اکابرینِ امت کا مسائلِ فروعیہ میں اختلاف اور ان کی آپسی محبت
التماس: تحریر تھوڑی لمبی ہے مگر بڑے کام کی ہے لہذا گزارش ہے کہ اگر ہوسکے تو ایک بار ضرور پڑھیں ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین کہ
*(١) اگر کوئی حکم ضروریات دین یا ضروریات مذھب اھل سنت سے نہ ہو تو ایسے میں کوئی عالم دین اختلاف کرسکتا ہے یا نہیں؟*
*(٢) اگر نہیں تو کیوں؟*
*( ٣) اگر ہاں ! تو اس کے فتوی پر عمل کرنے والوں پر کوئی سخت حکم لگانا جائز ہے یا نہیں؟*
العارض :
خاکسار محمد ہاشم رضا اشرفی۔
علاقہ گوال پوکھر ، اتر دیناج پور بنگال ۔
*الجواب بعون المک الوھاب*
*اللھم ھدایة الحق والصواب*
یقینا امت محمدیہ بلکہ انسان مختلف الطبع پیدا ہوا ہے۔ اللہ نے بنی نوع آدم کو مختلف الطبائع والا بنایا ہے ، اسی لیے بہت سارے معلاملات ایسے ہوتے ہیں ہم انسانوں کی سوچ و فکر مختلف ہوتی ہیں ۔ آپ کی عقل کچھ کہہ رہی ہوتی ہے اور ہماری عقل کچھ اور ۔
جب ہم انسان سوچ و فکر ، عقل و علم اور ذہن و دماغ کے اعتبار سے آپس میں کافی تفاوت رکھتے ہیں تو پھر ہم میں لامحالہ اختلاف ہوگا ہی ۔ لیکن ہمارا اختلاف صالح نیت اور حسن مقصد پر مشتمل ہونا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو نیچا اور حقیر دکھانے کے لیے ۔ ہمارا اختلاف احقاق حق اور ابطال باطل کے اظہار و انکشاف کے لیے ہونا چاہیے ، جب ہمارا اختلاف امت کی صحیح رہنمائی اور قوم مسلم کی فلاح و بہبودی کے لیے ہونا چاہیے ، اور اسی طرح کے اختلاف کو اللہ کے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے کما قال النبی ﷺ :
"اختلاف امتی رحمة"۔
میری امت کا اختلاف رحمت ہے
(کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، جلد دہم : ص: ٣٦، حدیث نمبر : ٢٨٦٨٦)
لیکن یہ اختلاف تبھی رحمت ہے جب دل میں خوفِ خدا ہو معاملہ نیک نیتی پر مبنی ہو ، اختلاف کا سبب امرِ اجتھادی ہو اور اختلاف کرنے والے ماہرینِ شریعت ہوں تو ان سے صادر شدہ اختلاف کو رحمت کہا جائے گا ، اور اگر شرائطِ مذکورہ کا فقدان ہو تو پھر یہی اختلاف ؛ افتراق کا زینہ بن جاتا ہے۔ اور جو اختلاف انتشار بین المسلمین کا سبب بنتا ہے وہ اختلاف باعث رحمت نہیں بلکہ باعث زحمت ہے۔
اس مختصر سی تمہیدی کلمات کے بعد ہم اصل جواب کی طرف عرض کریں گے کہ
*ہاں!* اگر کوئی حکم ضروریاتِ دین یا ضروریاتِ مذھبِ اھلِ سنت سے نہ ہو اور وہ حکم غیر اصولی غیر منصوص اور غیر مجمع علیہ کی قبیل سے ہو تو اس حکم میں اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔
*ہاں!* اتنی بات ضرور ہے کہ کسی کے لیے خواہ وہ اہل علم سے کیوں نہ ، یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مسئلہ میں کسی مرجحِ شرعی کے بغیر ترجیح کی بات کریں ۔ مثلا : کوئی ایک قول کو دوسرے کے مقابلے میں محض اس وجہ سے ترجیح دے کہ اس مسئلہ میں علما کا اختلاف ہے ۔ اور فلاں نے یہ موقف اختیار کیا ہے ۔ اسی لیے ہم اس کو راجح و مختار سمجھتے ہیں اور دوسرے کے قول کو مرجوح اور غیر مختار ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے ۔ کیوں کہ یہ شریعت پسندی نہیں بلکہ شخصیت پرستی ہے۔ جس سے ہر ایک کو بچنا چاہیے۔
*واضح رہے کہ فروعی مسائل میں علما کے مابین بہت اختلاف ہیں*۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے کسی ایک قول کو اختیار کرنا یا ترجیح دینا ہر کسی کے لیے درست ہو ، بلکہ ترجیح دلائل و براھین اور صحیح قرائن کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ اور یہ حق صرف ایسے ماہرینِ شریعت کو حاصل ہے ، جو اجتھادی قوت رکھتے ہیں اور دلائل کی بنیاد پر کسی ایک قول کو ترجیح دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، جنھیں اصطلاح اصول فقہ و رسم افتا میں اصحاب ترجیح کہتے ہیں۔ یہ حق ہر کس و ناکس کو ہر گز حاصل نہیں ۔
بعض لوگ بعض اقوال کو محض خواہشات کی یا شخصی رغبت و دلچسپی کی بنیاد پر اپنا لیتے ہیں یہ بالکل درست نہیں ہے ۔
پھر ہم عرض کریں گے کہ مسائل فقہیہ فرعیہ میں علما کے درمیان اختلاف پر ان کے حق میں انکار و نکیر کا دروازہ نہ کھولا جائے ، بلکہ "ظنوا المؤمنین خیرا"۔ کے تحت حسن ظن رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو معذور سمجھا جائے ۔
نیز ہر ایک کو اپنا موقف بیان کرنے کی گنجائش دی جائے ۔ اگرچہ موافقت نہ کی جائے ۔
خاص کر ایسے موقع پر جب کہ کوئی دلیل قطعی موجود نہ ہو ۔ اور کسی کے لیے یہ ہرگز رواں نہیں کہ اختلاف میں حد سے تجاوز کر کے اپنے فریق مخالف پر فسق و الحاد ضلالت و گمراہی کا تیر چلانا دے اور تنگ نظری اور تحقیر جیسے مذموم حرکت کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے فریق مخالف کی شان کچھ بھی اناپ شناب بک دے ۔
مختلف فیہ مسائل میں کسی پر طعن جائز نہیں ، چہ جائے کہ اس پر کفر و ضلالت یا صلح کلیت کا حکم لگایا جائے ۔
*کہ فقہائے کرام کے نزدیک یہ بات مسلمہ اصول کی حیثیت رکھتی ہے کہ:*
"منصوص و مجمع علیہ میں اجتہاد و اختلاف جائز نہیں اور غیر منصوص غیر مجمع علیہ میں اجتھاد و اختلاف جائز و درست ہے۔
*اسی طرح کا قول امام غزالی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی کتاب "المستصفٰی" میں نقل فرمایا ہے چناں چہ آپ لکھتے ہیں کہ :* "المجتھد فیہ کل حکم شرعی لیس فیہ دلیل قطعی"۔ یعنی ہمارے لیے مجتھد فیہ ہر وہ شرعی حکم ہے جس کی کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو ۔ (بحوالہ منھج الاختلاف فی موقع الاختلاف بنام رحمت اختلاف ، ص: ۵٢)
*اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:*
"حلال کو حرام یا حرام کو حلال ، جو کفر کہا گیا ہے کہ وہ ان چیزوں میں ہے جن کا حرام یا حلال ہونا ضروریات دین سے ہے ، یا کم از کم نصوص قطعیہ سے ثابت ہو "۔
(فتاوی رضویہ ، جلد ١١/ ص: ۴۴)
*حضرت یحیی بن سعید انصاری تذکرۃ الحفاظ میں فرماتے ہیں کہ:*
"اہل علم توسع والے لوگ ہوتے ہیں ۔ اور ارباب افتا میں ہمیشہ اختلاف ہوتا رہا ، ایک حلال تو دوسرا حرام کہتا رہا ، لیکن کسی نے ایک دوسرے پر کوئی عیب نہیں لگایا"۔
ہر اختلاف مذموم نہیں ؛ بلکہ اختلاف محمود بھی ہوتا ہے ۔ *امام عبدالقادر بن طاھر البغدادی علیہ الرحمہ نے فرمایا كہ:* اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہائے کرام کے اختلاف کو مذموم نہیں کہا ؛ کیوں کہ یہ اصولِ دین میں متفق ہیں۔
(الفرق بین الفرق ، ص: ٦)
*علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے ’الاعتصام ‘‘میں لکھا ہے کہ:* "فاختلافهم فی الفروع كاتفاقهم فيها"۔ ان کا اختلاف ان کے اتفاق کے مثل ہے ۔(الاعتصام ، ج : ۲، ص: ۱٦٩)
