حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ
ولادت ۴۰۶..... وفات: ۸۱۵
نام: معاذ،
کنیت: ابوعبد الرحمن،
والد گرامی: جبل،
والدہ: ہندہ بنت سہل۔
نسب نامہ:
معاذ بن جبل بن عمر بن اوس بن عائذ بن عدی بن کعب بن عمر بن أدی بن سعد بن علی بن اسد بن شاردہ بن یزید بن جشم بن الخزرج ۔(الطبقات الکبری، ج:۷، ص: ۲۷۱، از محمد بن سعد، دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)
ولادت:
آپ کی ولادت با سعادت مدینہ منورہ میں ہجرت سے انیس سال قبل ۴۰۶ء میں ہوئی۔
قبول اسلام:
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا اس لیے جب مدینہ منورہ میں اسلام کی دعوت شروع ہوئی تو آپ نے اسلام قبول کر لیا۔ اور اس وقت آپ کی عمر ۱۸ سال تھی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج: ۵، ص: ۱۸۷، از: این اثیر ابوالحسن علی بن محمد جزری، دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)
تعلیم وتربیت:
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن کے زمانے ہی سے نہایت ذہین وفطین تھے، جب پیارے آقاصلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو آپ دامن رسول سے وابستہ ہو گئے اور چند ہی دنوں میں پیارے آقا کے فیضان نظر سے حسن تربیت کا اعلیٰ نمونہ بن گئے اور برگزیدہ صحابہ کی صفوں میں شامل ہو گئے۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم آپ سے اس قدر محبت فرماتے تھے کہ بسا اوقات آپ کو اپنے ساتھ اونٹ پر بٹھاتے اور اسرارو رموز کی باتیں بتا یا کرتے۔ ایک مرتبہ وہ پیارے آقاصلی اللہ علیہ و سلم کے ردیف تھے تو سر کار نے فرمایا ’’یا معاذ بن جبل‘‘ انھوں نے کہا '' لبیک یا رسول اللہ و سعدیک" آپ نے پھر ان کا نام پکارا اور انھوں نے پھر محبت بھرے انداز میں جواب دیا، اسی طرح تین مرتبہ آپ نے ان کا نام لیا اور وہ برابر لبیک کہتے رہے، اخیر میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص صدق دل سے کلمئہ توحید پڑھ لے اس پر دوزخ حرام ہو جاتی ہے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ !کیا میں لوگوں کو یہ بشارت سنادوں؟ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: نہیں، ورنہ لوگ عمل کرنا چھوڑ دیں گے۔ (بخاری شریف، ج:۱،ص:۲۴، مجلس برکات جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، سن طباعت:۲۰۰۷)
پیارے آقاصلی اللہ علیہ و سلم حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کس قدر شفقت فرماتے تھے اس کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اگر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی سوال نہیں کرتے پھر بھی آپ خود سے انھیں کچھ نہ کچھ بتانے کی کوشش کرتے ، چناں چہ ایک بار پیارے آقا نے حضرت معاذ کی پشت پر کوڑے یا عصا سے ٹھو کر ماری اور فرمایا '' جانتے ہو بندوں پر خدا کا کیا حق ہے"؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا '' اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں'' تو آپ نے فرمایا: خدا کا بندوں پر یہ حق ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور شرک سے اجتناب کریں‘‘ تھوڑی دور چل کر پھر پوچھا ''خدا پر بندوں کا کیا حق ہے؟ پھر انھوں نے عرض کیا ’’خدا اور اس کے رسول کو بہتر معلوم ہے '' تو آپ نے فرمایا: یہ کہ وہ ان کو جنت میں داخل کرے۔ (مسند احمد، ج: ۵، ص: ۲۳۸، از: امام احمد بن حنبل، دار الفکر)
غزوات میں شرکت:
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان ستر انصار میں سے ایک ہیں جو بیعت عقبہ میں شامل تھے، نیز آپ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ شریک رہے، جنگ بدر میں شرکت کے وقت آپ کی عمر بیس یا اکیس سال تھی۔ (الطبقات الکبری،ج: ۷، ص: ۲۷۲، از: محمد بن سعد، دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان)
