سیرت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ

ولادت..... وفات: ۳۰ھ

نام و نسب:

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام ابی، کنیت :’’ابوالمنذر‘‘اور’’ ابو الطفیل‘‘ ہے۔ ’’سید الانصار‘‘ اور ’’سید القرا‘‘ آپ کے القاب ہیں۔ آپ کا تعلق مدینہ منورہ کے ایک معز قبیلہ، قبیلئہ نجار کے خاندان سے تھا۔ نجار آپ کا مورث اعلی ہیں۔

 سلسلئہ نسب یہ ہے:

ابی بن کعب بن قیس بن عبید بن زید بن معاویہ بن عمر بن مالک بن نجار۔ (مسند احمد، ج ۵، ص: ۱۱۳، مطبوعہ دار الفکر)

قبول اسلام:

آپ کتب قدیمہ کے متبحر عالم تھے۔ آپ کو معلوم ہو چکا تھا کہ نبی آخر الزماںﷺ مبعوث ہونے والے ہیں۔ لہذا جب آپ تک بعثت کی خبر پہونچی تو بارہ لوگوں پر مشتمل ایک قافلہ کے ساتھ مکہ پہنچے اور بار گاہ رسالت میں حاضر ہو کرقبول اسلام سے سرفراز ہوئے۔ حضرت ابو عمررضی اللہ تعالی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے قبول اسلام کے واقعہ کو ان الفاظ میں ذکر کیا:’’ شہد أبی بن کعب العقبۃ الثانیۃ وبایع النبی ﷺ''۔الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب للامام قرطبی، ص: ۱۶۲، دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

یعنی حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ عقبہ ثانیہ میں حاضر تھے اور اس موقع سے پیارے آقا علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کی۔

رشتئہ اخوت:

مدینہ سے مکہ پہنچ کر بیعت ہونے والایہ دوسرا قافلہ تھا۔ اس سے پہلے ایک قافلہ بیعت ہو چکا تھا۔ تاریخ میں یہ دونوں، بیعت عقبہ اولی اور بیعت عقبہ ثانیہ سے مشہور و معروف ہیں۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد بھی ۷۲افراد نے صحابیت کا شرف حاصل کیا۔ پھر اس کے بعد ہی ہجرت کا حکم ہو گیا تو پیارے آقا علیہ السلام ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور انصار و مہاجرین کے درمیان رشتئہ اخوت قائم کیا، تو آپ ﷺ نے حضر تے سعید بن زید کو حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کا بھائی قرار دیا۔ جیسا کہ حضرت محمد بن اسحاق سے روایت ہے۔

''اٰخی رسول اللہﷺ بین ابی بن کعب و سعید بن زید رضی اللہ عنہما''۔

  لیکن حضرت سعد بن ابراہیم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے ابی بن کعب اور طلحہ بن عبید اللہ کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا تھا۔

''اٰخی رسول اللہﷺ بین ابی بن کعب و طلحۃ بن عبید اللہ''(الطبقات الکبری، لابن سعد، ج: ۳،ص:۳۷۸، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

غزوات میں شرکت:

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ غزوئہ بدر، غزوئہ احد، غزوئہ خندق و دیگر تمام غزوات میں نبی علیہ السلام کے ساتھ مردانہ وار شریک رہے۔ حضرت محمد بن اسحق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

’’شہد ابی بدرا واحدا و الخندق و المشاہد کلہا‘‘ (مصدر سابق)

طلب علم :

قبول اسلام کے بعد حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے طلب علم میں زندگی کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا۔ہمیشہ قصر علم کی تعمیر و ترقی میں مشغول رہے۔ آپ تورات و انجیل کے ماہر تھے ہی حفظ قرآن،فن قرأت اور دیگر علوم و فنون میں بھی انصار و مہاجرین پر سبقت لے گئے۔ انصار و مہاجرین رضی اللہ تعالی عنھم اکتساب فیض کی خاطر بارگاہ فیض بخش علیہ السلام میں حاضر تو رہتے مگر کبھی کبھی بغرض معاش، تجارت و زراعت میں بھی مشغول ہوجاتے۔ لیکن حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ چشمئہ علوم نبویہ ہی کو گزرا اوقات کے لیے خاص کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بلاواسطہ خود پیارے آقا ﷺ سے سن سن کر قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا۔

جب بھی پیارے آقاﷺ تعلیم فرماتے حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ سراپا گوش بن جاتے۔ حصول علم میں آپ کو تشنہ لب دیکھ پیارے آقا ﷺ خود ہی اپنے چشمئہ علم کا بند کھول دیتے۔حضرت ابو ہریرہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں: ایک مرتبہ حضور ﷺ نے اپنے آپ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا :ابی!میں تمہیں ایک ایسی سورت بتاتا ہوں جس کی نظیر نہ تورات و زبور میں ہے اور نہ انجیل و قرآن میں۔ اتنا فرما کر آپ علیہ السلام دو سری گفتگو میں مشغول ہو گئے۔ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ انتظار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ اٹھے اور گھر کی جانب تشریف لے گئے۔ شوق طلب علم میں حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ بھی ساتھ ہوگئے کہ حضور ﷺ اب جنبش لب فرمائیں گے۔ مگر پیارے آقاعلیہ السلام نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسری گفتگو شروع فرمادی پھر اس سورۃ کی طرف اشارہ بھی نہ کیا حتی کہ آپ ﷺ در وازے تک بھی پہنچ گئے۔ ادھر حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کے صبر و شکیب کاپیمانہ لبریز ہوہی گیا اور بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض گزار ہوئے: یار سول اللہﷺ

السورۃ التی قلت لی ۔قال فکیف نقرأ اذا قمت تصلی؟ فقرأ بفاتحۃ الکتاب، قال ھی ھی (مسند احمد، ج: ۵، ص: ۱۱۴)

یا رسول اللہ ﷺ وہ سورہ بتلا دیں جس کا آپ نے تذکرہ کیا تھا تو حضور ﷺنے فرمایا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہو تو کیا پڑھتے ہو ؟ تو حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے سورۃ فاتحہ پڑھی ۔ تو پیارے آقا ﷺ نے فرمایا یہی وہ سورت ہے۔

غرض جب تک حضورﷺ اپنی ظاہری زندگی کے ساتھ جلوہ افروز رہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے نور نبویﷺ سے مستنیروضیا بارہوتے رہے۔ یہاں تک کہ حفظ قرآن، فن قرأت، تشریح احادیث و غیرہ علوم و فنون کے ماہر ہو گئے۔ باریک بینی، دقیقہ سنجی اور تلاش و تتبع نے خاص کلام اللہ کی تفسیر و تاویل اور آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ سے مسائل واحکام کے استنباط واستدلال کافطری ملکہ پیدا کر دیا۔ گویا آپ کا طائر علم و فضل آسمان ترقی کی جانب روبہ پرواز ہو گیا۔

عہد رسالت تا عہد خلافت:

جب تک حضورﷺ چشم عالم سے پوشیدہ نہ ہوئے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ جلوت و خلوت ،خوشی وغمی تمام حالات میں آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ رہے۔ بدر سے لے کر طائف تک تمام غزوات میں آپ ﷺ کے لیے ڈھال اور دشمنوں کے لیے وار بنے رہے۔ تعلیم و تدریس دعوت و تبلیغ کل امور دینیہ میں پیش پیش رہے۔ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ تحصیل صدقات کے لیے حضور ﷺ نے قرب و جوار میں عمال بھیجے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کوبھی ’’عذرہ‘‘ وغیر ہ صوبوں کا عامل مقرر کیا۔

آپ ﷺ نے بحسن و خوبیاپنی ذمہ داری کو انجام دیا اور کبھی بھی ہدایت نبوی ﷺکے خلاف نہ گئے۔ حضرت یعقوب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے مقررہ صوبوں سے صدقات وصول کیے۔ یہاں تک کہ ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جس کا مکان شہر رسول ﷺ سے بالکل قریب تھا۔ تو اس شخص نے صدقے میں تمام اونٹ سامنے کر د یے کہ ان میں سے آپ جو پسند فرمائیں انتخاب فرما لیں۔ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دو سال کی ایک اونٹنی کا انتخاب کیا۔ اس شخص نے کہا یہ کیا یہ تو نہ دودھ دے نہ سواری کا کام انجام دے! اللہ کی قسم! پیارے آقا ﷺ کی جانب سے اب تک کوئی عامل تمھاری طرح نہ آیا اور نہ میں نے ایسا جانور اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جو نہ دودھ دینے کے قابل ہو نہ سواری کے قابل ہو۔ لہذا ہر اونٹنی موٹی، تازی اور فربہ ہے اسے قبول فرمائیں۔ انکی عرض و معروض کے باوجود آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جو جملہ ارشاد فرمایادہ یقیناآپ رضی اللہ تعالی عنہ کی کامل اطاعت گزاری پر بین دلیل ہے۔ آپ نے کہا:

''ما انا بأخذ ما لم أو مر بہ فہذا رسول اللہﷺ منک قریب فان احببت ان تاتیہ فتعرض علیہ ما عرضت علی"

میں ہدایت نبوی کے خلاف نہیں جا سکتا پیارے آقا ﷺ نے مجھے جس چیز کے لینے کی اجازت نہ دی میں اسے ہرگز نہیں لے لوں گا۔ پیارے نبی ﷺ تمھارے قریب ہی جلوہ فرما ہیں، جو کچھ مجھے دے رہے ہو اگر چاہو تو بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر خود پیارے آقاﷺ کی خدمت میں پیش کر دو۔ پھر خدمت اقدس ﷺ میں حاضر ہو کر انہوں نے پورا ما جرابیان کیا اور وہی فربہ اونٹنی پیش کی تو پیارے آقاشی ﷺنے قبول فرمالیا اور ان کے لیے خیر و برکت کی دعا کی۔(مسند احمد، ج :۵، ص: ۱۴۲)

آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ آیا۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے عہد صدیقی میں اہم خدمات انجام دی۔ خاص جمع قرآن میں آپ کی خدمت مسلم ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جب تدوین قرآن کا آغاز کیا تو دوران تدوین آخرِ برأت کی دو آیتوں کے سلسلے میں کافی اختلاف ہوا۔ اس لیے کہ یہ دو آیتیں تحریری شکل میں صرف حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس موجود تھیں۔ تو عناد پرستوں نے اعتراض کیا کہ بعض قرآن آحاد سے لیا گیا ہے اور غیر متواتر ہے۔ مگر محققین نے اس کا مسکت اور دندان شکن جواب دیا اور الزام آحاد کی زردی میں بے شمار حفاظ و قراء پیش کیے جن کے سینے میں یہ آیتیں محفوظ تھیں تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی سند تواتر کے طور پر پیش کیا گیا۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج :۳، ص: ۱۷۲، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

لہذا جب اختلاف بڑھا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے آخرِ براء ت کی دو آیتوں کی تصدیق کی جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھماروایت کرتے ہیں :

ــ’’ قال آخر آیۃ نزلت '' لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُولٌ مِن اَنفُسِکُم... الآیۃ‘‘ (سورۃ التوبۃ آیت: ۱۲۸-۱۲۹) (مسند احمد بن حنبل، ج: ۵، ص: ۱۱۷)

حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ سورہ براء ت کی آخر میں نازل ہونے والی آیتیںیہ ہیں ۔ لقد جآء کم رسول ۔ ۔ ۔ الی اٰخرہ۔(التوبۃ، آیت:۱۲۸ا۔۱۲۹)

اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کا دور آیا تو حضر سے عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی آپ کے علمی مقام و مرتبہ کا خوب خوب پاس و لحاظ کیا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کا با ضابطہ نظام قائم کیا تو حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کو قوم کا امام منتخب فرمایا۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی، ج: ۳، ص: ۱۷۷)

خلافت فاروتی رضی اللہ تعالی عنہ میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ صرف عہدہ امامت پر ہی فائز نہ تھے بلکہ پورے عہد میں ایک قابل سند مفتی کی حیثیت سے مسند افتا پر متمکن رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے فقہی و اجتہادی کمال سے اتنا متاثر تھے کہ انھوں نے درس و تدریس  اور تعلیم امت کے سوا کبھی کوئی دوسری اورذمہ داری آپ کے سپردہی نہ کی۔ حضرت عمران بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

قال ابی بن کعب لعمر بن الخطاب رضی اللہ عنھما مالک لا تستعملنی؟ قال: أکرہ ان یدنس دینک ''

ایک مرتبہ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا آپ مجھے کوئی اورذمہ داری کیوں نہیں دیتے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا: میں آپ کے دین کو دنیا میں ملو ث نہیں دیکھنا چاہتا۔(طبقات، ج: ۳، ص: ۳۷۹، دار الکتب العلمیہ، بیروت لبنان)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن جمع فرما کر امت کو ایک تلفظ کے قراء ت پر متفق کر کے قیامت تک کے مسلمانوں پر ایک عظیم احسان فرمایا۔ مگر اس شاہکار میں حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے نقل  و املا کی خدمت کے لیے انصار و قریش کے ۱۲/ افراد کی تعیین قربانی۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو بھی تدوین قرآن کی مجلس میں شامل فرمایا۔ تدوین قرآن،از،محمد احمد مصباحی ،ص:۸۴، مطبوعہ المجمع الاسلامی مبارک پور)

طبقات میں محمد بن سیرین رضی اللہ تعالی عنہ سے یوں روایت ہے:

'' أن عثمان جمع اثنی عشر رجلا من قریش و الانصار فیہم ابی بن کعب و زید بن ثابت فی جمع القرآن‘‘ (الطبقات الکبری، ج: ۳، ص: ۳۸۱، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے جمع قرآن کے لیے انصار و قریش میں سے بارہ افراد کی ایک مجلس قائم کی جس میں حضرت ابی اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنھما بھی تھے۔

لہذاجمع قرآن میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی اہم خدمت ہے بلکہ اس عظیم کار نامہ میں آپ بھی شریک و سہیم ہیں ــ’’ الاعلام‘‘ میں ہے۔’’ امرہ عثمان جمع القرآن فاشترک فی جمعہ ‘‘

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو قرآن جمع کرنے کا حکم دیا لہذا جمع قرآن میں آپ بھی شریک و سہیم ہیں۔( الاعلام لرز کلی، ج: ۱، ص: ۷۸، الطبعۃ الثالث، بیروت) 

