بدھ کے دن بیٹی کو رخصتی دینا کیسا ہے؟
بعض شہروں میں پھیلی ہوئی خرافات، غیر شرعی رسومات اور غلط فہمیوں کی تردید اوراس کی اصلاح بنام
سوال:
ہمارے یہاں بہت سے لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ بدھ کے دن بیٹی کی رخصتی نہیں کرنی چاہیے ، اس دن بیٹی کو رخصتی دینے کو لوگ منحوس اور باعث خطرہ سمجھتے ہیں ؟ کیا یہ سوچ صحیح ہے ؟
جواب:
نہیں ہرگز نہیں !
یہ خیال رکھنا کہ "بدھ کے دن بیٹی ، بہو کو رخصتی نہیں دینا چاہیے ، اس دن رخصتی دینا خطرہ سے خالی نہیں"۔ بالکل باطل و فاسد اور شیطانی خیال ہے ، ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس طرح کے خیالات کو اپنے ذہن و دماغ میں پنپنے نہ دے ، بلکہ کبھی اگر ایسا خیال ذہن میں آجائے تو فوراً لاحول و لاقوة الا باللہ پڑھ کر دھتکار دے ۔ اور اپنا بھروسہ اور اعتماد اپنے خدا پر مکمل طور پر رکھے اس لیے کہ اس طرح کا خیال رکھنا اپنے ایمان کو کمزور کرنا ہے ۔ لہذا ایسے خیالات سے لازمٙٙا اجتناب کیا جائے۔
حق اور سچ تو یہی ہے کہ بدھ کا دن کوئی منحوس و خطرہ والا دن نہیں بلکہ بدھ کا دن بہت ہی فضیلت و عظمت اور برکت والا دن ہے ۔ اس دن بیٹی بہو کو رخصتی دینے میں کوئی نقصان اور خطرہ کی بات نہیں ہے۔
چناں چہ ایک روایت میں آتا ہے کہ قال رسول ﷺ ما من شیء بدئ بہ یوم الاربعاء الا وقد تم"۔ (المقاصد الحسنة للسخاوی ، رقم الحدیث : ٩۴٣، ص: ۵٧۴) یعنی ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو بدھ کے دن شروع ہوئی ہو اور پوری نہ ہوئی ہو ۔ اس حدیث کا واضح مطلب یہی ہے کہ جو بھی کام بدھ کے دن شروع کیا جاتا ہے وہ مکمل اور تام ہوتا ہے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ بدھ کا دن تخلیقِ نور یعنی روشنی کی پیدائش کا دن ہے اللہ تعالی نے اس دن روشنی کو پیدا فرمایا چناں چہ حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
"وٙخٙلٙقٙ النُّوْرٙ یٙوْمٙ الْاٙرْبٙعٙاءِ"۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نور کو بدھ کے دن پیدا کیا ۔ (مسلم شریف ، باب صفات المنافق ، باب ابتداء الخلق وخلق آدم ، حدیث نمبر ٢٧٨٩)
اور علمائے کرام فرماتے ہیں کہ "بدھ کا دن قبولیتِ دعا کے لیے موزوں اور مناسب ہے ، امید رکھنی چاہیے کہ اس روز دو نمازوں کے درمیان کی جانے والی دعا اللہ تعالیٰ کے یہاں ضرور قبول ہوگی ان شاءاللہ ۔
جیساکہ حدیث پاک میں ہے عن جابر بن عبد اللہ قال دعا رسول ﷺ فی ھذا المسجد مسجد الفتح یوم الاثنین ویوم الثلاثاء ویوم الاربعاء فاستجیب لہ بین الصلاتین ای الظھر والعصر من الاربعاء ؛ قال جابر ولم ینزل بی امر مھم الا توخیت تلک الساعة فدعوت اللہ فیہ بین الصلاتین یوم الأربعاء فی تلک الساعة إلا عرفت الإجابة۔ یعنی حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا بیان ہے کہ رسول ﷺ نے مسجد الفتح میں پیر ، منگل اور بدھ کے دن دعا فرمائی تو آپ کی دعا بدھ کے دن دو نمازوں کے درمیان قبول فرمالی گئی ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ "مجھے جب بھی کوئی سخت مہم پیش آئی تو میں نے اسی وقت کا انتخاب کیا اور اسی وقت میں بدھ کے دن دو نمازوں (یعنی ظہر و عصر) کے درمیان اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تو میں نے اپنی دعا کو قبول ہوتے پہچان لیا"- (مسند احمد ۴٢۵/٢٢، الادب المفرد رقم ٧٢۵)۔ اور اس حدیث کے سند کے حوالے سے امام جلال الدین سیوطی نے رسالة سھام الاصابة فی الدعوات المستجابة میں فرمایا ہے"اسنادہ جید"۔ یعنی اس حدیث کی سند اچھی ہے۔
