لکھی ہوئی ہو اسے جلانا شرعا جائز نہیں اگر چہ وہ بالکل بوسیدہ ہوگئے ہوں اور پڑھنے کے قابل نہ رہے ہوں ۔ بلکہ ایسی بوسیدہ کتابوں اور کاغذوں سے متعلق
فقہائے کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین لکھتے ہیں کہ: قرآن پاک کے اوراق اگر بوسیدہ اور پرانے ہوجائیں اور اس قابل نہ رہیں کہ اس میں تلاوت کی جائے اور نیز یہ امر یقین ہو کہ اس کے اوراق اگر نہ جلائے گئے تو یہ بکھر کر ضایع ہوجائیں گے ۔ اور اس کی بے ادبی یقینا گی تو تب بھی اسے جلانا جائز نہیں۔ بلکہ ان مقدس متبرک اوراق کی بے حرمتی اور ضایع ہوکر بکھرجانے کی بے ادبی سے بچنے کے لیے شریعت میں کئی صورتیں مذکور ہیں،
پہلی صورت: تو یہ ہے کہ ایسے قرآن پاک ، قاعدہ بغدادی ، یسرنالقرآن ودگر کتابوں اور کاپیوں کے اوراق کو کسی پاک کپڑے وغیرہ میں لپیٹ کر کسی احتیاط کی جگہ دفن کر دئے جائیں ۔ اور دفن کرنے میں اس کے لیے لحد بنائی جائے تاکہ اس پر بلا حائل مٹی نہ پڑے، یا اس پر تختہ لگاکر چھت بناکر مٹی ڈالیں کہ اس پر مٹی نہ پڑے۔
اور دوسری صورت: یہ ہےکہ ان مقدس اوراق کو پاک پانی سے اس طرح سے دھو ڈالیں کہ کوئی بھی حرف ظاہر نہ ہو۔
تیسری صورت: یہ ہے کہ ان اوراق کو کسی ایسی بلند اور محفوظ جگہ سمیٹ کر رکھ دیں تاکہ وہاں تک کسی بے غسل یا بے وضو کا ہاتھ نہ پہنچے اور نہ وہ بکھر کر ادھر ادھر ضایع ہو۔
اور چوتھی صورت: یہ ہےکہ اگر ان صورتوں پر عمل ممکن نہ ہو یا کسی بھی وجہ سے دفن نہ کر سکتے ہوں ، تو کثیر پاک پانی میں کوئی وزنی پتھر وغیرہ باندھ کر اس طرح ٹھنڈا کر دیا جائے کہ یہ اوراق پانی کی تہہ میں چلے جائیں اور وہیں پر گل جائیں، لیکن پانی کی سطح پر ظاہر ہوکر کناروں پر نہ آئیں کہ جس سے ان کی بے ادبی ہو۔
ان تمام صورتوں میں سب سے مناسب و اولی اور بہتر پہلی صورت ہے لہذا اسی کے مطابق عمل کیا جائے
درمختار مع ردالمحتار جلد نہم ،کتاب الحظر والاباحة، ص: ٦٩٦/ میں ہے:"والدفن احسن کما فی الانبیآء والاولیاء اذا ماتوا وکذا فی جمیع الکتب اذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بھا اھ۔ یعنی ان الدفن لیس فیہ اخلال بالتعظیم لان افضل الناس یدفنون ۔ وفی الذخیرة المصحف اذا صار خلقا تعذر القراة منہ لایحرق بالنار ، الیہ اشار محمد وبہ ناخذ ولایکرہ دفنہ وینبغی ان یلف بخرقة طاھرة ویلحد لہ لانہ لوشق ودفن یحتاج الی اھالة التراب علیہ وفی ذلک نوع تحقیر الا اذا جعل فوقہ سقف وان شاء غسلہ بالماء او وضعہ فی موضع طاھر لاتصل الیہ ید محدث ولا غبار ولا قذر تعظیما لکلام اللہ عزوجل"۔ یعنی ان مقدس اوراق کو دفن کرنا زیادہ بہتر ہے جیساکہ انبیا اور اولیا کو انتقال کے بعد دفن کیا جاتا ہے اور اسی طرح تمام کتابوں کا حکم بھی ہے کہ جب وہ بوسیدہ ہوجائیں اور ان سے نفع حاصل نہ کیا جا سکے ۔ اھ۔ یعنی ان کتابوں کو دفن کرنے میں ان کی تعظیم میں کوئی خلل نہیں ہوتا، اس وجہ سے کہ افضل لوگوں کو بھی دفن ہی کیا جاتا ہے اور ذخیرہ میں ہے کہ مصحف جب قابل استعمال نہ رہے اور اس سے پڑھنا متاثر ہوجائے تو اس کو آگ سے نہ جلایا جائے اس کی طرف امام محمد نے اشارہ کیا ہے اور اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں، اس کو دفن کرنا مکروہ نہیں ہے ، البتہ مناسب یہ ہے کہ اس کو ایک پاک کپڑے میں لپیٹا جائے اور اس کے لیے لحد بنائی جائے اور اس وجہ سے کہ اگر اس کے لیے شق (سیدھی قبر) بنائی گئی اور اس میں دفن کیا گیا تو اس پر مٹی ڈالنے کی وجہ سے محتاجی ہوگی اور اس میں ایک قسم کی تحقیرہے الا یہ کہ اس کے اوپر چھت بنا دی جائے اور اگر چاہےتو اس کو پانی سے دھو دے یا اس کو کسی ایسی پاک جگہ پر رکھے ، جہاں بے وضو و بے غسل کا ہاتھ ، گرد و غبار اور گندگی نہ پہنچے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تعظیم کی وجہ سے ہے۔
اور ایسا ہی فتاوی عالمگیری ، جلد پنجم ، ص: ٣٧۵/ میں ہے: "المصحف إذا صار خلقصا لا یقرأ منہ ویخاف أن یضیع یجعل في خرقة طاہرة ویدفن ودفنہ أولی من وضعہ موضعًا یخاف أن یقع علیہ النجاسة الخ․․․ المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراء ة منہ لا یحرق بالنار، أشار الشیباني إلی ہذا في السیر الکبیر وبہ نأخذ"۔
اور حضور امام اہل سنت اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : ”احراق مصحف بوسیدہ وغیر منتفع علماء میں مختلف فیہ ہے اور فتوی اس پر ہے کہ جائزنہیں،قال فی الفتاوی عالمگیریة: ” المصحف إذا صارخلقا و تعذرت القراءۃ منہ لا یحرق بالنار أشار الشیبانی إلی ھٰذا فی السیر الکبیر و بہ نأخذ کما فی الذخیرۃ“۔ فتاوی عالمگیری میں فرمایا : جب مصحف پرانا اور بوسیدہ ہوجائے اور وہ پڑھے جانے کے لائق نہ رہے تو بھی اسے آگ میں نہ جلایا جائے، چناں چہ امام محمد شیبانی نے سیرکبیر میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، لہٰذا اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں، کتاب ذخیرہ میں اسی طرح مذکور ہے۔بلکہ ایسے مصاحف کو پاک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کرنا چاہیے ۔ ”فیھا أیضا المصحف إذا صار خلقاً لا یقرأ منہ و یخاف أن یضیع یجعل فی خرقة طاھرۃ و یدفن و دفنہ أولی من وضعہ موضعا یخاف أن یقع علیہ النجاسة أو نحو ذٰلک و یلحد لہ لأنہ لو شق و دفن یحتاج إلیٰ إھالة التراب علیہ و فی ذٰلک نوح تحقیر إلا إذا جعل فوقہ سقف بحیث لا یصل التراب إلیہ فھو حسن أیضا کذا فی الغرائب“
یعنی اسی (عالمگیری) میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب مصحف بوسیدہ ہو جائے اور اسے نہ پڑھا جا سکے اور یہ اندیشہ ہو کہ کہیں گر کر بکھر جائے گا اور بے ادبی ہونے لگے گی تو اسے کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ دفن کر دیا جائے اور اسے دفن کرنا زیادہ بہتر ہے، بنسبت کسی ایسی جگہ رکھ دینے کے جہاں اس پر گندگی پڑے اور آلودہ ہو جائے اور لا علمی میں پاؤں کے نیچے روندا جانے لگے، نیز اس کی تدفین کے لیے صندوقچی قبر کی بجائے بغلی قبر بنائی جائے، اس لیے کہ اگر صندوق نما قبر بنائی گئی تودفن کرنے کے لیے اس پر مٹی ڈالنے کی ضرورت پیش آئے گی اور یہ عمل بھی ایک لحاظ سے بے ادبی والا ہے، ہاں اگر مصحف شریف کو قبر میں رکھ کر اوپر چھت بنا دی جائے تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے اور نہ اس تک مٹی پہنچے تو بھی اچھی تدبیر ہے، اسی طرح فتاوی الغرائب میں مذکور ہے۔اورصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے کہ احراق واقع ہوا ، کما فی حدیث البخاری ، بغرض رفع فتنہ و فساد تھا اور بالکلیہ رفع اس کا اسی طریقہ پر منحصر کہ صورت دفن میں ان لوگوں سے جنھیں مصاحف محرقہ اور ان کی ترتیب خلاف واقع پر اصرار تھا ، احتمال اخراج تھا ، بخلاف ما نحن فیہ کہ یہاں مقصود حفظ مصاحف ہے ، بے ادبی اور ضائع ہو جانے سے اور یہ امر طریقۂ دفن میں کہ مختار علماء ہے کما مر بنھج أحسن ، حاصل ۔ البتہ قواعد بغدادی و ابجد اور سب کتب غیر منتفع بھا ماورائے مصحف کریم کو جلا دینا بعد محو اسمائے باری عز اسمہ اور اسمائے رسل و ملائکہ صلی اللہ تعالیٰ علیہم و سلم اجمعین کے جائز ہے۔
(فتاوی رضویہ قدیم ، جلد ٩، ص: ٢٩ ۔ جدید : جلد ٢٣، ص: ٣٣٨ تا ٣۴٠)
اور اسی فتاوی رضویہ میں ہے کہ : "اور اگر تھوڑے اوراق ہوں تو اولی یہ ہے مسلمانوں کے بچوں کو ان کے تعویذ تقسیم کردئے جائیں"۔* (فتاوی رضویہ قدیم ، جلد نہم ، ص: ٧٢)
وقار الفتاوی ، جلد دوم ، ص: ١٠٠/ میں ہے:
”قرآن پاک کے بوسیدہ اور پرانے اوراق اور وہ اخبارات جن پر قرآنی آیات و احادیث وغیرہ لکھی ہوئی ہوتی ہیں، ان کو جمع کرنا اور اس کے بعد ایک مقام پر دفن کردینا یا کھلے پانی جیسے سمندر یا دریا وغیرہ میں پتھر باندھ کر ڈال دینا سب سے زیادہ مناسب ہے"۔
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
”ادب و اجلال جہاں تک ممکن ہو بہتر ہے۔ فتح القدیر میں ہے:”کل ما کان فی الأدب و الإجلال کان حسناً“ہر وہ کام جو ادب و احترام میں داخل ہو وہ اچھا ہے ۔“(فتاوی رضویہ،جدید ایڈیشن جلد ٢٣/ ، ص: ۴٠۵)
اور جن اوراق اور کاغذات سے آیات قرآنیہ ، احادیث طیبہ اللہ و رُسُل اور ملائکہ کے اسمائے مبارکہ کو مٹا دئے گئے ہوں تو ایسےاوراق و کاغذات کو جلا دینا جائز ہے اور اس بات میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی جاری پانی میں بہا دیا جائے مگر دفن کردینا افضل ہے۔
جیساکہ اُسی درالمحتار میں ہے:
"الکتب اللتی لاینتفع بھا یحمی عنھا اسم اللہ وملائکتہ ورسلہ ویحرق الباقی ولا باس بان تلقی فی ماء جار کما ھی او تدفن وھو احسن کما فی الانبیاء"۔ یعنی وہ کتابیں جو قابل انتفاع نہ رہیں،بوسیدہ ہوجائیں اور ان سے اللہ تعالی اور ملائکہ کے اور رسولوں کے نام مٹا دئے جائیں اور باقی کو جلا دیا جائے ۔اور اس میں حرج نہیں ہے کہ انھیں اسی حالت میں جاری پانی میں بہا دیا جائے یا دفن کیا جائے اور دفن کرنا زیادہ بہتر ہے جیسے کہ انبیائے کرام (علیھم السلام) کو انتقال کے بعد دفن کیا جاتا ہے۔
فقط وٙاللّٰهُ وٙرٙسُولُه اعلم۔
اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔
کتبہ: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
0 Comments