لہذا ان عبارات مذکورہ بالا سے واضح ہوچکا کہ جو مسئلہ ضروریات دین یا ضروریات اہل سنت سے نہ ہو اور وہ مسائل فرعیہ میں سے ہوں تو اس میں شرعی تحقیق کی روشنی میں اختلاف کیا جانا جائز و درست ہے نیز فریق مخالف پر فسق وفجور کا حکم لگانا قطعا درست نہیں ۔ پس ایسے مسئلہ میں تقاضہ شریعت یہی ہے کہ جانبین میں سے کسی کی تضلیل و تفسیق نہ کی جائے اور نفس و ہوا نیز شخصیت پرستی سے دور ہوکر دلائل و براھین کی بنیاد پر کسی موقف کو اپنا جائے ۔ مسالک فقہیہ میں اپنے مسلک کو نہ چھوڑا جائے بلکہ اس پر سختی سے قائم رہے ؛ الا یہ کہ کوئی ضرورت شرعیہ متحقق ہو۔
یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ اختلافی مسائل میں تمام مذاھب مجتھدین کی رعایت مستحب ہے۔ اگر دگر مجتھدین کے مذاھب پر عمل سے اپنے مذھب کا کوئی مکروہ لازم آئے ، تب رعایت نہ کی جائے گی۔ جیساکہ
*امام اہل سنت اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ:*
”حتی الامکان چاروں مذھب ، بلکہ جمیع مذاھب ائمہ مجتھدین کی رعایت ہمارے علما ، بلکہ سب علما مستحب لکھتے ہیں ، مگر اس کے ساتھ ہی علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ یہ اسی وقت تک ہے کہ اپنے مذھب کے کسی مکروہ کا ارتکاب نہ ہو ، ورنہ ایسی رعایت کی اجازت نہیں۔” فی رد المحتار : لیس لہ ان یرتکب مکروہ مذھبہ لیراعی مذھب غیرہ کما مر تقریرہ اول الکتاب“۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد سوم ، ص : ٦٨٢/ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئ)
(فتاویٰ رضویہ: جلد ہشتم ، ص: ٢٩٧/ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
*اعلیٰ حضرت ، امام اھل سنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:*
”عبادات بشدت محل احتیاط ہیں اور خلاف علما سے خروج بالاجماع مستحب ، جب تک اپنے مذھب کے کسی مکروہ کا ارتکاب نہ لازم آئے ۔ کما نص علیہ فی رد المحتار وغیرہ“۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد ہشتم: ص: ٣١١)
ان عبارات سے واضح ہوا کہ فرعی مسئلہ میں دوسرے مذاھب سے اختلاف ہوجائے تو اس مسئلہ میں بھی ان مذاھب کا خیال رکھا جائے گا اس پر طعن و تشنیع کرنا روا نہ ہوگا
جب مختلف فیہ فرعی مسئلہ میں دگر فقہی مذاھب کی رعایت کا حکم ہے تو اپنے مذھب کے فقہائے کرام کے اختلاف کی رعایت اور اس کا خیال بدرجہ اولی کیا جائے گا ، خاص کر جب شرعی مصلحت اس کی متقاضی ہو ۔
*اس سلسلے میں سب سے معتبر* کتاب ہمارے علما کے لیے حضرت امام شعرانی کی کتاب ’’میزان الشریعۃ الکبریٰ‘‘ ہے۔ اس کتاب کو آدمی پڑھ لے تو فکر میں بھی وسعت پیدا ہوگی اور ذہن کو بھی مضبوطی ملے گی۔ اختلاف جھگڑے کا نام نہیں بلکہ عین دین ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اختلاف ہو ، اس لیے کہ اگر اختلاف نہ ہو تو بسا اوقات دین پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے ۔ وہ اسلام جو قیامت تک ایک آفاقی اور متحرک مذہب ہے ، اس کی بنیاد ہی اختلاف پر ہے۔ ائمہ مجتہدین کے زمانے سے پہلے صحابہ کرام کا اختلاف اس کی واضح دلیل ہے۔
*اختلاف کن مسائل میں ہوتا ہے؟*
ظاہر بات ہے کہ اختلاف اسی مسئلے میں ہوگا جو قرآن میں محکم اور مفسر نہیں ، کیوں کہ ظاہر میں اختلاف ہوسکتا ہے، محکم اور مفسر میں اختلاف نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح حدیث متواتر میں اختلاف نہیں ، مشہور میں اختلاف ہوسکتا ہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ تواتر میں بھی اس حیثیت سے اختلاف ہوسکتا ہے کہ وہ تواتر ہے کہ نہیں۔ مثلاً کسی قوم کے نزدیک کوئی بات تواتراً ثابت ہو اور دوسرے کے نزدیک تواتراً ثابت نہ ہو۔ حاصل یہ ہے کہ حدیث متواتر ، محکم اور مفسر میں اختلاف نہیں ہوتا۔ ظاہر میں اور نص میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ ان سب کی مثالیں بھی آپ کے سامنے ہیں۔
*اصول الشاشی میں پہلی مثال لفظ ’’قروء‘‘ کی آئی ہے۔* اس کا معنی امام اعظم کے نزدیک ’’حیض‘‘ ہے اور امام شافعی کے نزدیک ’’طہر‘‘ ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ کوئی حیض ، طہر نہیں ہوسکتا اور کوئی طہر ، حیض نہیں ہوسکتا ، دونوں کے مابین تباین اور تضاد ہے۔ اس کے باوجود دو اماموں نے یہ دو متضاد معنی بیان کئے ہیں۔ ہر ایک کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں ، ان دو میں سے کسی کو کوئی مردود نہیں کہتا۔ اسی اختلاف کو اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے۔
*فقہی اختلاف رحمت ہے!*
اب آپ اس اختلاف کی حکمت دیکھئے:
ایک مسئلہ ہمارے پاس آتا ہے کہ بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو پندرہ سال ، اٹھارہ سال کی عمر تک یا ایک بچہ پیدا ہونے تک حیض آیا پھر اس کو کسی بیماری کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا۔ اب اگر شوہر طلاق دے دے تو اسے عدت گزارنی ہے اور وہ عورت عدت گزار کر دوسری شادی کرنا چاہتی ہے کیوں کہ عدت تین حیض تھی اور حیض اس کو آہی نہیں رہے تو کیا اب وہ زندگی بھر شادی نہیں کرسکتی؟ آپ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اگر فقہی اختلاف نہ ہوتو بسا اوقات دین پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں رہ جائے گا اور دین اصلاح کے بجائے فساد کا ذریعہ بن جائے گا ، اسی لیے میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَة"۔
میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے۔
*آدابِ اختلاف*
ان ہی اختلافات کی مثال دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جب کسی مسئلے میں دو صحابی کے درمیان اختلاف ہوجاتا اور وہ آپس میں مباحثے کے لئے بیٹھتے اور اپنے اپنے دلائل پیش کرتے تو دیکھنے والا دیکھتا تو سمجھتا کہ اب زندگی میں ان دونوں کے درمیان کبھی کوئی ملاپ نہیں ہوگا، زندگی میں ان دونوں کے درمیان کبھی سلام و کلام نہیں ہوگا۔ وہ اپنے اپنے دلائل پیش کرتے، ان میں کسی ایک کی بات دوسرے کو سمجھ میں آجاتی تو قبول کرلیتا ، اگر سمجھ میں نہ آتی تو دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے لیکن مجلس سے اٹھنے کے بعد ان دونوں کا انداز یہ ہوتا تھا کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا کہ زندگی میں ان دونوں میں کبھی اختلاف ہوا ہی نہیں۔
اختلاف کے آداب میں سے یہ ایک ضروری ادب ہے کہ جب اختلاف ہو اور بحث کے میدان میں آیا جائے تو جانبین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہیں ، جب تک دوسرے کی بات ذہن قبول نہ کرلے، اس سے متفق نہ ہو، لیکن جیسے ہی اس مجلس سے اٹھے تو ایسا محسوس ہوکہ ان دونوں میں کبھی کوئی بات ہوئی ہی نہیں ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کا احترام پہلے کی طرح کریں۔ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم کے اختلافات اور طریقہ اختلاف سے سبق لینا چاہیے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسائل و احکام میں اس قدر اختلافات ہوئے ہیں کہ ان کا ضبط تحریر میں آنا ممکن نہیں ، تاہم اختصارٙٙا تقریب فہم ، تسلی قلب اور عصر حاضر کے علما کے درس و ہدایت کی غرض سے وہ اختلافات جو عہد رسالت و دور صحابہ سے ہوتے ہوئے تابعین تبع تابعین اور ہمارے متاخرین و قریب العہد علما میں واقع ہوئے ہیں ان کی چند نظیریں عہد بعہد ہم یہاں پیش کرتے ہیں ملاحظہ کریں اور سبق حاصل کریں کہ ان حضرات کے مابین کس قدر بے شمار فقہی و نظری اختلافات ہونے کے باوجود کتنی آپسی رواداری تھی؟ ، کتنا اتحاد واتفاق اور یکسانیت تھی ؟ یقینا اکابر کی یہ روش ہمیں یہ سبق دے رہی ہے کہ اختلاف صرف اور صرف رحمت ہے مجادلات و نزاعات کی جولانگاہ نہیں ۔