فقہی و اجتہادی کارنامے:

کتب سیر میں آپ کے استنباط مسائل کے واقعات کثرت کے ساتھ مذکور ہیں اور زیر نظر مقالے کا مقصد خاص بھی آپ کے فقہی و اجتہادی کمالات کو اجاگر کرنا ہے لہذا اب ہم آپ کے فقہی گوشے قارئین کی نظر کررہے ہیں۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ اکثر کتاب اللہ سے مسائل کا استنباط فرماتے پھر احادیث کی جانب رجوع کرتے۔ جب ان دونوں میں حل کی صورت نظر نہ آتی توقیاس سے کام کر لیتے۔

حضرت مسروق رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک مسئلہ بھی پوچھا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:یا ابن اخی! أکان ہذا؟ قلت لا، قال فأحمِنا حتی یکون، فاذا کان اجتہدنا لک رأینا۔

اے میرے بھتیجے! جو مسئلہ آپ پوچھ رہے ہیں کیا وہ مسئلہ واقع ہو چکا؟ حضرت مسروق یہی ہے کہتے ہیں: میں نے کہا ابھی تو واقع نہیں ہوا، تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جب تک وہ مسئلہ واقع نہ ہو، مجھے چھوڑے رہو۔ جب وہ مسئلہ در پیش ہو گا تو میں اپنے قیاس اور رائے سے تمھارے لیے اجتہاد کروں گا۔(الطبقات الکبری،ج:۳،ص:۳۸۰)

مسئلہ لقطہ:

حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ زید بن صوحان اور سلما بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنھما کے ساتھ کسی غزوے میں گئے۔ مقام ''عزیب‘‘ میں انھیں ایک کوڑا پڑا ملا۔ انھوں نے کہا اسے پھینک دو! شاید کسی مسلمان کا ہو۔ حضرت سوید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں نہ پھینکوں گا اس لیے کہ اگر پھیکوں کا تو بھیڑیے کی غذا بن جائے گا۔ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ اسے استعمال میں لایا جائے۔ کچھ دنوں بعد حضرت سوید بن غفلہ سفر حج کے لیے روانہ ہوئے درمیان میں مدینہ منو رہ پڑرہا تھا۔ انھوں نے حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کوڑے کا مسئلہ دریافت کیا۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا اس قسم کا واقعہ مجھ کو بھی پیش آچکا ہے۔ عہد رسالت مآب ﷺ میں مجھے ۱۰۰۰ دینار ملے تھے۔  پیارے آقا ﷺنے حکم فرمایا: میں سال بھر تک لوگوں کو خبر کرتے رہوں۔ سال گزرنے کے بعد پھر ارشاد ہوا رو پے کی تعداد، تھیلی کا نشان وغیرہ (علامتیں) یاد رکھنا پھر ایک سال تک انتظار دیکھنا اگر کوئی اس نشانی کے موافق طلب کرے تو اس کے حوالے کر دینا ور نہ وہ تمھارا ہو چکا۔( لہذا ہرلقطہ گری ہوئی چیز کو اٹھانے پر یہی حکم ہے) یہ روایت متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ مگر سب کا خلاصہ وہی ہے جو بیان کیا گیا۔ (ایضاً،ج:۴،ص:۲۶۰)

حج تمتع کا مسئلہ:

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو حج تمتع سے روک دیں حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: آپ کو اس کا اختیار نہیں اس لیے کہ حدیث سے اس کا جواز کار اتے ہے۔ وہ حدیث یہ ہے:

’’ تمتعنا مع رسول اللہﷺ و لم ینہنا عن ذالک ‘‘

ہم نے خود پیارے آقا ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا ہے اور پیارے آقا ﷺ نے ہمیں اس سے منع نہ کیا۔’’ فاضرب عن ذالک عمر‘‘  لہذا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ سنا تو اپنے ارادے سے باز آ گئے۔(مسند احمد بن حبنل ، ج:۵، ص:۱۴۳)

پھر ارادہ کیا کہ لوگوں کو حیرہ کے حلے پہننے سے منع کردیں اس لیے کہ اس کے رنگ میں پیشاب کی آمیزش ہوتی تھی۔ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ’’ لیس ذالک لک قد لبسہن النبی ﷺلبسناھن فی عہدہ ‘‘ اس کی ممانعت کا بھی آپ کو اختیار نہیں چوں کہ خود پیارے آقا ﷺ سے اس کا پہننا ثابت ہے اور پیارے آقا ﷺ کے عہد مبارک میں خود ہم لوگوں نے بھی پہنا ہے۔ (یہ اجتہاد عموم بلوی کی بنا پر تھا)۔ (مسند احمد، ج:۵، ص: ۱۴۳)

دوسرے کی زمین پر مسجد تعمیرکرنا:

حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا مکان مسجد نبوی سے متصل تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد نبوی کو وسیع کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ وہ اپنا مکان فروخت کر دیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیچنے سے انکار کر دیا۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ ہبہ کر دیں۔ مگر آپ راضی نہ ہوئے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ خود مسجد کو وسیع کر دیں اور اپنا مکان اس میں داخل کردیں۔ اس پر بھی بات نہ بنی۔ تو حضرت عباس اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنھما دونوں نے حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اپنا معاملہ پیش کیا۔

حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: بلا رضامندی کے آپ کو ان کی چیز لینے کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا:

أرئیت قضائک ہذا فی کتاب اللہ وجدتہ أم من سنۃ رسول اللہﷺ ؟ فقال ابی: بل سنۃ من رسول اللہﷺ  فقال عمر وما ذالک۔

آپ نے یہ فیصلہ قرآن کی رو سے کیا یاحدیث کی رو سے؟ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا حدیث کی رو سے حضرت عمر نے کہا وہ کیسے؟ آپ نبوی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایاوہ اس طور پر کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب بیت المقدس کی عمارت بنوائی تو اس کی ایک دیوار ایسی تھی کہ جب جب وہ اس کی تعمیر فرماتے صبح ہوتے ہی وہ منہدم ہو جاتی۔ تواللہ تبارک و تعالی کی جانب سے حضرت سلیمان کے پاس وحی آئی کہ دیوار دو سرے کی زمین پر بنائی جاری ہے جب کہ دوسرے کی زشتی پر اس کی رضامندی کے بغیر آپ ہرگز تعمیر نہیں کر سکتے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ سنا تو خاموش ہوگئے۔ (کنز العمال، ج:۱،ص:۸۴۵، حدیث نمبر: ۲۳۰۹۶، بیت الافکار الدولیۃ)

مگر پیارے آقاﷺ کے پیارے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ یہ کب گوارا کر سکتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بطیب خاطر اپنی زمین مسجد میں شامل کروا دیا۔ (مصدر سابق)

نماز تراویح میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا اجتہاد اور پیارے آقاﷺ کی تصویب:

 مشہور ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے ایک رمضان تین رات مسجد میں تراویح کی جماعت کرائی۔ پھر تیسرے دن کے بعد آپ تشریف نہ لائے۔ صحابہ کرام علیہ الرحمۃ والرضوان نے آپ علیہ السلام سے پو چھا تو آپ علیہ السلام نے نہ آنے کی وجہ بیان فرمائی:

فلم یمنعنی من الخروج الیکم إلا إنی خشیت ان تفرض علیکم ۔(کتاب السنن سنن ابی داؤد، باب فی قیام شہر رمضان ،حدیث نمبر: ۱۳۷۰، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ، الطبعۃ الاولیٰ:۱۴۱۲ھ۔۲۰۰۰م)

مجھے تراویح پڑھانے سے صرف یہ بات مانع ہوئی کہ مجھے خوف ہوا کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے۔

صحابہ کرام علیہ الرحمۃ والرضوان کی یہ عادت تھی کہ پیارے آقا ﷺ جب کسی عمل سے رک جاتے تو صحابہ بھی رک جاتے۔ مگر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ اجتہادی شان تھی کہ آپ نے اجتہاد اًنماز تراویح با جماعت قائم رکھی۔ محراب سے ہٹ کر ایک کونے میں جماعت کراتے رہے۔ آپ کو رکھ کر تر ہوتا کی کچھ اور جماعتیں بھی قائم ہو گئیں۔ صورت اجتہاد یہ تھی کہ پیارے آقا ﷺ کا  جماعت ترک کرنا یا تونا پسندیدگی کی بنا پر تھا یا امت پر تخفیف مقصود تھا۔ یہ بھی دقت پیش نظر تھی کہ ماہ رمضان میں پورا قرآن ختم کرنا غیر حافظ کے لیے ایک امر محال ہے۔’’ امت پر شفقت مقصود تھا اور غیر حافظ کے لیے ختم قرآن اور حسن قراء ت ایک مشکل امر ہے‘‘ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے اجتہاداً یہی پہلو اختیار کیا جس کی تصویب خود پیارے آقا ﷺ نے فرمادی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک رات پیارے نبی ﷺ گھر سے نکلے تو دیکھا پکچھ لوگ رمضان میں مسجد کے ایک کونے میں تراویح پڑھ رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا کیوں جمع ہیں؟ عرض کیا گیا کہ ان لوگوں کو قرآن یاد نہیں اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ ان کو نماز تراویح پڑھارہے ہیں۔ تو پیارے نبی ﷺ فرمایا:

’’ أصابوا ونعم ما صنعوا‘‘  ( حوالہ مذکورہ، حدیث نمبر:۱۳۷۴)

’’ انھوں نے بہت اچھا کیا اور جو کچھ کیا ہے اچھا عمل ہے۔‘‘

غیرحافظ کے لیے ختم قرآن اور حسن قراء ت یقینا تکلیف مالا یطاق ہے۔ یہ اجتہاد ایسی تھی جسے بعد میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے شدت سے محسوس کیا پھر بالا ہتمام ہمیشہ کے لیے باجماعت تراویح کا نظام قائم کر دیا۔ (حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کا نماز پڑھانابالاہتمام نہ تھاوہ صرف چند لوگوں کو لے کر پڑھ لیا کرتے)

حضرت ابن منبع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے: ’’ان عمر ابن الخطاب امرہ أن یصلی باللیل فی رمضان، قال إن الناس یصومون النہار ولا یحسنون أن یقرء وافلو قرأت علیہم باللیل۔‘‘( جامع الرضوی بصحیح اللبہاری لملک العلماء ،حصہ: ۲، ص: ۵۹۸، مطبوعہ منظمۃ أئمۃ المساجد، مدن پور ،ممبئی)

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ تم لوگوں کو رات میں تراویح کی نماز پڑھاؤ اس لیے لوگ دن میں روزہ رکھتے ہیں اور قرآن کریم اچھی طرح نہیں پڑھ سکتے بہتر یہ کہ تم ان پر قرآن پڑھا کرو۔

کتاب الحد اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کا موقف: ابتدائے اسلام میں حد زنا میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کا موقف الگ تھا۔

احناف کا مسلک یہ ہے کہ اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے زنا کاارکتاب کرے تو اسے فقط رجم و سنگسار کیا جائے گا کوڑے کی سزا نہیں دی جائے گی۔ مگر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کا موقف اس سے مختلف تھا۔ جیسا کہ کنز العمال میںآپ ان سے یہ روایت منقول ہے:

’’ یجلدون ویرجمون، ویرجمون ولا یجلدون، ویجلدون ولا یرجمون‘‘۔

یعنی جب کوئی زنا کرے تو اس کی سزاکی تین صورتیں ہوں گی۔ (۱) کوڑے لگائے جائیں اور سنگسار بھی کیا جائے۔ میں بوڑھا شادی شدہ کی سزا ہے۔ (۲) سنگسار تو کیا جائے پر کوڑے نہ لگائے جائیں۔ یہ جو ان شادی شدہ کی سزا ہے۔ (۳) صرف کوڑے لگائے جائیں گے رجم نہیں کیا جائے گا۔ (کما فسرہ ابو قتادۃ) (کنز العمال، ج: ا،ص: ۵۰۹، حدیث نمبر:۱۳۵۰۰)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ رجم سے پہلے کوڑے لگائے جائیں یا نہیں؟ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ رجم سے پہلے کوڑے کے قائل تھے۔ ان کا یہ استدلال قرآن کریم سے تھا اس لیے کہ قرآن پاک میں حکم عام ہے۔’’الزانیۃو الزانی فاجلدوا کل واحد منھمامائۃ جلدۃ‘‘ (سورہ النور ۲۴، آیت:۲)

’’زانی مرد اور عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگائیں جائیں''

اور رہی بات رجم تو یہ صریح احادیث سے ثابت ہے۔ مزید یہ کہ حضرت ابن عباس حضرت ابوذر غفاری اور (ایک روایت کے مطابق) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے موید تھے۔ لہذا کوڑے قرآن کے حکم سے لگا ئے جائیں گے اور رجم حدیث کی رو سے کیا جائے گا۔ مگر جمہور کا مسلک یہ تھا کہ رجم کرنے سے قبل کوڑوں کی سزا دینا بے معنی ہے اور جواب دیا گیا کہ قرآن کا حکم عام نہیں خاص ہے۔ اور اس عموم کی مخصص وہ حدیث ہے جس میں صرف رجم کا ذکر ہے جس پر خود حضورﷺ حضرت ابو بکروعمررضی اللہ تعالی عنھمانے عمل کیا۔ یعنی رجم کے ساتھ کو ڑے نہیں لگائے۔ اوراس حدیث میں کوڑے اوررجم دونوں کا ذکر ہے تو ان میں سے ایک منسوخ ہے جسے حاذمی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا۔ پھر یہ کہ جس میں صرف رجم کا حکم ہے کو ڑے کا نہیں وہ حدیث ان اصحاب سے مروی ہے جو حضور ﷺکی آخری زندگی میں ایمان لائے۔ لہذا یہی مانا جائے گا کہ پہلی حدیث منسوخ ہے۔ (شرح موطا، از امام محمد، شارح محمد علی رحمۃ اللہ علیہ، ج:۲، ص:۶۱۱۔۶۱۳، مخلصاً، مطبوعہ فاروقیہ بک ڈپو)

قراء ت خلف الامام اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ :

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے اجتہاد ات میں قراء ت خلف الامام بھی ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن ابوھذیل سے مروی ہے۔

أن ابی بن کعب کان یقر أخلف الامام فی الظہر والعصر ۔(کنزالعمال ، ج:۱،ص:۸۴۱،حدیث نمبر:۲۲۹۸۱)