ذات رسول ﷺ سے وابستگی:
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قدر لگاؤ تھا کہ پیارے آقا اگر ایک لمحے کے لیے بھی آپ کی نظر سے اوجھل ہو جاتے تو آپ بے چین و بے قرار ہو جاتے، جیسا کہ ذیل کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
"ایک بار پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کسی سفرمیں تشریف لے گئے ساتھ میں صحابہ کی جماعت تھی جن میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، پیارے آقا نے ایک مقام پر قیام فرمایا اور صحابہ کے مجمع سے نکل کر کہیں تشریف لے گئے، حضرت معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران و پریشان ہو کر شام تک انتظار کرتے رہے، جب آپ تشریف نہیں لائے تو حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لے کر آپ کی تلاش میں نکل پڑے، راستے میں ایک آواز آئی جب آپ نے دیکھا تو وہاں پیارے آقا موجود تھے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا تو فرمایا تم کیسے ہو؟ انھوں نے کہا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ ہمارے در میان موجود نہ تھے، اس لیے ہمیں خوف ہوا کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچ گئی، اسی وجہ سے ہم آپ کو ڈھونڈھنے نکل آئے۔ (ملخصاً مسند احمد، ج: ۵، ص: ۲۳۲، از: امام احمد بن حنبل، دار الفکر)
مقام فقہ واجتہاد:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ رب العزت نے ایسی جماعت عطا فرمائی جنھوں نے آپ کے اوصاف کو اپنے اندر محفوظ کیا ۔ ہر صحابی میں کوئی نہ کوئی صفت نمایاں تھی انھیں میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جن کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام و حلال کا سب سے زیادہ جاننے والا قرار دیا اور فرمایا : "أعلھم بالحلال و الحرام معاذ بن جبل "۔(جامع الترمذی ،ج:۲،ص:۲۲۰،باب مناقب معاذ بن جبل،مجلس برکات ، مبارک پور)
یعنی معاذ بن جبل میری امت میں حرام و حلال کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ پیارے آقا نے حضرت معاذ کو فقیہ کا ماہر قرار دیا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے فقہ و مجتہد ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ جب یمن میں عہدہ قضا سنبھالنے کی ضرورت در پیش ہوئی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کا حاکم مقرر کرکے بھیجا اور آپ سے دریافت فرمایا: "کیف تقضی اذ عرض لک قضاء قال أقضی بکتاب اللہ، قال: فان لم تجد فی کتاب اللہ، قال: فبسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، قال: فان لم تجد فی سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ولا فی کتاب اللہ، قال: أجتہد برأئی ولا آلو - فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صدرہ وقال: الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی رسول اللہ۔(سنن ابی داود، ج: ۲، ص: ۵۰۵، باب اجتہاد الرای فی القضا، مطبوعہ، ہندوستانی نسخہ)
ترجمہ: اے معاذ! یمن جاکر لوگوں کے درمیان کیسے فیصلہ کرو گے؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا: میں کتاب اللہ کے ذریعہ فیصلہ کروں گا، پھر پیارے آقا نے ارشاد فرمایا اگر وہ مسئلہ تمھیں قرآن میں نہ ملے تو؟ حضرت معاذ نے عرض کیا: سنت رسول میں اس کا حل تلاش کروں گا، آپ نے ارشاد فرمایا! اگر دونوں میں نہ ملے تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا میں کسی کو تاہی کے بغیر اپنی رائے سے اس کو حل کروں گا۔