*عہد رسالت مآب ﷺ میں اختلاف*
چناں چہ
غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا نماز عصر سے متعلق آپس میں اختلاف ہوا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انھیں ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا "لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظة"۔ (صحیح بخاری: ۴٦، صحیح مسلم: ١٧٧ ، عن ابن عمر اللفظ للبخاری)
یعنی عصر تو بنی قریظہ ہی میں پڑھنی ہے۔
اگر اس اختلاف کی سببیت پر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ بعض حضرات نے آپ کے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا اور اس سے یہ اجتہاد کیا کہ جلدی کرنا اور بلا تاخیر چلنا ہے ، یعنی نماز عصر تک وہاں ضرور پہنچنا ہے ۔ اور اس حکم کا تعلق ادائے صلاة سے نہیں بلکہ جلد پہنچنے سے ہے ، لہذا انھوں نے راستہ ہی میں قضا ہو جانے کے خوف سے نماز پڑھ لی ۔ اور دوسرے بعض حضرات نے اس کو ظاہر پر رکھا اور اس کا مطلب یہ سمجھا کہ آپ نے مطلقا منع فرمایا ہے ۔ تو نتیجةٙٙ انھوں نے راستے میں نماز نہ ادا کی بلکہ بنو قریظہ ہی جا کر عصر کی نماز ادا کی ۔ جب حضور کو فریقین کے اس عمل کی خبر دی گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نہ کچھ کہا اور نہ خاطی قرار دیا۔
نیز سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ دفن پر بھی صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کی آراء میں اختلاف ہوا ، الطبقات الکبری میں امام ابن سعد علیہ الرحمہ نے اس مقام کو بڑے ہی بسط و تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔(الطبقات الکبری لابن سعد ، ج :۲، ص: ۲۹۲)
ایسے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فورا بعد جب مسئلہ خلافت میں اختلاف ہوا اور حضرات انصار رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین "سقیفہ بنی ساعدہ" میں جمع ہوئے ۔ بالآخر ان سب نے متفق ہو کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام تجویز کیا ، حالاں کہ بعد میں کافی بحث و تمحیص کے بعد تمام لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پر متفق ہو گئے ، بایں طور کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس بابت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی یاد دلایا اور یہ بتایا کہ (الائمة من قریش) یعنی خلیفہ تو قریش سے ہوں گے ، تو یہ سن کر حکم نبی کی تابعداری میں سبھوں نے اپنا اپنا ہاتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں دے کر انہی کو خلیفۃ المسلمین مان لیا (صحیح البخاری ، ٦٨٣، مسند احمد ١٨: البدایة والنھایة: ٨ ، ٨١ تا ٩٣)
منھج الاختلاف فی موقع الاختلاف بنام رحمت اختلاف، ص: ۵٢)
*دور خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ میں اختلاف*
ایسے ہی دور صدیقی میں مرتدین سے جنگ کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے درمیان بہت بڑا اختلاف ہوا ۔
چناں چہ بشمول حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ تمام صحابہ یہی کہہ رہے تھے کہ آخر جنگ کن لوگوں سے کی جائے ! تمام مرتدین سے یا صرف معنوی نے زکوۃ سے ؟
حضور عالی ! میرا مشورہ یہ ہے کہ نماز مانعین زکوۃ کی قبول کی جائے اور زکوۃ ان کے لیے چھوڑ دی جائے ، کیوں کہ وہ زمانہ جاہلیت کے قریب ہیں (نومسلم ہیں) حضرت ابوبکر نے لوگوں کی طرف دیکھا تو محسوس ہوا کہ سب عمر کی رائے سے اتفاق رکھتے ہیں ، تو حضرت ابوبکر اپنی جگہ سے اٹھے اور ممبر پر چڑھ کر حمد و ثنا کے بعد اپنے جذبہ ایمانی کا اظہار کرتے ہوئے نحیف الجسم ہونے کے باوجود حملہ آور شیر کی طرح گرجدار آواز میں حدیث نبی روایت کی ، "امرت ان اقاتل الناس۔۔۔۔۔۔۔۔الحدیث (مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت جنگ کروں ۔۔۔۔الاخ) اور فرمایا ! واللہ لاقتلن من فرق بین الصلوة والزکوة "۔( ملاحظہ ہو صحیح البخاری ، حدیث نمبر ٦٩٢۴، ٦٩٢۵ ، صحیح مسلم : ٢٠ ، البدایة والنھایة ٩/ ۴٣٧)
اللہ کی قسم میں ان سے ضرور جنگ کروں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔
پھر کیا تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرنے والوں سے جنگ کرنے پر ان کی قوت اصرار کو دیکھا اور سمجھا کہ ان کا نقطہ نظر بالکل درست ہے ، تو سبھی نے ان کی بات کو تسلیم کر لیا اور دیکھتے دیکھتے سب ایک رائے پر جمع ہو گئے اور اس طرح فتنہ مانعین زکوۃ کا سر حضرت صدیق اکبر کی دلیری اور جواں مردی نے دگر صحابہ کی قولی وفعلی موافقت سے کچل ڈالا ۔
(ملخصا از : منھج الاختلاف فی موقع الاختلاف بنام رحمت اختلاف، ص: ٩٢)
*شیخین حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنھما کے درمیان اختلاف*
اسی طرح مرتد اسیروں کے بارے میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنھما کے مابین اختلاف ہوا۔
چناں چہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے یہ تھی کہ مرتدین کی عورتوں کو قیدی بنایا جائے جب کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں آپ کے اس فیصلے کو منسوخ فرما دیا تھا ، اور انھیں یعنی مرتدین کی عورتوں کو ان کے گھر والوں کے حوالہ کر دیا تھا ۔ اس کے باوجود آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی پوری زندگی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی تنقید نہیں فرمائی ۔ کیوں کہ اجتہادی مسائل میں دونوں کا اپنا اپنا اجتہاد تھا ۔
ایسے ہی مفتوحہ اراضی کی تقسیم کے بارے میں دونوں کا اختلاف ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں مفتوحہ اراضی تقسیم کی گئیں اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں تقسیم نہیں ہوئیں ۔
(مرجع سابق ، ص: ٩٩)
*حضرت عمر فاروق و حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے درمیان اختلاف*
ان دونوں ہستیوں کے درمیان بہت سارے مسائل میں اختلافات ہوئے ہیں اور ان اختلافات کو اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی بیان کیا ہے۔
ان اختلافات کی چند مثالیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں ملاحظہ ہو !