یعنی حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ ظہر و عصر میں قراء ت خلف الامام کرتے تھے۔ حضرت ابی کا استدلال قرآن پاک کی اس آیت سے تھاـ’’ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمعُوالہ وانْصِتُو ا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف ۷، آیت:۲۰۴)

جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو غور سے سنو۔ ظہر و عصر میں تو بلند آواز سے تلاوت ہوتی نہیں تو '' انصتوا'' کا کیا مطلب ؟لہذا خود بھی قراء ت کر لیا جائے۔

وہابی غیر مقلد اس حدیث کو قراء ت خلف الامام کی سند کے طور پر پیش کر سکتا ہے اس لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ فعل ابتدائے اسلام میں تھا پھر بعد میں اس کا حکم منسوخ ہو گیا۔ اس لیے جہاں یہ حدیث مذکور ہے اس کے فوراً بعد ہی وہ حدیث بھی پیش کر دی گئی جس میں قراء ت خلف الامام کی ممانعت ثابت ہے وہ یہ ہے:

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ﷺ نے عوام کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری ہونے کے بعد آپ اصحاب کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تم لوگ اپنی نمازوں میں قراء ت خلف امام کرتے ہو حالاں کہ تمام خود قراء ت کر رہا ہو۔ آپ نے تین بار حکم فرمایا خاموش رہا کرو، خاموش رہا کرو، خاموش رہا کرو۔ (کنز العمال، ج:۱،ص:۸۴۱، حدیث نمر: ۲۲۹۸۳)

حضرت عطا بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ نے مشہور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ (جو کاتب وحی بھی ہیں اور فقہائے  اصحاب رضی اللہ تعالی عنھم سے بھی ) سے روایت کی انھوں نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے امام کے ساتھ قراء ت کے متعلق پوچھا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:’’لاقراءۃ مع الامام فی شئی ‘‘امام کے ساتھ قراءت بالکل جائزنہیں۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب سجود التلاوۃ، ج:۱،ص:۲۱۵، مطبوعہ مجلس برکات، جامعہ اشرفیہ مبارک پور)

دوران خطبہ گفتگو کی ممانعت:

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے :ایک مرتبہ جمعہ کے دن حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ ہی کے بغل میں بیٹھے تھے۔ حضور ﷺ دوران خطبہ سورہ براء ت کی تلاوت فرمائی۔ حضرت ابودرداء اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنھما کو اس سورت کے نزول کا علم نہ تھا۔ تو دوران خطبہ ہی حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی؟ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے کچھ جواب نہ دیا۔ بعد نماز انھوں نے پوچھا اے ابی! آپ نے ہمارا جواب کیوں نہ دیا ؟ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

’’ أنہ لیس لک من جمعتک إلا ما لغوت‘‘

’’آج تمھاری نماز بے کار ہو گئی وہ بھی صرف اسی لغو حرکت (دوران خطبہ بولنے) کے سبب۔‘‘ وہ حضور ﷺ کی بارگاہ میںپہنچے اور عرض کیا کہ ابی ایسا کہ رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ صدق ابی‘‘ ابی نے جو کہا سچ کہا۔ یہ سن کر حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے توبہ و استغفار کیا۔( کنزالعمال ، ج:۱ ، ص:۸۵۴،حدیث نمبر:۲۳۳۲۲)

(یہی روایت حضرت عطاربن یسار رضی اللہ تعالی عنہ سے قدر تغیر کے ساتھ مسند ،ج: ۵ ،ص: ۱۴۳، میںبھی مذ کور ہے)

آداب مسجد:

حضر ت ابن سیرین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

سمع ابی بن کعب رجلاً یعتری ضالتہ فی المسجد، فغضبہ فقال: یا ابا المنذر ما کنت فاحشا، قال: إنا أمرنا بذالک (مرجع سابق، ج:۱، ص: ۸۴۵، حدیث نمبر: ۲۳۰۹۴)

ایک شخص کسی گمشدہ چیز پر شور مچا رہا تھا حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا تو غضب ناک ہو گئے۔ اس نے کہا میں کہاں غلط اور فحش بک رہا ہوں؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا یہ ٹھیک ہے مگر یہ حرکت مسجد کے آداب کے خلاف ہے۔

مسائل طلاق اور حضرت ابی بن کعب کا موقف و فتویٰ:

اللہ تبارک و تعالی نے سورہ بقرۃ رکوع ۱۱/ میں تفصیل کے ساتھ ایسی مطلقہ عورتوں کی عدت کا مسئلہ بیان فرمایا گیا جنھیں حیض آتا ہو اور ان عورتوں کی عدت کا بھی مسئلہ بیان فرمایا گیا جن کے شوہر انتقال کر جائیں۔ لیکن اس میں تین قسم کے عورتوں کی عدت کا مسئلہ بیان نہیں کیا گیا جنھیں حیض نہیں آتا۔ (ا) وہ عورت جو ایسی عمر کو پہنچ چکی ہو جس عمر میں حیض نہیں آتا۔ (۲) یا وہ چھوٹی ہو ابھی بالغ ہی نہ ہوئی ہو۔ (۳) یا حاملہ ہو اس لیے کہ حمل کی وجہ سے حیض آنا بند ہو جاتا ہے۔ لہذا اگر اس قسم کی عورتیں مطلقہ ہوں یا متوفی عنہاز و جہا ہوں تو ان کی عدت کیا ہوگی؟

چوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی رنہ زمانہ رسالت ہی سے فتویٰ دیا کرتے تھے اور لوگ مسائل دریافت کر کے آپ سے ان کا حل تلاش کرتے تھے۔ تو جب لوگوں کو یہ سارے مسائل پیش آئے تو حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ بار گا ہ رسات میں عرض کیا:

’’ یارسول اللہ ﷺ ! مدینہ کے کچھ لوگ سورہ بقرۃ کی عدت والی آیت کے نزول کے بعد کہنے لگے کہ بعض عورتوں کی عدت کا بیان قرآن میں نہیں ہے چھوٹی، عمر رسیدہ جس کا حیض منقطع ہو چکا ہو اور حاملہ۔ تو سورہ طلاق کی یہ آیت نازل ہوئی : والئی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھرو الئی لم یحضن و اولاتُ الْأَحمالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ وَمَنْ یَتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہُ مِنْ أَمْرِہِ یُسرًا۔( الطلاق،آیت:۴)(فتح الباری، ج :۸، ص: ۲۵۴، لوح المعانی، ج: ۲۸، ص: ۱۲۸)

لہذا اس آیت میں واضح طور پران تینوں قسم کی عورتوں کا مسئلہ عدت بیان کر دیا گیا یعنی’’ تمھاری (مطلقہ) عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمھیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اوراسی طرح ان کی بھی جنھیں ابھی حیض آیا نہیں‘‘

