سوال:
مغربی بنگال میں ائمہ مساجد کو سرکار سے بھتہ کے نام پر جو روپیہ ملتا ہے ازروئے شرع اس کا کیا حکم ہے؟ یہ جائز ہے یا نہیں؟اور فرضی ریکارڈ بناکر یہ سب پیسہ حاصل کرنا کیسا ہے؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب:
حکومت بنگال کی طرف سے امام و موذن کو جو بھتہ کے نام پر روپیہ ملتا ہے اس کا لینا جائز و درست ہے کیونکہ یہ روپیے امام و موذن کو اعزاز و امداد کے نام پر مسلم وقف بورڈ سے دیا جاتا ہے اور اس کے ناجائز ہونے کی کوئی صورت نہیں ملتی اور چونکہ جب حرمت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تو چیز اپنی اصلی حالت پر باقی رہتی ہے اور وہ حلت ہے۔ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ۔
ہاں جو امام و موذن نہیں ہے وہ اگر فریب دے کر روپیہ حاصل کرے تو یہ ناجائز و ممنوع ہے لہذا ان کو چاہیے کہ وہ اپنی خلاف شرح حرکتوں سے باز آئیں۔
مسلم شریف میں ہے:
اذا جمع الله الاولین والآخرين يوم القيامه يرفع لكل غادر لواء، فقيل:هذه غدرۃ فلان بن فلان۔
[الصحیح لمسلم،باب تحریم الغدر،حدیث نمبر1715]
ترمذی شریف میں ہے :
"من غش فلیس منا"
[جامع الترمذی،باب ماجاء فی کراھیۃ الغش فی البیوع،حدیث نمبر1315]
رد المحتار میں ہے:
"ان الغدر حرام"
[ردالمحتار،کتاب الجھاد،باب المستامن،ج:6،ص:280]
عمدۃ القاری میں ہے:
"ان اموالکم حرام اذا لم یوجد التراضی"
[عمدۃ القاری،ج:25،ص:173]
فتاوی رضویہ میں ہے:
"غدر و بد عہدی مطلقا سب سے حرام ہے،مسلم ہو یا کافر ذمی ہو یا حربی مستامن ہو یا غیر مستامن اصلی ہو یا مرتد"
[فتاوی رضویہ مترجم،ج:14،ص:139]
فتاوی بحر العلوم میں ہے:
بحرالعلوم علامہ عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ مدرسے کا فرضی ریکارڈ دکھا کر پیسے یا تنخواہیں حاصل کرنا کیسا ہے تو آپ نے فرمایا:"فرضی حق بنا کر جو لیا اس میں غدرو فتنہ اور چٹنگ بازی کیا یہ ضرور ناجائز و حرام ہے"
[فتاوی بحر العلوم،ج:5،ص:274]
واللّٰہ تعالی اعلم بالصواب
از قلم:محمد صابر رضا اشرفی علائی
رسرج اسکالر: مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال
0 Comments