*مسئلہ:* حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حالت رکوع میں اپنے دونوں ہاتھوں کی تطبیق کرتے تھے اور انھیں گھٹنوں پر رکھنے سے روکتے تھے ، جب کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھتے تھے اور تطبیق سے نہیں روکتے تھے ۔
ایسے ہی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی راے یہ تھی کہ اگر کوئی اپنی بیوی سے کہہ دے کہ "تم مجھ پر حرام ہو"۔ تو یہ یمین اور قسم ہے ۔ جب کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے طلاق مانتے تھے۔ (ادب الخلاف ۔ از : ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ المکی)
ابن قیم جوزی نے ان دونوں شخصیات کے بارے لکھا ہے کہ ان کے درمیان سو سے زیادہ مسائل میں اختلاف رہا ہے۔
(مرجع سابق ، ص: ١٠١)
*ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے درمیان اختلاف*
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف یہ تھا کہ محرم جب خوشبو لگائے تو اس کے جسم سے خوشبو نہیں آنی چاہیے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : یرحم اللہ ابا عبد الرحمن کنت اطیب رسولﷺ فیطوف علی نسائہ ثم یصبح محرما ینضح طیبا"۔ (بخاری : ٢٦٧ ، مسلم: ١١٩٢، واللفظ للبخاری) ترجمہ: اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن پر رحم فرمائے! میں رسولﷺ کو خوشبو لگایا کرتی تھی اور آپ ﷺ تمام ازواج کے پاس تشریف لے جاتے ۔ اور پھر صبح حالت احرام ہی میں کرتے اس حال میں کہ آپ کے جسم اطہر سے خوشبو آرہی ہوتی تھی۔
*حضرت عبد اللہ بن عمر کا اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے اختلاف*
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے منع فرماتے تھے کہ کوئی شخص عمرہ اور حج ایک ساتھ کرے ۔ اور ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے جائز قرار دیتے تھے چناں چہ حضرت سالم بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ : انہ سمع رجلا من اھل الشام وھو یسئل عبد اللہ ابن عمر عن التمتع بالعمرة الی الحج ، فقال: عبد اللہ بن عمر ، ھی حلال۔ فقال الشامی : ان اباک قد نھی عنھا ۔ فقال : عبد اللہ بن عمر ارائیت ان کان ابی نھی عنھا وصنعھا رسولﷺ امر ابی یتبع ام امر رسولﷺ ؟ فقال الرجل : بل امر رسول ﷺ ۔ فقال : لقد صنعھا رسول ﷺ "۔ (جامع ترمذی: ج، ١/ ص: ١۴١) ترجمہ: انھوں نے شام کے رہنے والے ایک شخص کو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے حج کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا تو ، حضرت ابن عمر نے فرمایا : یہ جائز ہے۔ تو اس نے کہا : کہ آپ کے والد ماجد نے تو اس سے منع فرمایا ہے؟ تو حضرت ابن عمر نے فرمایا: میرے والد منع کرتے تھے ، حالاں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کیا ہے ۔ میں اپنے والد کی پیروی کروں یا اللہ کے رسول کی؟ اس شخص نے کہا: رسولﷺ کی ۔ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا: (ہاں) بلاشبہ رسولﷺ نے اسی طرح کیا ہے۔
*حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کا جمہور صحابہ سے اختلاف*
امام بخاری ذکر کرتے ہیں : "لم یر ابن عباس بالقراة للجنب باسا"۔ (بخاری : جلد اول ، ص:۴۴) ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنبی شخص کے لیے قرات کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ان کے برعکس حضرت علی ، حضرت عمر اور دگر کئی صحابہ و تابعین سے یہ روایت منقول ہے " لایقرا الجنب القرآن"۔ ترجمہ: جنبی (ناپاک) شخص قرآن شریف نہیں پڑھ سکتا۔
*حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے اختلاف*
امام بخاری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن زید نخعی فرماتے ہیں:
صلی بنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بمنی اربع رکعات فقیل فی ذٰلک لعبد اللہ بن مسعود فاسترجع ثم قال صلیت مع رسول ﷺ بمنٰی رکعتین وصلیت مع ابی بکر بمنٰی رکعتین و صلیت مع عمر بن خطاب بمنٰی رکعتین فلیت خطی من اربع رکعات رکعتان متقبلتان"۔ (بخاری ، جلد اول ، ص: ۴٧) ترجمہ : ہمیں حضرت عثمان نے منٰی میں چار رکعتیں پڑھائی اس کا تذکرہ حضرت ابن مسعود کے پاس کیا گیا تو انھوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون " پڑھا پھر فرمایا میں نے رسول ﷺ کے ساتھ منٰی میں دو رکعتیں پڑھیں پھر ابوبکر کے ساتھ منٰی میں دو رکعتیں پڑھیں پھر عمر بن خطاب کے ساتھ منٰی میں دو رکعتیں پڑھیں ۔ کاش چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں میرا حصہ بن جائیں ۔
*حضرت زید بن ثابت ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود اور جمہور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے درمیان اختلاف*
حضرت بن ثابت ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود اور جمہور صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم اس بات کے قائل تھے کہ دادا کے ہوتے ہوئے سگے بھائی بہن اور باپ شریک بھائی بہن میراث پائیں گے ۔ جب کہ حضرت ابوبکر صدیق اور دگر کئی صحابہ جیسے حضرت عبد اللہ ابن عباس ، حضرت عبد اللہ ابن زبیر ، حضرت حذیفہ بن الیمان ، حضرت ابوسعید خدری ، حضرت ابی بن کعب ، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت ابو موسی اشعری ، حضرت ابوھریرہ اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم وغیرھم کا موقف کہ سگے بھائی بہن بھی اور باپ شریک بھائی بہن بھی دادا کے ہوتے ہوئے میراث نہیں پائیں گے یہی قول مفتی بہ ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کا موقف ہے ۔
چناں چہ حضرت علامہ سراج الدین محمد بن عبدالرشید سجا وندی حنفی لکھتے ہیں:
قال ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ ومن تابعہ من الصحابة بنوالاعیان وبنوالعلات لا یرثون مع الجد وھذا قول ابی حنیفة وبہ یفتی وقال زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ یرثون مع الجد وھو قولھما وقول مالک والشافعی رحمھما اللہ (سراجی ، باب مقاسمة الجد ، ص: ٢٩) ترجمہ: حضرت ابوبکر صدیق اور دگر آپ کے موافقین صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم نے فرمایا کہ سگے بہن بھائی اور باپ شریک بہن بھائی دادا کے ہوتے ہوئے وارث نہیں ہوں گے ۔ یہی امام اعظم رحمۃ اللہ کا قول ہے اور اسی پر فتوی ۔ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ وارث ہوں گے ۔ چناں چہ صاحبین اور امام مالک و امام شافعی رحمھم اللہ تعالٰی کا یہی موقف ہے۔
لیکن اس قدر اختلافات کے باوجود ان مقدس ہستیوں کی آپسی محبت میں کوئی کمی نہ تھی ۔ بلکہ نہایت ہی والہانہ تعلق قائم رہا ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آثار صحابہ اور سیر و اخلاق کی کثیر کتابیں ان حضرات رضی اللہ تعالٰی عنھم کے ختلافات فی المسائل سے بھری پڑی ہیں ۔ مگر ان کے مابین محبت و اخوت ، تعظیم وتکریم کے ذریں نقوش نے سیر و اخلاق کی ان کتابوں میں ایک مخصوص چھاپ چھوڑی ہیں ۔
*تابعین عظام کے صحابہ کرام سے اختلافات کی چند مثالیں*
*حضرت عطا ، طاوس اور مجاہد رحمھم اللہ تعالی کا حضرت عائشہ ، حضرت علی اور حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنھم سے اختلاف*
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت علی اور حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنھم اس بات کے قائل تھے کہ حج کے بعد عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے(مصنف ابن ابی شیبہ ، رقم الحدیث : ١٣١۵)