علامہ ان کثیر نے’’ان ارتبتم‘‘کے سلسلے میں دو قول نقل کیا ہے جن کا خلاصہ یہ سے ہے اگر آیسہ عورت خون دیکھے پھر یہ شبہ ہو کہ یہ خون حیض کا ہے یا استحاضہ کا؟ تو اس کی عدت تین ماہ ہیں۔( کما قال مجاہد ابن زید) دوسراقول یہ ہے:وہ خون حیض کا ہے یا استحاضہ کا اس سے مطلب نہیں بلکہ شک اس میں ہو کہ خون آنے کی وجہ سے بقرہ کی آیت کے مطابق اس کی عدت تین قروء ہوں گی یا ناپھر کچھ اور؟ تو یہاں قول ثانی مطلوب و مقصود ہے۔ جب حکم عدت میں شبہ ہو اس کی عدت تین ماہ ہیں۔ سعید ابن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے یہی مروی ہے ابن جریر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اسے پسند کیا ہے۔ اور معنی کے اعتبار سے بھی یہی زیادہ اضح ہے۔ پھر اس موقوف اور فتویٰ کی تائید و تقویت میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ روایت پیش کی جو تفسیر طبری میں ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔

یارسول اللہﷺ ! إن عدد من عدد النساء لم تذکر فی الکتاب الصغار والکبار واولات الأحمال فأنزل اللہ: ’’و الئی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھرو الئی لم یحضن و او لاتُ الْأَحمالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ وَمَنْ یَتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہُ مِنْ أَمْرِہِ یُسرًا‘‘(تفسیر طبری ،ج:۱۲،ص:۱۳۳،سورۃ الطلاق،حدیث نمبر:۳۴۳۰۶،دار الکتب العلمیہ، بیروت،لبنان)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کی یارسول اللہﷺمدینہ کے کچھ لوگ سورۃ بقرۃ کی عدت والی آیت کے بعد کہتے ہیں کہ بعض عورتوں کی عدت کا بیان قرآن میں نہیں ہے (۱) چھوٹی بچی، عمر رسیدہ جس کا حیض منقطع ہو چکا ہو اور حاملہ۔ پھر سورہ نساء قصری (طلاق) کی یہ آیت نازل ہوئی۔

یہ ہے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی شان آپ نے سرکار ﷺ کی بارگاہ میں مسائل پوچھے اللہ عزو جل نے جواباً قرآن کی آیت نازل فرمادی۔

او پرتین قسم کی عورتوں کا تذکرہ ہوا تھا اور اب تک کی یہ تفصیل آیسہ عورت اور چھوٹی بچی کی عدت سے متعلق تھی۔ اوراب قسم ثالث یعنی حاملہ عورت کی عدت کا مسئلہ اورحضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کا موقف اورفتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

بیوہ عورت جو حاملہ ہو اس کی عدت میں اختلاف کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیت مبار کہ ہے

’’والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر وعشرا۔ (بقرۃآیت: ۲۳۴)

یعنی شوہراگرمرجائے تو بیوی کی عدت چارماہ دس دن ہیں ۔ خواہ عورت حاملہ یا نہ ہو سب کی عدت ۴ ماہ ۱۰ دن ہیں؛اس لیے کہ آیت عام ہے۔ اور سورۃ اطلاق کی آیت مبارکہ ہے’’ واولاتُ الْأَحمالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ‘‘اس آیت میں یہ کہا گیا کہ حاملہ عورت کی عد ت وضع حمل کے ساتھ ہی پوری ہو جاتی ہے۔ بقرۃ کی آیت سے معلوم ہوا کہ حاملہ ہویا غیر حاملہ سب کی عدت ۴؍ماہ ۱۰؍دن ہیں اور آیت طلاق سے یہ معلوم ہوا کہ عورت اگر غیر حاملہ سے تو اس کی عدت چارماہ دس دن تو ہے مگر حاملہ کی عدت وضع حمل سے پوری ہو جاتی ہے۔ اسی لیے حضرت علی اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھم نے یہ قول کیا’’ عورت نہ ۴؍ماہ ۱۰؍دن عدت گزارے نہ وضع حمل اس کے لیے عدت ہو بلکہ وہ’’ ابعد الاجلین '' والی عدت گزارے۔‘‘ ۴؍ماہ ۱۰؍دن کے اندر وضع حمل ہو جائے تو پورے ۴؍ ماہ ۱۰؍دن کی عدت گزارے اور اگر ۴؍ ماہ۱۰؍ دن گزر جائیں اور وضع حمل نہ ہو تواب وضع حمل تک انتظار کرے۔

علامہ ابن کثیر نے اس اختلاف کے بعد جمہور علمائے سلف و خلف کی رائے پیش کی کہ جو عورت حاملہ ہو اس کی عدت وضع حمل ہے اگر چہ طلاق کے بعد اور خاوند کی وفات کے اتنی دیر بعد جتنی دیر اونٹنی کے دوسری بار دوہنے کے لیے کرتے ہیں۔ پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت پیش کی کہ جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے دونوں عدتوں کے مسئلے کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: جو چاہے میں اس کے سامنے اللہ کی قسم اٹھانے کو تیار ہوں کہ آیت طلاق چارماہ دس دن والی آیت کے بعد اتری۔ پھر فرمایا حاملہ کی عدت یہ ہے کہ اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اسے جن دے۔ اسی فتوی پر متعدد دروایات نقل کرنے کے بعد اس فتوے کی تائیدوتقویت میں سب سے اخیر میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کا فتوی و موقف اور ان کی روایت پیش کی جسے جمہور علما ے سلف خلف نے پسند کیا اور اس پر فتوی دیا یہ روایت فتح الباری میں ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔

'' عن أبی بن کعب قال قلت للنبی صلی اللہ علیہ و سلم’’ اولات الاحمال أجلہن ان یضعن حملہن للمطلقۃ ثلاثا و للمتوفی عنہا قال ہی للمطلقۃ ثلاثا وللمتوفی عنہا‘‘(فتح الباری للعسقلانی،ج:۸، ص:۶۵۴،کتاب التفسیر،مکتبۃالغزالی،دمشق)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ حاملہ عورتوں کی عدت کا جو بیان ہے یہ تین طلاقی والیوں کی عدت ہے یا جس کا خاوند فوت ہوچکا ہو۔ پیارے آقاﷺ نے فرمایا یہ دونوں کی ہے۔ معنی شوہر مر گیا یا اس نے بیوی کو تین طلاق دے دی اور اس کی بیوی حاملہ ہے۔ تو دونوں صورتوں میں۔ شوہر مر گیا ہو یا اس نے تین طلاق دے دی ہو تو حاملہ بیوی کی عدت وضع حمل ہے۔(تفسیر ابن کثیر اردو ، ج:۴، ص :۶۴۷تا۶۴۹،مکتبہ رضویہ تقسیم کرادبی ،نیادہلی ،ملخصاً)

مذ کورہ بالا مسائل وفتاویٰ کے علاوہ استنباط و استدلال کے متعدد واقعات کتب سیرمیں پائے جاتے ہیں۔ عرض یہ کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے فقہ و اجتہاد سے مشکل سے مشکل مسائل کا حل فرمایا۔ دور دور سے آپ کے پاس فتاوی آئے مستفتیوں میں نہ صرف عوام بلکہ معزز اور فیض یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم بھی ہوتے۔ پھر آپ جو فیصلہ فرما دیتے وہ قبول عام بھی ہوتا۔ حضرت عمرو دیگر مجتہدین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین بھی بسا اوقات آپ ہی کے اقوال پر عمل کا حکم دیتے۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی قرآنی مہارت: حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ زمانہ رسالت ہی میں قرآن فہمی اور قراء ت دانی میں مشہور و معروف ہو چکے تھے۔ خود آقا ﷺ نے بھی آپ کے اس کمال کا اظہار فرمایا۔ جیسا کہ ’’استیعاب‘‘ میں مذکور ہے کہ حضور ﷺنے ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے تعلق سے یہ مسرور کن جملہ ارشاد فرمایا: ’’اقرأ أمتی ابی بن کعب‘‘