پیارے آقا نے حضرت معاذ کے سینے پہ اپنا دست مبارک مارا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ !تیرا شکر ہے کہ تو نے اپنے نبی کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی جس سے اللہ کے رسول راضی ہیں۔
اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ سرکار دوعالم ﷺ میں یوں ہی نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کے مجتہد ہونے کی تائید و تصویب فرمائی ۔ اب اس حدیث کے ضمن میں چند اہم باتیں نظر قارئین ہیں۔
اس حدیث پاک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت معاذرضی اللہ تعالی عنہ مجتہد درجے کے صحابی تھے۔ آپ کو سر کار دو عالم ﷺ نے خود اجتہاد کی اجازت دی تھی اور دوسروں کے لیے آپ کے اجتہاد کو واجب القبول ٹھرایا۔
أن معاذا قدسن لکم سنۃ کذالک فافعلوا: تبھی تو پیارے آقا نے ایک موقع پر حضرت معاذ کے تعلق سے فرمایا۔(سنن ابی داود، ج: ۱، ص: ۷۴ ، مطبوعہ: ہندوستانی نسخہ)
معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے بے شک تمھارے لیے ایک راہ قائم کر دی ہے اب تم اس کی اقتدا میں چلو۔ناس سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم میں اس دورسے ہی فقہائے صحابہ کی پیروی چلی آرہی ہے۔
نیز یہ کہ سرکار دو عالم ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشاد فرمایا کہ لوگ آپ سے مسائل پوچھیں گے تو آپ کیسے بتاؤ گے؟ اس سے یہ ثابت ہوا کہ قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے بھی کسی مجتہد کاہوناضروری ہے جو نئے نئے پیش آنے والے مسائل کو حل کر سکے۔
اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ کہنا کہ اگر مسئلہ کتاب و سنت میں نہ ملے تو ’’أجتہد برائی‘‘ (میں اپنی رائے سے استنباط کروں گا)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ و مسائل جن کے بارے میں صراحتا قرآن وحدیث میں رہنمائی نہ لے ان میں رائے سے کام لینا کوئی معیوب یا معتوب نہیں،
حاصل یہ کہ حدیث پاک حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ ہونے کی روشن دلیل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسائل اجتہاد یہ میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو اجتہاد کا حکم ہے اور اہل یمن کو ان کی تقلید کا۔
حضرت معاذرضی اللہ تعالی عنہ کی باریک بینی کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پیارے آقا نے اونے کو چار لوگوں سے قرآن پڑھنے اور سیکھنے کا حکم دیا جن میںحضرت معاذ کا نام بھی شامل ہے پیارے آقاری نے تم: '' استقروالقرآن من أربعۃ من عبد اللہ بن مسعود، سالم مولی ابی حذیفہ، ابی ابن کعب و معاذ ابن جبل‘‘۔(صحیح البخاری ، ج:۱، ص: ۵۳۱،مطبوعہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور)
ترجمہ: چارلوگوں سے تعلیمات قرآن حاصل کرو: عبد اللہ الان مسعود، سالم مولی ابی حذیفہ ، ابی بن کعب و معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالی عنھم۔
یوں تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ علم و عمل کے پہاڑ اور فضل و کمال کے سمندر ہیں اس کے باوجود ان چاروں کو تعلیم قرآن کے ساتھ خاص کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآنیات کے سلسلے میں یہ حضرات ممتاز مقام و مرتبہ کے حامل ہیں ۔
اب ہم حضرت معاذ کی فقہی ژرف نگاہی پر دلالت کرنے والی چار اور مثالیں پیش کرتے ہیں۔