اور ایک روایت میں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان ، شوال ، بدھ ، جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھا وہ جنت میں جائے گا"۔ (شعب الایمان ، رقم ٣۵٨٧)
اسی کے حدیث نمبر ٣۵٩٠/ میں ہے: کہ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ جس نے بدھ ، جمعرات اور جمعہ کے دن وزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں موتی ، یاقوت اور زمرد کا محل تیار کرے گا اور اس کے لیے آگ سے چھٹکارا لکھ دے گا ۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی احادیث ہیں جن میں بدھ کے دن کی بڑی عظمت و فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
ان ساری احادیث سے معلوم ہوا کہ بدھ کا دن بڑی عظمتوں اور فضیلتوں کا حامل دن ہے کہ اس دن اللہ نے نور کی تخلیق فرمائی ، اس دن دعائیں قبول کی جاتی ہیں ، اس دن کا روزہ جنت میں دخول اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے ، اس دن روزہ رکھنے والے کے لیے جنت میں موتی زمرد وغیرہ کا محل بنایا جاتا ہے ، کوئی مشکل پیش آئے تو اس دن دعا کرنے سے وہ مشکل ٹل جاتی ہے اور اس دن جو کام شروع کیا جاتا ہے وہ پورا اور مکمل ہوتا ہے مگر افسوس ! بعض جاہل اور نادان لوگ اس قدر عظمت و برکت والے دن کو منحوس اور خطرہ کا دن سمجھتے ہیں ۔اللہ تعالی ایسے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔
مجھے لگتا ہے شاید یہ جاہل اور توہّم پرست لوگ بدھ کے دن کو منحوس اس لیے سمجھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اسی دن قوم عاد پر عذاب نازل فرمائی تھی جیساکہ قرآن مقدس میں ہے:
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ(١٩)تَنْزِعُ النَّاسَۙ- كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ(٢٠)
ترجمہ: کنزالایمان
بےشک ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیجی ایسے دن میں جس کی نحوست ان پر ہمیشہ کے لیے رہی لوگوں کو یوں دے مارتی تھی کہ گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجوروں کے ڈنڈ(سوکھے تنے) ہیں۔ اس کے تحت
تفسیر: صراط الجنان میں ہے:
(اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا : بیشک ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی۔) اس آیت سے قومِ عاد پر آنے والے عذاب کی کیفِیَّت بیان کی جا رہی ہے ، چناں چہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے قومِ عاد پر ایسے دن میں ایک بہت تیز چلنے والی ، نہایت ٹھنڈی اور سخت سناٹے والی آندھی بھیجی جس کی نحوست ان پر ہمیشہ کے لیے رہی حتّٰی کہ ان میں سے کوئی نہ بچا اور وہ سب ہلاک ہوگئے ۔ وہ آندھی لوگوں کو زمین سے یوں اکھیڑ دیتی تھی گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجوروں کے سوکھے تنے ہوں اور پھر سر کے بل انہیں زمین پر اس طرح دے مارتی کہ ان کے سر تن سے جدا ہوجاتے تھے اور جس دن وہ آندھی آئی تھی وہ دن مہینے کا آخری بدھ تھا۔(جلالین مع صاوی ، القمر، تحت الآیة: ۱۹ - ۲۰، ٦/ ٢٠٦۵، خازن ، القمر ، تحت الآیة : ۱۹-۲۰، ۴/ ۲۰۴، ملتقطاً)