یعنی میری امت میں سب سے بڑے قاری حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب للقرطبی، ج:۱، ص:۱۶۲)

اعلام النبلاء میں ہے:

جمع القرآن فی حیاۃ النبی ﷺوعرض علی النبی ﷺ وحفظ منہ علما مبارکاً۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج :۳، ص: ۱۷۲، دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے بنی کریمﷺ کی حیات طیبہ ہی میں پھر قرآن جمع کر لیا تھا اور اسے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میںپیش بھی کر چکے تھے علاوہ ازیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ پیارے آقا ﷺ سے دیگر علوم مبار کہ بھی محفوظ کیا۔

خلیفہ ثانی حضرت عمر فار وق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

’’من اراد القرآن فلیات ابیا‘‘

یعنی جو قرآن سیکھنا چا ہے وہ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا: جمع القرآن علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم أربعۃ کلہم من الانصار ابی، ومعاذ، و زید بن ثابت و ابوزید۔

زمانہ رسالت میں انصاری سے چار لوگوں نے قرآن محفوظ کیا ابی بن کعب، معاذبن جبل ،زید بن ثابت اور حضرت ابو زید رضی اللہ تعالی عنھم (بخاری فی فضائل القرآن ،ج: ۲، ص: ۷۴۸، مجلس برکات، جامعہ اشرفیہ مبارک پور)

عبد اللہ بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ نے روایت کی کہ پیارے آقا ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے پوچھا کہ قرآن کریم کی سب سے مقدس اور معظم آیت کون سی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم نے کہا’’ اللہ و رسولہ اعلم ‘‘اللہ اور ان کے رسول ﷺ ہی جائے۔ آپ ﷺ نے کئی بار اسے دہرایا۔ ’’ثم قال أبی أیۃ الکرسی قال لیھنک العلم ابا المنذر ‘‘ جب کی نے جواب نہ دیا حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ وہ آیت آیۃ الکرسی ہے آقا علیہ السلام نے سنا تو کافی مسرور ہوئے اور ایک فرحت بخش جملہ ارشاد فرمایا ’’ لیھنئک العلم ابا المنذر‘‘ اے ابو منذر تمھیں یہ علم مسرور کرے۔ (مسند احمد بن حنبل،ج:۵، ص:۱۴۲)

جارود بن ابی سبرۃ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ پیارے آقاﷺنے ایک بار لوگوں کو( فجر کی) نمازپڑھائی۔دور ان تلاوت حضورﷺ سے ایک آیت چھوٹ گئی۔ پیارے آقاﷺنے اس کا احساس فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم سے اس کے متعلق پوچھا مگر کسی کا ذہن اس طرف نہ گیا۔ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ مسبوق تھے جب انھوں نے چھوٹی ہوئی نماز پوری کرلی تو بارگاہ دلنواز ﷺ میں عرض گزار ہوئے۔ حضور ﷺ آیت پڑھنا بھول گئے یا پھر وہ منسوخ ہو گئی ہے؟ آقا ﷺنے سہوکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’قد علمت ان کان أحد اخذہا علی فإنک انت ہو‘‘۔

اے ابی !مجھے معلوم ہے تمھارے سوا کسی کی توجہ اس طرف مبذول نہ ہوئی ہوگی۔ (ایضا، ج:۵،ص:۱۱۴)

اسی طرح خلیفہ ثانی حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے قرآنی معاملات میں بارہا آپ کی جانب رجوع کیا۔ تحقیق و تفتیش میں کبھی کبھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابی سے حجت اور بحث و مباحثہ بھی کر لی۔ کنز العمال میں اس طرح کے متعد واقعات مذکور ہیں۔ مثلاً: ایک روایت میںہے کہ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو ایک آیت سکھائی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شخص سے پو چھا کہ تم نے یہ آیت کس سے سیکھی؟ اس نے حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بذات خود سید القراء حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور اس آیت کے متعلق استفسار کیا۔ تو حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا میں نے آقا ﷺ سے ایسا ہی سیکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا مزاج چوں کہ تحقیق پسند تھا اس لیے پھر سے پوچھا کیا تم نے آقاﷺ کی زبانی سیکھا ہے؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اثبات میں جواب دیا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے پھر یہی سوال کیا۔ اب حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا:و اللہ یہ آیت خدا تعالی نے جبریل علیہ السلام پر نازل کی اور جبریل علیہ السلام کے ذریعہ قلب اطہر پر اتاری۔ اس میں خطاب اور اس کے بیٹے سے مشورہ نہ لیا تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کانوں میں ہاتھ رکھ کر تکبیر کہتے ہوئے ان کے گھر سے نکل گئے۔

تعلیم قرآن کے واسطے حضر ت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ شامیوں کی ایک جماعت مدینہ لے آئے۔ انھوں نے حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ سے قرآن پڑھا۔ ایک دان ایک شامی نے حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے کوئی آیت پڑھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ٹو کا تو اس نے کہامجھے حضر ت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی طرح سکھایا ہے۔

حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے ایک آدمی کواس شامی کا ساتھ کردیا اور ان کی معرفت حضرت  رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا بھیجا۔ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے آنے کا مقصد پو چھا تو انھوں نے قصہ بیان کر دیا۔ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ ان پر بگڑے اور کہا تم لوگ باز نہیں آؤگے! آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت اونٹ کو چارہ دے رہے تھے۔ ہاتھ میں چارہ تھا اور آستین چڑھے ہوئے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اسی حالت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے زید بن ثابت اور حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ دونوں سے وہی آیت پڑ ھوائی اور حضرت زید کی تائید کی۔ یہ واقعہ ''اعلام'' میں بھی قدر تغیر کے ساتھ مذکور ہے۔( سیر اعلام النبلاء للذہبی ، ج: ۳، ص: ۱۷۲، دار الکتب العلمیہ)

اس قسم کے واقعات جو آپ کے ساتھ پیش آنے لگے تو آپ نے حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: '' و اللہ یا عمر! انک لتعلم انی کنت احضر و تغیبون و ادنی و تحجبون و یصنع بی و یصنع بی!‘‘

خدا کی قسم اے عمر!تم خوب جانتے ہو میں آقا ﷺ کی بارگاہ میں ہر دم حاضر رہتا تھا اور آپ لوگ غائب بھی رہتے تھے میں اندر بہت تھا۔ اور تم لوگ باہر کھڑے رہتے تھے۔ آج میرے ساتھ یہ برتاؤ!آج میرے ساتھ یہ برتاؤ!واللہ اگر تم کہو تو میں گھر میں بیٹھارہوں نہ کسی سے بولوں نہ درس قرآن دوں یہاں تک کہ موت کی نیند سو جاؤں۔ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے کہانہیں! جب خدا نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ علم دیا ہے تو آپ شوق سے اس کی تعلیم فرمائیں۔(کنز العمال ، ج: ۲، ص: ۱۲۹۲،حدیث نمبر:۳۶۷۷۴)