(۱)ابو مسلم خولانی نے کہا: میں مسجدحمص میں داخل ہوا اور اس مسجد میںتقریباً تیس بزرگ صحابی موجود تھے اور ان کے در میان ایک ایسا شخص موجود تھا جس کی آنکھیں سرمگی اور ذات چمک رہے تھے اور اور وہ خاموش بیٹھا تھا، جب لوگ کسی مسئلے میں الجھتے تو اس کی طرف رجوع کرتے ،جب میں نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ معاذ ہی بن جبل ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج:۱، ص: ۲۰، از: امام شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ذہبی، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
(۲) ٍپیارے آقا ﷺکے بعد حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے بھی خطرت معاذ کو فقیہ ہونے کی سند دی، چناں چہ مقام جابیہ میں لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
من اراد ان یسئل عن القرآن فلیات أبیأو من اراد أن یسئل عن الفرائض فلیات زیداً ومن اراد ان یسئل عن الفقہ فلیات معاذاً و من اراد ان یسئل عن المال فلیاتنی فان اللہ جعلنی لہ خازناً و قاسماً (مربع سابق)
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جو شخص قرآن کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتا ہے وہ ابی بن کعب کے پاس جائے، جو شخص فرائض کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتا ہے وہ زید بن ثابت کے پاس جائے، جو شخص فقہ کے متعلق جاننا چاہتا ہے وہ معاذ کے پاس جائے اور جس شخص کو مال کی چاہت ہو وہ میرے پاس آئے اس لیے کہ اللہ تعالی نے مجھے مال کا خازن و قاسم بنایا ہے۔
حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ عہد صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم میں علم فقہ کی کیا عظمت تھی اور مجتہد صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اجتہادی شان کے کیا چرچے ہوتے تھے۔
(۳) ابو بحیرہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں مسجد حمص میں داخل ہوا وہاں ایک نوجوان موجود تھا جس کے ارد گرد لوگ جمع تھے، جب وہ لوگوں سے گفتگو کر تا تو ایسا لگتا تھا کہ اس کے منہ سے نور پھوٹ رہا ہو اور چمکتے ہوئے موتی نکل رہے ہوں لوگوں نے مجھ سے بتایا کہ وہ معاذ بن جبل ہیں۔ (مربع سابق)
احادیث مذکور ہ پڑھنے کے بعد آپ کو اتنایقین تو ضرور ہو گیا ہو گا کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ممتاز فقہا میں ہوا کرتا تھا۔ اس ضمن میں حضرت اسود بن یزید کی حدیث بھی ملاحظہ کرتے چلیں۔
" عن الأسود بن یزید قال اتانا معاذ بن جبل بالیمن معلماً او امیر ًافسالناہ عن رجل توفی و ترک ابنتہ واختہ فاعطی الابنۃ النصف والاخت النصف "۔(صحیح بخاری، ج:۲، ص:۹۹۷، مجلس برکات ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور)
ترجمہ: اسود ابن یزید کہتے ہیں حضر ت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے یمن میں معلم یا امیربن کر آئے، ہم نے آپ سے پوچھا ایک شخص فوت ہو گیا اور اس نے ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی۔ آپ نے اس ترکہ کا ایک نصف بیٹی کو اور دوسرا نصف بہن کو دلوایا۔
حضرت معاذرضی اللہ تعالی عنہ نے جب لوگوں کو یہ مسئلہ بتایا تو لوگوں نے کسی دلیل کے مطالبہ کے بغیر محض ان پر اعتبار کرتے ہوئے یہ مسئلہ مان لیا۔
وفات:
حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات طاعون کی وجہ سے ہوئی، لیکن آپ کے سن وفات کے سلسلے میں دو روایت ملتی ہیں، ایک روایت کے مطابق آپ کی وفات ۱۸ھ اور ایک روایت کے مطابق۱۷ھ میں ہوئی۔ لیکن اول اصح ہے۔ اور آپ کی عمر کے سلسلے میں چار اقوال ملتے ہیں (۱) ۳۸ سال (۲) ۶ ۳ سال (۳) ۳۴ سال (۴) ۲۸ سال لیکن پہلا قول راجح ہے کیوں کہ اکثر مؤرخین نے اسے لفظ '' قال '' سے بیان کیا ہے اور باقی کو صیغئہ تضعیف کے ساتھ ذکر کیا۔
0 Comments