اس کے برعکس بعض تابعین جیسے حضرت عطا ، حضرت طاؤس اور حضرت مجاہد رحمھم اللہ تعالیٰ کا موقف یہ تھا کہ حج کے بعد عمرہ کرنا مکروہ ہے(مرجع سابق ، حدیث: ١٣٢٣)
*حضرت عطا کا جمہور صحابہ سے اختلاف*
حضرت علی حضرت حذیفہ اور کئی صحابہ اور تابعین رضوان اللہ عنھم کا یہ موقف تھا کہ جمعہ صرف شہر میں جائز ہے ۔ (مرجع سابق حدیث نمبر ۵٠۵٩ تا ۵٠٦٠) اس کے برعکس تابعی حضرت عطا گاؤں میں بھی جمعہ قائم کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ (مرجع سابق حدیث نمبر ۵٠٦٩ تا ۵٠٧٠)
*ائمہ تابعین کا حضرت عبد اللہ بن عمر سے اختلاف*
امام عبدالرزاق بن ہمام اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
"سئل ابن شھاب المتوفی عنھا وھی حامل علی من نفقتھا ؟ قال: کان ابن عمر یری نفقتھا ان کانت حاملا او غیر حامل فیما ترک زوجھا ، فابی الائمة ذٰلک وقضوا بان لا نفقة لھا"۔ (مرجع سابق ، حدیث ١٢١٣٨) ترجمہ: حضرت ابن شہاب سے اس عورت کے بارے میں پوچھا گیا جو حاملہ ہو اور اس کا خاوند فوت ہو گیا ہو اس کا نفقہ کس پر ہوگا ؟ حضرت ابن شہاب نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے بتایا کہ اس کا نفقہ شوہر کے ترکہ سے ادا کیا جائے گا خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ ۔ تو ائمہ نے اس کا انکار کیا (اور قول ابن عمر کے برعکس) یہی فیصلہ دیا کہ اس کے لیے نفقہ نہیں ہے ۔
مذکورہ ہستیوں کے مابین اختلاف آراء کے باوجود آپسی رواداری درجہ کمال تک تھی ۔ کچھ تو ماسبق میں گزری ویسے اس کے علاوہ اور بھی مثالیں ہیں :
مثلا حضرت علی و حضرت معاویہ و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھم کے آپسی معاملات اور خود جنگ صفین و جمل کے بعد بھی حضرت علی کا یہ قول "اخواننا قد بغوا علینا"۔ یعنی وہ ہمارے ہی بھائی ہیں جنھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے ۔ نیز حضرت امیر معاویہ کا اکثر مسائل میں حضرت علی سے استفتا کرنا وغیرہ اس بات کی واضح دلیل و ثبوت ہے۔ یعنی ان حضرات کے درمیان کسی نہ کسی طرح کے اختلافات تو تھے مگر وہ کسی وقت بھی تعصب و کینہ پروری کا موجب نہیں بنا تھا ، کیوں کہ مسائل وہ معاملات میں اجتھاد کرنے سے ان کی غرض حق کو پا لینا اور افضل الاعمال کو اختیار کرنا ہوتا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اختلاف رکھنے والوں کو معذور تصور کرتے تھے اور اس کی رائے کی تنقیص نہیں کرتے تھے اس کے زیر اثر ان میں چشم پوشی کی روح کو فروغ حاصل ہوا اور الحب فی اللہ کو تقویت حاصل ہوئی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے ان کے اعمال کو خصوصی برکت سے نوازا اور بے ثمر جدل و نزاع میں پڑنے سے بچا لیا ۔
ہمارے متاخرین وہ قریب العھد علما میں ان اختلافات کے سلسلے کی سب سے واضح اور بین مثال اعلی حضرت امام احمد رضا خا قادری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ہے اپ کی تحقیقات وہ فتاوے ہمارے اس دعوے پر شاہد و عادل ہیں کہ فروعی مسائل میں اکابر علما اور مشائخ سے علمی اختلاف کرنا جائز ہے ۔ فتاوی رضویہ شریف سے لے کر مختلف رسائل تک کئی تحریروں میں آپ نے بے شمار اکابر علما و محققین سے اختلاف فرمایا ہے ۔
اس کی حقیقت کی مزید وضاحت کے طور پر ذیل میں مفتی سید شجاعت علی قادری علیہ الرحمہ کے مقالہ سے اور مفتی نور اللہ نعیمی علیہ الرحمہ کے فتاویٰ سے وہ عبارات پیش کی جا رہی ہیں جنھیں شارح صحیح مسلم علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے حقائق شرح صحیح مسلم میں بالتفصیل بیان کیا ہے ۔
(ملخصا از : مرجع سابق ، ص: ١٠۴ تا ١٢٠)
*فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا اکابر سے اختلاف اور مفتی سید شجاعت علی قادری علیہ الرحمہ کی تصریح*
مفتی سید شجاعت علی قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "حقیقت یہ ہے کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے علمی ذخائر میں یہ تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں کیا کہ آپ نے کس کس سے اختلاف کیا ، بلکہ اصل وقت طلب کام یہ ہے کہ وہ کون سا فقیہ ہے جس سے مولانا نے بالکل اختلاف نہ کیا ہو ، اگر ایسا کوئی شخص نکل آیا تو یہ ایک بڑی تحقیق ہوگی ۔ مولانا ایک مجتھد کی طرح ہرذی علم سے اختلاف کرتے ہیں ۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے اختلاف میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جب یہ اختلاف کسی کوشش سے دفع نہیں ہوتا ، تب ایک مجتہد کی طرح آپ فریق مخالف کے غلطی پر ہونے کا ظن غالب کر لیتے ہیں اور اس کے بعد پھر کوئی رعایت اور سہل گیری یا کسی مروت کے قائل نہیں رہتے ۔
مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا بہت اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ متقدمین و متاخرین فقہاء اصولین پر نہایت فراغ دلی سے تنقید فرماتے ہیں ۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ صاحب فتح القدیر کو جگہ جگہ "محقق علی الاطلاق" لکھتے ہیں ۔ مگر جب یہی محقق علی الاطلاق وضو میں "بسم اللہ و ذکر الہی" کو واجب عمل قرار دیتے ہیں تو مولانا رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اقول لم یات استدل بشیء حتی سمع ما سمع" مستدل ابن ہمام نے کوئی معقول دلیل پیش نہیں کی یہاں تک کہ جو سنا گیا وہ سننا پڑا ۔
(ملاحظہ ہو فتاوی رضویہ ، جلد اول ص: ٢١)
پھر فرماتے ہیں:
"اور مسئلہ تسمیہ اولا تنہا محقق کی اپنی بحث ہے ، کہ نہ ائمہ مذھب سے منقول نہ محققین ما بعد را مقبول ۔ خود ان کے تلمیذ علامہ قاسم بن قلطوبغا" نے فرمایا کہ ہمارے شیخ کی جو بحثیں خلاف مذہب ہیں ان کا اعتبار نہ ہوگا ۔
آگے مفتی سید شجاعت علی فرماتے ہیں:
مذکورہ بالا سطور سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
(١) اگر کسی عالم کے پاس قوی دلائل ہیں تو وہ اپنے پیش رو سے حق اختلاف رکھتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا محقق علی الاطلاق کیوں نہ ہو ۔
(٢) ائمہ مذہب (جیسے امام اعظم ابو حنیفہ ابو یوسف و امام محمد) سے بھی اختلاف زمانہ کے باعث اختلاف جائز ہے۔
(٣) مولانا رحمۃ اللہ علیہ نہایت روشن دماغ تھے ۔ وہ محققین سے اختلاف کرتے بلکہ ائمہ مذہب سے بھی اختلاف زمانہ کے باعث اختلاف کو جائز قرار دیتے۔ اسی طرح آپ نے اپنے بعد والے اہل علم کے لیے یہ گنجائش باقی رکھی ہے کہ اگر اختلاف زمانہ سے ان کے بیان کردہ مسئلہ پر مزید بحث کی جا سکتی ہے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ۔ یعنی اگر کسی مسئلہ پر مولانا رحمت اللہ علیہ نے بحث کی ہو اور اس کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی ہو تو بعد والے محققین کے لیے راہیں مسدود نہیں ہو جاتیں ، بلکہ روشن ہو جاتی ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ ایک محقق کا کام انسانی ذہنوں میں گرہیں لگانا نہیں ، بلکہ ان گرہوں کو کھولنا ہے۔(ملاحظہ ہو مقدمہ فتاوی رضویہ جلد پنجم ص: ٢۴ تا ٣٠ ، شرح صحیح مسلم جلد ٧/ ص: ٢۵)
*فقیہ اعظم مفتی نور اللہ بصیر پوری رحمت اللہ علیہ کی تصریح*
آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے مجدد برحق کے صدہا نہیں بلکہ ہزارہا تطفلات ہیں ، جو صرف متاخرین نہیں بلکہ متقدمین حضرات جسے فقیہ النفس امام قاضی خاں وغیرہ کے اقوال و فتاوی شرعیہ پر ہیں ۔ جن میں اصول ستہ کے علاوہ سبقت قلم وغیرہ کی صریح تبیین بھی مذکور ہیں اور یہ بھی نہاں نہیں کہ ہمارے مذھب مہذب میں مجددین حضرات معصوم نہیں تو تطفلات کا دروازہ اب کیوں بند ہو گیا؟
کیا کسی مجدد ہی کی کوئی تصریح ہے یا کم از کم اتنی ہی تصریح ہو کہ اصول ستہ کا زمانہ اب گزر گیا؟
