اتوار کے بانس کاٹنا کیسا ہے

اتوار کے بانس کاٹنا کیسا ہے؟

سوال:

ہمارے علاقے میں یہ بات خوب مشہور ہے کہ اتوار کے دن بانس نہیں کاٹنا چاہیے؟ جب اس کی وجہ پوچھی جاتی ہے کہ کیوں نہیں کاٹنا چاہیے؟ توجواب ملتا ہے کہ اس دن بانس کا جنم ہوا تھا اسی لیے نہیں کاٹنا چاہیے۔ تو ذرا اس کی وضاحت کی جائے کیا یہ بات درست ہے ؟ یا صرف یہ عوام الناس کی خود ساختہ بات ہے ؟

جواب:

بالکل یہ عوام الناس کی خود ساختہ بات ہے، اس بات کا شریعت مطہرہ میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ایسا کہیں نہیں لکھا ہے اور نہ کبھی کسی عالم دین نے ایسا کچھ بتایا ۔ یہ صرف قدیم زمانے سے لوگ اپنی جہالت کے سبب مانتے چلے آرہے ہیں اور اب بھی مان رہے ہیں جو کہ شرعا درست نہیں ۔

یاد رہے کہ شریعت میں باپ دادا کے زمانے سے ہوتے چلے آنے والے پرم پراوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ بلکہ اعتبار ہے شریعت کے اصول و ضوابط کا ۔

پس باپ، دادا کے زمانے سے ہونے والا جو عمل شریعت کی روشنی میں ناجائز غیر مناسب نہ ہوگا تو اس پر تو ہم عمل کریں گے  لیکن جو عمل شریعت کے اصول و قوانین کے خلاف ہوگا ، احکام شرع سے ٹکڑائے گا اسے  چھوڑ دینا اور اس سے پرہیز کرنا ہم پر لازم وضروری ہے ۔ 

اور اتوار کے دن بانس کاٹنے سے متعلق شریعت میں کوئی منع وارد نہیں ہے۔ اس لیے ہم اسے ممنوع نہیں جان سکتے ۔ اگر اسے ہم ممنوع اور ناجائز سمجھیں گے تو پھر ہماری طرف سے شریعت پر زیادتی و افترا کرنا لازم آئے گا جو کہ گناہ ہے۔ قرآن شریف میں ہے :

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾

(پارہ: ٦، سورةالأنعام : آیت نمبر ١۴۴) ترجمہ معارف القرآن مع تفسیر اشرفی: (تو اس سے زیادہ ظالم کون؟ جس نے من گھڑت باندھا اللہ) تعالی(پر جھوٹ) اس کی طرف تحریم اور تحلیل کو منسوب کرکے (تاکہ) اپنی اس خودساختہ گڑھی ہوئی بات سے (گمراہ کردے لوگوں کو(ان کی (بے علمی) کے سبب(سے) ۔۔۔۔یا ۔۔۔۔خود اپنی لاعلمی و جہالت کے سبب سے(بے شک اللہ) تعالی (نہیں راہ دیتا ظالم قوم کو) یعنی جو دین جاہلیت پر مضبوط ہیں اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت عطا فرمائے"۔ 

پس اس تفسیر کی روشنی میں یہ بات واضح ہوچکی کہ جن چیزوں کو شریعت نے منع نہیں قرار دیا ہے اسے ممنوع سمجھنا ناجائز و گناہ اور گمراہی و جہالت ہے۔ لہذا اتوار کے دن  بانس کاٹنے سے شریعت نے منع نہیں کیا ہے تو اسے اب منع سمجھنا ضرور غلط و ناجائز قرار دیا جائے گا۔ 

اور بڑے لطف کی بات تو یہ ہے کہ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب کوئی نیا گھر بناو تو بہتر یہ ہے کہ اس کی شروعات اتوار کے دن سے کرو جیساکہ 

ایک روایت میں حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ۔۔۔۔اتوار کا دن شجر کاری اور عمارتیں بنانے کا دن ہے"۔ لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! وہ کیسے؟ فرمایا: "اس لیے کہ جنت اسی دن بنائی گئی اور اس دن اس میں شجر کاری ہوئی"۔(اللائی المصنوعة ، جلد اول ، ص: ۴٣٩ ، ۴۴٠)

معلوم ہوا کہ اتوار کا دن تعمیرو مرمت کا دن ہے۔

اورتقریب فہم کے لیے یوں عرض ہے کہ جو لوگ اس لائق نہیں کہ وہ بلڈنگ بناسکیں تو وہ عموما بانس کی پھلیوں کی ٹھاٹ بناکر اپنا گھر تعمیر کرتے ہیں ۔ اب اگر اتوار کے دن بانس کے کاٹنے پر روک لگادی جائے تو وہ لوگ اپنے گھر کی تعمیر کی ابتدا اتوار کے دن کیسے کرسکیں گے؟ اس اعتبار سے تو غریب طبقے کے لوگ اس روایت پر اگر عمل کرنا چاہیں گے تو بھی عمل نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے کہ انھیں اپنا گھر بنانے کے لیے بانس کی اشد ضرورت ہوگی اور ان عوامی خیال کے حساب سے وہ اتوار کے دن بانس کاٹ نہیں سکتے ۔ تو اب گھر کیسے بنائے گا۔ لہذا ثابت ہوا کہ اس عوامی خیال کا بالکل لحاظ نہیں کیا جائے گا ۔ بلکہ اس روایت سے تو اشارہ اسی بات کی طرف ملتا ہے کہ اتوار کے دن بانس کاٹنا کوئی منع نہیں ۔ بلکہ اسےمنع سمجھنا خود منع اور گناہ ہے۔ فقط والله ورسوله اعلم۔

اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔

نوٹ

صاحبان علم وادب سے مؤدبانہ ومخلصانہ گزارش ہے کہ کہیں کوئی غلطی نظر آئے تو اصلاح سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں۔

کتبہ

محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

Post a Comment

0 Comments