نوٹ: بعض لوگ مہینے کے آخری بدھ کو منحوس کہتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کرتے ہیں ، مگر یہ غلط ہے کیوں کہ اس بدھ کی نحوست صرف قومِ عاد کے لیے تھی۔
اگر فی الواقع بات ایسی ہی ہے تو پھر ضروری ہے کہ دلائل کی روشنی میں اس فاسد وہم کو دور کیاجائے ۔ چناں چہ بطور دلیل عرض ہے کہ اس آیت کو ثبوت بناکر بدھ کے دن کو منحوس سمجھنا بالکل درست نہیں ۔ اس کے درست نہ ہونے کی کئی دلیلیں ہیں ۔
پہلی دلیل تو یہ ہے کہ کسی بھی ثقہ صحیح العقیدہ مفسر نے قرآن مجید کی مذکورہ آیت سے استدلال کرکے بدھ کے دن کو منحوس قرار نہیں دیا ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ "یوم نحس سے مراد اگر ہر بدھ کا دن لیا جائے تو پھر لامحالہ "ایام۔ نحسات" سے ہر ہفتے کے دن بھی مراد لیے جائیں گے ۔ اور پھر لازم آئے گا کہ فقط بدھ کا دن ہی منحوس نہیں بلکہ ہفتہ کے سارے دن منحوس ہیں اس لیے کہ قرآن شریف کی ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ارشاد فرمایا ہے کہ
"فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِىٓ أَيَّامٍۢ نَّحِسَاتٍۢ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ ٱلْخِزْىِ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرٙةِ اٙخْزٰی وٙھُمْ لٙا یُنْصٙرُوْنٙ۔(پارہ :٢۴ ، سورہ حٰم السجدہ ، آیت: ١٦) ۔
ترجمہ معارف القرآن:
تو چھوڑ دیا ہم نے ان پر آندھی سخت ٹھنڈی منحوس دنوں میں تاکہ چکھا دیں انھیں رسوائی کا عذاب دنیاوی زندگی میں اور یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کرنے والا ہے اور وہ مدد نہ کیے جائیں گے ۔(تفسیر اشرفی جلد پنجم)
دیکھیے اس آیت میں اللہ رب العزت نے "یوم نحس" کے بجائے "ایام نحسات" یعنی جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے۔
اور مزید پارہ ٢٩/ سورہ الحاقة میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔
"سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًاۙ"۔
ترجمہ: کنزالایمان
وہ ان پر قوت سے لگادی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے باقی دنوں کو بھی منحوس کہا ہے ۔
لہذا بدھ کے دن کو منحوس سمجھنے والے توہّم پرست لوگوں پر لازم ہے کہ وہ صرف بدھ کے دن کو منحوس نہ سمجھیں بلکہ ہفتہ کے سارے دنوں کو منحوس قرار دیں ۔ اس لیے کہ وہ لوگ جب بدھ کے دن کو اس لیے منحوس سمجھتے ہیں کہ اس دن قوم عاد پر عذاب آیا تھا ۔ تو ہم کہیں گے کہ قوم عاد پر عذاب تو اسی دن آکر ختم نہیں ہوگیا تھا بلکہ پورا ایک ہفتہ اس پر عذاب رہا تھا اسی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کو قرآن میں "ایام نحسات" یعنی "منحوس دنوں" سے تعبیر کیا ہے ۔
پس توہّم پرست لوگوں کے بقول فقط بدھ ہی کیا بلکہ ہفتہ کے سارے دن ہی منحوس ٹھہرے لہذا اب پھر کسی بھی دن بیٹی بہو کو رخصتی دینا درست نہ ہوا۔
لہذا ثابت ہوگیا کہ بدھ کے علاوہ جس طرح سے اور دنوں میں بیٹی ، بہو کو رخصت کرنے میں کوئی حرج و قباحت نہیں ہے اسی طرح بدھ کے دن بھی بیٹی ، بہو کو رخصت کرنے میں کوئی مضائقہ اور خرابی نہیں ہے۔ چناں چہ
حافظ ابن کثیر علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں :
جو آدمی یہ کہتا ہے کہ (یوم نحس) وہ جاری دن بدھ کا دن تھا اور پھر وہ اس سے بدھ کے دن کو مستقل طور پر منحوس خیال کرتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اس نے قرآن مجید کی مخالفت کی ہے کیوں کہ اللہ تعالی نے ایک اور آیت میں یوں فرمایا ہے: پس ہم نے ان پر سخت تیز ہوا منحوس دنوں میں بھیجی (حم سجدہ ١٦)اور یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ آٹھ دن تھے اگر وہ دن بذات خود منحوس ہوتے تو ہفتے کے ساتوں دن ہی منحوس اور بے برکت قرار پاتے ، اور اس لغویات کا کوئی قائل نہیں ، مقصود تو یہ ہے کہ وہ دن ان کے لیے منحوس ہوئے"۔ (قصص الانبیاء ١٣٣)
اصل بات یہ ہے کہ یہ ایام صرف قوم عاد کے لیے منحوس تھے نہ کہ دنیا کے تمام لوگوں کے لیے ۔ قوم عاد چوں کہ پورا ہفتہ عذاب الہی میں گرفتار رہی لہذا یہ پورا ہفتہ ہی ان کے لیے منحوس یعنی برکت سے خالی تھا ۔ اس لیے اللہ تعالی نے ان ایام کو "ایام نحسات" کہا ہے اور یوم نحس سے مراد وہ دن ہے جس میں قوم عاد پر عذاب الہی کا آغاز ہوا تھا حسن اتفاق وہ بدھ کا دن تھا تو فقط وہی بدھ اور جتنے دن قوم عاد پر عذاب رہا صرف وہی ایام اور وہ بھی خاص قوم عاد کے لیے منحوس یعنی بے برکت رہا اوروں کے لیے نہیں ۔
اور ایسا ہی تفسیر صراط الجنان میں لکھا ہے کہ "اس بدھ کی نحوست صرف قومِ عاد کے لیے تھی"۔
لہذا اب یہ بات خوب اچھی طرح ثابت ہوچکی کہ اب بھی بدھ کے دن کو یوم نحس یعنی منحوس دن کہنا یا سمجھنا کسی طرح درست نہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس اس دن کو عظمت و بزرگی اور برکت والا دن سمجھنا چاہیے جیسا کہ اس کی چند فضیلتیں احادیث کی روشنی میں ماقبل میں پیش کی گئیں۔
حاصل جواب یہ ہے کہ بدھ کے دن بیٹی ، بہو کو رخصتی دینے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے جو لوگ اسے منع سمجھتے ہیں وہ نرا جاہل اور نادان ہیں ۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنی اس غلط سوچ کو فوراً اپنے آپ سے اور اپنی سماج سے دور کریں ۔ ورنہ گناہ گار ہوں گے اس لیے کہ جو چیز شریعت میں منع نہیں اسے منع سمجھنا اصول شرع کے خلاف اور باعث گناہ ہے۔
جیساکہ قرآن شریف میں ہے :
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
(پارہ: ٦، سورةالأنعام : آیت نمبر ١۴۴) ترجمہ معارف القرآن مع تفسیر اشرفی: (تو اس سے زیادہ ظالم کون؟ جس نے من گھڑت باندھا اللہ) تعالی(پر جھوٹ) اس کی طرف تحریم اور تحلیل کو منسوب کرکے (تاکہ) اپنی اس خود ساختہ گڑھی ہوئی بات سے (گمراہ کردے لوگوں کو(ان کی (بے علمی) کے سبب(سے) ۔۔۔۔یا ۔۔۔۔خود اپنی لاعلمی و جہالت کے سبب سے(بے شک اللہ) تعالی (نہیں راہ دیتا ظالم قوم کو) یعنی جو دین جاہلیت پر مضبوط ہیں اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت عطا فرمائے"۔
پس اس تفسیر کی روشنی میں یہ بات واضح ہوچکی کہ جن چیزوں کو شریعت نے منع نہیں قرار دیا ہے اسے ممنوع سمجھنا ناجائز و گناہ ہے۔ فقط والله ورسوله اعلم۔
اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔
نوٹ
صاحبان علم وادب سے مؤدبانہ ومخلصانہ گزارش ہے کہ کہیں کوئی غلطی نظر آئے تو اصلاح سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں۔
کتبہ
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
0 Comments