لہذا "لکیر کا فقیر بننا" اب فرض عین ہو گیا ہے؟ کیا تازہ حوادث و نوازل کے متعلق احکام شرعی موجود نہیں ؟ کہ ہم بالکل صم بکم بن جائیں اور عملا اغیار کے ان خرافات مزعومہ کی تصدیق کریں کہ معاذ اللہ اسلام فرسودہ مذھب ہے اس میں روزمرہ کی ضروریات زندگی کے جدید ترین ہزار ہا تقاضوں کا کوئی حل ہی نہیں ؟ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم (ماخوذ از حقائق شرح مسلم جلد ٧/ ص: ٢۵)
آگے جلد اول میں مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"اعلی حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ نے فتاوی رضویہ شریف میں اکابر مشائخ عظام پر بکثرت تطفلات کا ذکر فرمایا ہے حتی کہ پہلی ہی جلد میں ١٩/ سے زیادہ تطفلات ذکر کیے ہیں۔ مثلا صفحہ ٨٢٧/ جلد اول میں فرمایا "سبق قلم من الامام فقیہ النفس رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعة ورحمنا بہ فی الدنیا والآخرة ، آمین"۔ ترجمہ: امام فقیہ النفس کا قلم تجاوز کر گیا اللہ تعالی ان پر رحمت واسعہ فرمائے اور ان کی برکت سے ہم پر بھی دنیا اور آخرت میں رحم فرمائے آمین۔
اور پھر نہایت زریں ارشاد فرمایا:
"ولاعرف فلکل جواد کھوة ولکل صارم منوة ولا عصمة الا لکلام الالوھیة ثم النبوة"۔ (امام مذکور سے اگر میں نے اختلاف کیا تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیوں کہ ہر تیز رفتار گھوڑا ٹھوکر کھا جاتا ہے اور ہر تیز تلوار بھی کند ہو جاتی ہے عصمت صرف اور صرف اللہ اور رسول کے کلام کو حاصل ہے)۔
(ماخوذ از : حقائق شرح صحیح مسلم جلد ٧/ ص: ٢۵)
مذکورہ دونوں عبارات جلیلہ سے واضح ہو گیا کہ امام اھل سنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے اکابر علما و مشائخ سے بکثرت اختلاف راے فرمایا ہے اور اس اختلاف کے دوران کسی کے فقیہ اعظم یا محقق علی الاطلاق ہونے کا لحاظ نہیں فرمایا بلکہ دلائل و براہین کے ساتھ ان کی تحقیق کو غیر مقبول قرار دیا ہے ۔
مذکورہ بالا عبارات میں بالترتیب مفتی سید شجاعت علی قادری اور مفتی نور اللہ نعیمی بصیر پوری علیھما الرحمہ نے فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے حوالہ سے جو مثالیں پیش کی ہیں ان میں صرف محققین احناف سے اختلاف رائے کا تذکرہ ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی کثیر مسائل ایسے ہیں جس میں امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے اپنے اکابر اور اپنے عہد کے علما سے اختلاف کیا ہے ۔
(ملخصا از : مرجع سابق ، ص: ١٢٢ تا ١٢۵)
*ماضی قریب میں علما اور مشائخ کے درمیان فروعی مسائل میں ہونے والے اختلافات کی کچھ جھلکیاں*
فروعی مسائل میں اختلافات کے تعلق سے علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب علیہ الرحمہ نے ایک بڑی عمدہ تحریر ، مشائخ مارہرہ مطہرہ وہ علمائے بدایوں و بریلی شریف وغیرہم کے مابین پیش کی ہیں اس تحریر کی کچھ جھلکیاں ہم یہاں پیش کر رہے ہیں ۔
فرعی مسائل میں اختلاف کے سلسلے میں خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ ابوالقاسم محمد اسماعیل حسن عرف شاہ جی میاں قادری برکاتی مارہروی اپنے ایک مکتوب بنام حضرت مولانا عبدالقدیر عثمانی بدایونی کے اندر اپنے استاد جلیل تاج الفحول ، محب رسول حضرت مولانا عبدالقادر عثمانی بدایونی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
یہ خلاف اپنی اپنی سمجھ کے موافق ، ایک دینی فرعی مسئلہ میں ہے ۔ خدا نخواستہ ، کسی طرح رشتہ محبت اور مراسم قدیم میں اپنی جانب سے کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور نہ ہوگی ۔ آپ صاحبان کو اختیار ہے ۔ مسائل فرعیہ میں میرے اکابر سے اور آپ کے بزرگوں سے بھی بعض بعض میں اختلاف رہا ہے ۔ مثلا لعن یزید ۔ میرے بزرگ مجوز تھے ۔ اور حضرت استاذی تاج الفحول بدایونی قدس سرہ منع فرماتے تھے ۔
کفر ابی طالب میں میرے بزرگ ساکت ، مثل شیخ عبدالحق محدث دہلوی تھے اور حضرت استاذی تاج الفحول بدایونی قدس سرہ کافر جانتے تھے ۔
عینیت ذات و صفات باری تعالی وہ تقدس میں بھی کچھ لفظی اختلاف تھا ۔ اور بعض مسائل فرعیہ اور بھی ہیں ، جن کی تفصیل تطویل ہے ۔ "الخ۔ (مفاواضات طیبہ ص: ١٢ ، ١٣ ۔ مرتبہ تاج العلماء سید شاہ اولاد رسول محمد قادری برکاتی ماہروی ۔ دار الاشاعت برکاتی ، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ۔ ماخوذ از : فرعی اختلاف کی نوعیت و حیثیت ، از مولانا یٰسین اختر مصباحی ۔ دارالقلم ۔ص: ٢)
*اسی طرح مسئلہ اذان ثانی پر مولانا موصوف مزید نقل فرماتے ہیں:*
مسئلہ اذان ثانی کے موضوع پر ، حضرت سید شاہ ابو القاسم اسماعیل حسن قادری برکاتی مارہروی اپنی ایک طویل مکتوب بنام سردار نواز جنگ بہادر نواب سید سردار علی (ریاست حیدرآباد دکن) میں اس طرح تنبیہ و ہدایت فرماتے ہیں:
۔۔۔۔۔"مگر اس وقت آپ کی تحریر سے البتہ رنج ہوا کہ :
آپ نے بلا سمجھے ، اور بلا عمیق نظر ڈالے ، ایک رائے خلاف قائم کر لی یہ تو آپ خوب جانتے ہیں کہ:
جو نسبت آپ کو مولانا شاہ عبدالمقتدر بدا یونی صاحب رحمة اللہ علیہ سے دو پشت سے ہے وہی نسبت جناب مولانا عبدالمقتدر رحمۃ اللہ علیہ کو سید محمد میاں سلمہ سے پانچ پشت سے ہے ۔ اور ان شاءاللہ رہے گی ۔ آپ نے جو مسائل فقہیہ فرعیہ میں جو اختلاف ہوتا ہے اس سے کوئی ذاتی مخالفت اور پرانے تعلقات کو "سوہان روح ہونا کیسے مان لیا؟
اگر آپ کا یہ مستخرجہ نتیجہ مان لیا جائے تو صحابہ کرام سے لے کر آج تک کوئی آپس میں ایک دوسرے کو سوہان روح پہنچانے اور ذاتی مخالفت ہونے سے نہیں بچتا ۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے تلامذہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے سیکڑوں مسائل فرعیہ میں اختلاف رائے ہے۔
کیا وہ حضرات آپس میں خدا نخواستہ ایک دوسرے کے ذاتی مخالف اور عدو تھے ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ دیکھیے کہ میرے اور آپ کے آقائے معظم دستگیر اعظم ، حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ سے ہزاروں حضور کے غلام جانثار اور میں اور مولانا صاحب اور ہمارے اجداد قدست اسرارھما مسائل فقہیہ میں دوسرے مذھب کے پابند اور مقلد ہیں ۔ ہمارے حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ حنبلی تھے ۔ اور ہم سب حضور کے جانثار خدام حنفی ہیں ۔ تو کیا آپ کو ذاتی مخالفت ہے؟ اور حضرت کو سوہان روح پہنچاتے ہیں ؟ ہرگز ہرگز نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر یہی مخالفت ذاتی مخالفت ہے ۔
تو اول سیف اللہ المسلول حضرت مولانا فضل رسول بدایونی صاحب قدس سرہ اور تاج الفحول مولانا مولوی عبدالقادر بدایونی قدس سرہ
باپ بیٹوں استاد شاگرد پیر مرید میں بدرجہ اولی ہے ۔
حضرت مولانا مولوی فضل رسول صاحب قدس سرہ یزید پلید پر لعنت کرتے تھے اور ہمارے حضرت استاذی تاج الفحول بدایونی ساکتین میں تھے لعن نہیں کرتے تھے حالاں کہ حضرت استاذی تاج الفحول بدایونی قدس سرہ نے بارہا ، مجھ سے ارشاد فرمایا کہ حضرت والد ماجد سیف اللہ المسلول بدایونی مجھ کو اس مسئلہ کے بارے میں اکثر ارشاد فرمایا کرتے تھے مگر میرے ذہن میں نہیں آتا تھا ۔ یہاں تک کہ حضرت کو تیزی آجاتی تھی ۔ اس سے بڑھ کر اور یہ ہے کہ :
میرے حضرات قد ست اسرارھم بھی مجوزین لعن یزید تھے تو اگر یہ ذاتی مخالفت تھی تو حضرت استاذی قدس سرہ ہرگز گوارا نہ فرماتے ۔ کفر ابی طالب میں مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کا ایک رسالہ ہے ۔ اور اس میں کفر ثابت کیا ہے ۔
حضرت استاذی تاج الفحول بدایونی نے اس کی تصدیق فرمائی ہے ۔ میرے بزرگ قدست اسرارھم اس مسئلہ میں ساکت تھے ، جیسے شیخ عبدالحق محدث دہلوی ساکت ہیں ۔