فضائل وکمالات:

متعدد کتب سیر و احادیث میں بکثرت آپ کے فضائل وکمالات شرح وبسط کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں۔ اس مختصر مقالہ میں احاطہ تمام ایک ناممکن امر ہے۔ لہذا ہم صرف چند امتیازی خصوصیا ت قارئین کی نظر کرتے ہیں۔

حضرت ابی رضی اللہ تعالی مدینہ میں سب سے پہلے کاتب وحی تھے۔ اور آخر تک آپ ہی وحی لکھتے رہے۔ آپ کی موجودگی میں کوئی وحی نہ لکھتا جب آپ بھی حاضر نہ رہتے تو حضرت زید بن ثابت نبی ﷺ کو بلایا جاتا۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،ج:۱،ص : ۱۶۱)

یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے سارا قرآن زبان فیض رسالت سے سن سن کر حفظ کیا۔ آپ سیر اعلام النبلاء کی روایت ملاحظہ کر چکے کہ حضرت ابی بن کعب الی رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم ﷺکی زندگی ہی میں ہی قرآن جمع کر لیا تھا اگر بار گاہ ر سات مآب ﷺمیں اسے پیش بھی کیا اس کے سوا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور ﷺسے دیگر علوم مبارکہ بھی محفوظ کیے۔

غرض آپ تمام علوم میں مہارت تامہ رکھتے۔ آپ کا خاص فن فقہ و تفسیر تھافقہ میں اتنی مہارت تھی کہ عہد رسالت ہی میں مسند افتا پرجلوہ بار ہو ئے۔ اعلام میں مذکورہے’’ کان یفتی علی عہدہ‘‘۔(الاعلام لزرکلی، ج:۱، ص: ۷۸، طبع ثالث، بیروت)

آپ رضی اللہ تعالی عنہ پیارے آقا ﷺ کے چھ فقیہ اصحاب میں سے تھے۔ (معرفۃ الصحابہ، لابی نعیم اصبہانی، ج:۱، ص: ۲۱۲)

پیارے آقاﷺنے فرمایا:’’اقرؤہم ابی بن کعب‘‘

کا جملہ ارشاد فرما کر صحابہ میں سب سے بڑے قاری ہونے کی سند عطا فرما دیں۔

ایک مرتبہ پیارے آقاﷺ نے فرمایا اے ابی! اللہ تعالی نے مجھ سے فرمایا کہ میں تم کو قرآن سناؤ۔ حضرت ابی نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ! ’’اللہ سمانی لک ‘‘

یار سول اللہﷺکیا اللہ عزوجل نے میرا نام بھی لیا آپﷺ نے فرمایا ہاں! یہ سن کر فرط مسرت سے حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھوں سے آنسو آگئے۔ (الطبقات الکبریٰ،ج:۳ ، ص:۳۷۹)

حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقاﷺ نے فرمایا: چار لوگوں سے قرآن سیکھو!(۱) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ (۲) حضرت سالم رضی اللہ تعالی عنہ (۳) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ(۴) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ۔( بخاری شریف ،ج:۲،ص: ۷۳۵،مجلس برکات)

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب تراویح کی نماز باجماعت پڑھنے کا نظام قائم کیا تو حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ کو قوم کا امام منتخب کیا۔ (تاریخ الا سلام) قرآن کی تدوین اول میں حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اور تدوین ثانی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی آپ کو مجلس حفاظ و قراء کا ایک اہم رکن بنایا۔ آپ جس طرح ایک ماہر فقیہ، مجتہد، قاری اور مفسر تھے یونہی حدیث دانی میں بھی کافی مہارت رکھتے۔

آپ کے کمالات و خصوصیات کا ایک روشن باب یہ آئی ہے کہ اجلہ صحابہ و تابعین بلکہ وہ خاص اصحاب جن کا شمار فقہاے عشرہ میں ہوتا ہے وہ بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب رجوع فرماتے اور آپ کے گھر پہنچ کر مسائل دریافت کرتے۔ حضرت عمر،حضرت ابو موسیٰ اشعری حضرت انس بن مالک، خطر سے عبد اللہ ابن عباس، حضرت سہل بن سعد، حضرت سلمان بن صرد ،حضرت محمدطفیل حضرت عبداللہ، حضرت حسن بصری جیسے اجلہ اصحاب اور تابعین رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے فقہ، تفسیر، قراء ت اور حدیث میں آپ سے استفادہ کیا۔ (تہذیب التہذیب،ج:۱ ، ص:۲۰۴،دار الکتب العلمیہ)

درس و تدریس کے علاوہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ وعظ و نصیحت کی بھی کامل صلاحیت رکھتے۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والا ہر جملہ’’ از دل خیز دبر دل ریزد‘‘ کی تصویر ہوتا۔ ایک مرتبہ آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے: ''ان الدنیا فیہا بلاغہ و زادنا إلی الأخرۃ وفیہا اعمالنا التی تُجزی بہا فی الأخرہ‘‘

ایک شخص (جو جستجوے علم میں مدینہ آیا ہوا تھا) نے دیکھا تو آپ کے خطاب سے متاثر ہو کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے پو چھا یہ کون ہے ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ''ہذا سید المسلمین‘‘ یہ مسلمانوں کا سردار ہیں۔ (تاریخ الاسلام، ج :۳، ص :۱۹۴)

آپ کی دو کنیتیں تھیں :ایک ’’ابو المنذر‘‘ جسے خودپیارے آقا ﷺ نے عنایت کی تھی۔ اور ایک ’’ابو الطفیل ‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے بیٹے ’’طفیل‘‘ کی نسبت سے آپ کے لیے انتخاب فرمایا تھا۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج: ا ،ص: ۱۶۹)حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی خوب عزت و احترام کرتے آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیت المقدس کی صلح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ تھے اور مقام ’’جابیہ‘‘ میں آپ ہی نے کتاب صلح لکھی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ابی بن کعب سید المسلمین ہیں۔ (مصدر سابق)

آپ ہزار ہا مصروفیات کے باوجود ختم تلاوت قرآن فرمایا کرتے، حضرت ابو مہلب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ آپ آٹھ راتوںمیں ایک ختم قرآن پاک کرتے تھے۔ (طبقات الکبری، ج :۳، ص :۳۷۹)

وفات:

آپ کی سن وفات میں کافی اختلاف کیا گیا۔ علامہ ابن کثیر نے تمام اختلا فات کو ذکر کرنے کے بعد راجح اور اصح قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا: آپ کی وفات۳۰ھ میں شہادت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے پہلے بروز جمعہ کو ہوئی۔(البدایہ و النہایہلابن کثیر، ج:۴ ،ص:۳۴۰،فصل و اما کتاب الوحی ،دارالفکر، بیروت)

نیز اس اصح قول کی اصل طبقات، اصابہ، تاریخ اسلام، وغیرہ مستند کتب سیر میں بھی حضرت واقدی رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے منقول ہے: ’’قال الواقدی: وأثبت الاقاویل عندنا أنہ مات فی خلافۃ عثمان سنۃ ثلاثین ۔

Post a Comment

0 Comments