اگر یہ ذاتی مخالفت ہے تو میرے سب بزرگوں سے ذاتی مخالفت قائم ہوتی ہے ۔ جو کسی طرح سے قابل قبول نہیں ہے ۔ اس مسئلہ کفر ابی طالب کا میں اول رسالہ دیکھا میں اتفاق سے اس وقت بدایوں تھا میں وہ رسالہ لیے ہوئے استاذی حضرت تاج الفحول بدایونی کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور عرض کیا کہ آپ نے بھی اس کی تصدیق فرمائی ہے؟
فرمایا کہ میری رائے میں راجح قول یہی ہے ۔ اگرچہ اہل بیت ایمان کی طرف گئے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ جب اہل بیت ایسا فرما گئے ہیں تو پھر یہ راجے کیوں ہے؟ فرمایا کہ اہل بیت سے مراد سادات زیدیہ(جو فرقہ روافض ہے ۔ محمد میاں) ہیں"۔ الی آخرہ (مرجع سابق: ص: ١٧، ١٨۔ (ملخصا از : مرجع سابق ، ص: ١٣٣ تا ١٣٨)
مندرجہ بالا دونوں مکتوب گرامی میں آپ نے بخوبی اندازہ لگا لیا ہوگا کہ حضرت سید شاہ ابوالقاسم اسماعیل حسن قادری مارہروی قدس سرہ نے اختلاف کے اخلاقیات اور اس کو نبھانے کی کتنی خوبصورت نظیر پیش کی ہے اور یقینا یہ کام اسی کا ہو سکتا ہے ، جس نے خانقاہ اور درسگاہ کی مشترکہ تربیت گاہ سے علوم و عرفاں کا جام پیا ہو۔
*اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے خلفاء کا اختلاف:*
اختلافات کے حدود و آداب اجمالاً آپ کے سامنے آگئے۔ اب آئیے میں بہت نیچے آجاؤں ، وہاں آجاؤں جہاں کسی کے لیے مجال دم زن نہ ہو۔ حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللہ علیہ مصنف ’’بہار شریعت‘‘ کے پیر و مرشد اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور وہ ان کے خلیفہ بھی ہیں۔ اسی طرح حضرت صدرالافاضل رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا برہان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ بھی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ تھے، مذکورہ تینوں حضرات کی ایک ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
*عورتوں کی زیارتِ قبور کے مسئلہ میں علمائے متقدمین و متاخرین کا اختلاف :*
حدیث پاک :
"کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزورھا"۔ اس سلسلے میں فقہائے متقدمین کے درمیان اختلافات ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کو مطلق رکھا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے اجازت ہے۔ بعض لوگوں نے فرمایا: نہیں ، صرف مردوں کے لیے اجازت ہے ، عورتوں کے لیے اجازت نہیں۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا مسلک اس طرح ظاہر کیا ہے: حرام ، حرام ، حرام ، یہ نہ پوچھ کہ جانے میں کیا ثواب ہے ، یہ پوچھ کہ جب وہ مزار کی زیارت کے ارادے سے گھر سے قدم نکالتی ہے تو اسی وقت سے اللہ اور اس کے رسول اور اس کے فرشتے کی لعنت شروع ہوتی ہے، جب تک کہ واپس پھر اپنے گھر میں قدم نہ رکھے۔
*عورتوں کا مزارات پر حاضری دینے کے سلسلے میں اعلی حضرت اور برہان ملت کے درمیان اختلاف*
مولانا برہان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ نے ایک بہت مفصل فتویٰ رسالے کی شکل میں لکھا کہ
*’’عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے‘‘* اور اس رسالے کو اصلاح کے لیے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا۔ میں نے وہ رسالہ تو نہیں دیکھا لیکن اعلیٰ حضرت کی تحریر دیکھی جس میں اس کا تذکرہ ہے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ برہان میاں نے عورتوں کے مزارات پر جانے کے تعلق سے جو اپنا رسالہ لکھا اور مجھے اصلاح کے لیے بھیجا ، ایک مدت تک تو موقع مل ہی نہیں سکا کہ دیکھتا ، بعد میں دیکھا ، جہاں استدلال میں کوئی کمی تھی ، اس کی تصحیح کردی ۔
*عورتوں کے مزارات پر جانے کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جو خود حرام لکھتے اور سمجھتے ہیں* اس کے خلاف لکھنے والے کی اصلاح و تصحیح فرمائی اور اضافہ و تکمیل اور تصدیق بھی فرمائی ، مگر اس کے بعد اپنا مسلک ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مگر بحال زمانہ میں اسے ناجائز و حرام سمجھتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی نفسہ جائز تھا۔ مگر اس زمانہ میں مقصد شرع کے خلاف ہو رہا تھا ، اس لیے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ناجائز قرار دیا لیکن چوں کہ فی نفسہ جائز تھا ، اسی لیے ڈانٹنے اور توبہ کرانے کے بجائے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس رسالہ کی تکمیل فرمائی۔
حالاں کہ مولانا برہان الحق علیہ الرحمہ ، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و شاگرد تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ چاہتے تو انھیں ڈانٹ سکتے تھے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔
*فتاوی شامی پر فتاوی رضویہ کو فوقیت دینے پر اعلی حضرت کی سبق آموز نصیحت*
حضرت صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کتنی عقیدت تھی جگ ظاہر ہے ۔ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ حضور صدرالافاضل نے جب فتاویٰ رضویہ (جلد اول) کا مطالعہ کیا تو بریلی آئے اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضور ! میں ایک طرف ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ دیکھ رہا ہوں اور ایک طرف ’’شامی‘‘، تو ایسا لگتا ہے کہ ’’شامی‘‘ کسی طفل مکتب کی لکھی ہوئی ہے اور فتاویٰ رضویہ ایک حکیم عالم کی لکھی ہوئی ہے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: مولانا ! ایسا نہیں ہے۔ اس فقیر نے بائیس مرتبہ ’’شامی‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے تب آج یہ حال ہے۔
اس طرح کی بات اگر آج کسی کے بارے میں کہہ دی جائے تو سننے والے بہت خوش ہوں گے کہ اس نے ’’شامی‘‘ سے مجھ کو بڑھادیا۔
*حادثہ فاجعہ کے وقت دعا قنوت رکوع سے قبل پڑھے یا بعد میں اس میں اعلی حضرت اور صدرالافاضل کے درمیان اختلاف*
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی حادثہ فاجعہ ہو تو فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھی جائے گی۔جب کہ یہ امام شافعی کا مسلک ہے۔ ہمارے یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں ہے ، صرف حادثہ فاجعہ ہو تو صحیح اور جائز ہے لیکن کب پڑھی جائے؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: رکوع سے پہلے جیسے وتر میں پڑھی جاتی ہے ، ویسے ہی پڑھی جائے گی۔
مگر صدرالافاضل رحمۃ اللہ علیہ نے رکوع کے بعد پڑھنے کا فتویٰ دیا ہے۔ اب بتائیے کس کو آپ بُرا کہیں گے؟ کس سے توبہ کا مطالبہ کریں گے؟ اعلیٰ حضرت سے یا صدرالافاضل سے؟ جیسے آداب یہاں ملحوظ رکھے جائیں گے ، وہی آداب آئندہ بھی اور آج بھی ملحوظ رہنا چاہیے۔
*دعائے قنوت کی جگہ سورہ فاتحہ پڑھنے میں اعلی حضرت اور صدرالشریعہ کا اختلاف*
صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کے مطالعے سے دو مسئلے ایسے نکلے جہاں صدرالشریعہ نے اعلیٰ حضرت سے اختلاف کیا۔ ایک مسئلے میں اختلاف تو بڑا دلچسپ ہے۔ اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا کہ کسی کو دعا قنوت یاد نہ ہو اور وتر میں دعائے قنوت پڑھنا واجب ہے ، اس کی جگہ اس نے کوئی اور دعا نہیں پڑھی ، سورہ فاتحہ پڑھ لی تو واجب ادا ہوا یا نہیں؟ اگر واجب ادا ہوگیا تو نماز ہوگئی اور اگر نہیں ہوا تو نماز لوٹانی چاہیے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ واجب ادا ہوگیا ، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
*فتاویٰ امجدیہ میں اس مسئلے کے بارے میں صدرالشریعہ سے سوال ہوا*۔ آپ نے فرمایا کہ واجب ادا نہیں ہوا ، نماز لوٹانی ہوگی۔ مگر ہمارے علما نہ تو صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہتے ہیں۔
*نماز چاشت کے لیے تیمم میں اعلی حضرت اور صدرالشریعہ کا اختلاف*
جب حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہار شریعت لکھی تو اس کے ابتدائی حصے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ںپیش کئے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی اصلاح فرمائی اور بہار شریعت لکھنے پر صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کو دعائیں دیں اور القاب سے نوازا۔ صدرالشریعہ کے بقول جہاں کہیں بھی صدرالشریعہ سے مفتیٰ بہ قول نقل کرنے میں چوک ہوئی ، وہاں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے قلم زد فرمایا اور جو مفتیٰ بہ قول تھا اس کی طرف رہنمائی فرمائی۔
اسی بہار شریعت میں چاشت کی نماز ، چاند گرہن کی نماز یا اس طرح کی دوسری نمازوں کے بارے میں مذکور ہے کہ اگر کسی کو یہ لگے کہ وہ جب تک وضو بنائے گا تب تک ان کا وقت ختم ہوجائے گا اور مکروہ وقت شروع ہوجائے گا ، ایسے شخص کو چاہیے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے ، کیوں کہ چاشت کی نماز ، سورج گرہن کی نماز اور چاند گرہن کی نماز فوت ہوجائے گی۔ اس لیے اس کے حق میں یہ تیمم کے لیے عذر ہے ، اسے چاہیے کہ تیمم کرکے ان نمازوں کو ادا کرلے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جنھوں نے بہار شریعت (تیسرا حصہ) ملاحظہ فرمایا اور صدرالشریعہ کی تعریف و توصیف کرکے اس پر تقریظ بھی لکھی لیکن وہ خود فتاویٰ رضویہ میں اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ ان نمازوں کے لیے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ خود تو ناجائز لکھ رہے ہیں ، صدر الشریعہ کے جائز کہنے پر ان کی تصدیق بھی فرما رہے ہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ کیوں کہ اعلیٰ حضرت جانتے تھے کہ یہ فقہی فروعی مسئلہ ہے ، اس میں جواز کی بھی گنجائش ہے اور عدم جواز کی بھی گنجائش ہے۔ ہمارے نزدیک قرائن کے اعتبار سے عدم جواز کو ترجیح حاصل ہو رہی ہے ، اسی لئے ہم نے عدم جواز کا حکم دیا ہے۔ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کا موقف بھی صحیح ہے کیوں کہ ان کے نزدیک قرائن کی روشنی میں جواز کا پہلو راجح ہے۔
*آج فقہی اختلاف پر ناراضگی کیوں؟*
*میرے بھائی!* اگر صدرالشریعہ علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ سے اختلاف کریں تو جائز ہے ، کیوں کہ مسئلہ فروعی ہے ، جس میں اختلاف جائز ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے کسی کو برا بھلا نہیں کہا جائے گا ، کسی کو جاہل نہیں کہا جائے گا، کسی کو گمراہ نہیں کہا جائے گا تو آج اگر کوئی آپ سے اختلاف کرے تو آپ اس کے پیچھے کیوں پڑجاتے ہیں کہ توبہ کرو؟ تمھاری اقتدا میں نماز نہیں ہوگی ، ایسا نہیں ، ویسا نہیں۔ کیا فروعی مسائل میں اختلاف کا دروازہ بند ہوگیا ہے؟ یہ نبوت تو نہیں ہے کہ نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ اجتھاد کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے ، ہاں ! واقعہ یہ ہے کہ اجتھاد کی جو شرائط ہیں ، وہ شرائط نہیں پائی جارہی ہیں ، اسی لیے کوئی مجتھد مطلق نہیں ہو پا رہا ہے۔ یہ نہیں کہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہونا تو شرعاً ممکن ہے۔ جب اجتھاد کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے تو تحقیق کا دروازہ کیوں بند کردیا جاتاہے؟
معلوم ہوا کہ فقہی فروعی مسائل میں اختلاف کی آزادی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا تھا جب تک میری بات تمہاری سمجھ میں نہ آجائے اور جب تک تمھیں ان کی دلیل معلوم نہ ہوجائے ، دل مطمئن نہ ہوجائے اس وقت تک میرے فتوے پر نہیں بلکہ اپنے اجتھاد پر عمل کرو۔
*ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جانیں کہ شریعت کا کسی مسئلے میں مقصد کیا ہے؟*
جب تک مقصد نہیں جانیں گے، اس وقت تک اختلاف کی حقیقت واضح نہیں ہوگی اور اس وقت تک اختلاف کرنا روا بھی نہیں ہوگا۔ اختلاف روا جب ہی ہوگا جب مقصد آپ کے سامنے ہو کہ شریعت ہم سے کیا چاہ رہی ہے اور ہمارے اختلاف سے اس مقصد کی تکمیل ہو رہی ہے یا مقصد کی تکمیل نہیں ہورہی ہے؟ تکمیل ہو رہی ہے تو اختلاف رحمت ہے اور اگر تکمیل نہیں ہو رہی ہے تو اختلاف ناروا ہے۔ جو ہم رتبہ نہیں ہیں ، ان کے لیے اپنے سے بڑے رتبہ والے کی اتباع لازم ہے ، لیکن جو ہم رتبہ ہیں ، ان کا آپس میں اختلاف کرنا جائز ہے ، اختلاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، مگر یہ اختلاف اس طرح ہونا چاہیے جس کا ذکر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا کہ جب دو صحابہ بحث کرتے تھے تو لگتا تھا کہ دونوں جانی دشمن ہیں ، کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے لیکن جب ملتے تھے تو لگتا تھا کہ کبھی ان دونوں میں کوئی اختلاف ہوا ہی نہیں ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم کے بعد تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیھم کو لیجیے ، خود ائمہ مجتھدین کو دیکھئے ، فقہ کی کوئی کتاب نہیں ملے گی جس میں ایک دوسرے کا رد نہ کیا جارہا ہو اور خاص کر ’ھدایہ‘ تو اسی لیے ہی لکھی گئی ہے تاکہ امام شافعی کی دلیل کو رد کیا جائے، امام مالک کی دلیل کو ناقص قرار دیا جائے ، حنابلہ کی دلیل میں کمزوری دکھا کر احناف کی دلیل کو ثابت کیا جائے۔ مخالف کی دلیل کو کمزور قرار دے کر اپنے امام کی دلیل کو مضبوط قرار دینے کے ہی مقصد سے یہ کتابیں لکھی گئیں اور یہ مقصد ان کا غلط نہیں تھا۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر مقلدیت وجود میں آجائے ، اس لیے جو جس امام کی پیروی کررہا ہے، اس امام کی دلیل اس کو سب سے زیادہ مضبوط معلوم ہو تاکہ وہ اسی پر قائم رہے۔ لیکن مقلد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی بھی حال میں وہ اپنے امام کا مسلک نہ چھوڑے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ بوقت ضرورت دوسرے امام کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے اس پر فتوی دیا جا سکتا ہے جیساکہ مفقود الخبر شخص کے متعلق امام مالک کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے اس کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے۔
*حاصل جواب یہ ہے کہ* مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہو چکی کہ اختلاف ایک امر مشروع ہے ۔
*پس اگر کوئی حکم ضروریات دین میں سے یا مذہب اہل سنت و جماعت کی ضروریات میں سے نہ ہو نیز وہ غیر اصولی غیر منصوص اور امت کا اس پر اجماع نہ ہوا ہو تو ایسے حکم میں اختلاف کیا جا سکتا ہے یہ شرعا جائز و درست ہے اور اختلاف کرنے والے پر فاسق و فاجر گمراہ و گمراہ گر وغیرہ جیسا حکم لگانا جائز نہیں*۔ جیسا کہ سطور بالا میں ثابت کیا جا چکا کہ دور نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر آج تک مسائل و احکام میں اختلاف کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ اور اس میں ہر زمانے کے نفوس قدسیہ (صحابہ ، تابعین ، سلف صالحین ، ائمہ دین و علمائے ربانیین) کے اختلافات فقہیہ فرعیہ صرف الدین النصیحة کے جذبہ حق سے سرشار ہو کر صادر ہوا کرتے تھے ، جس اختلاف میں ان کی جانب سے نہ کوئی تکبر اور ریاکاری ہوا کرتی تھی اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی رعب خاندانی ۔ اور یوں ہی نہ کوئی ذاتی ہمادانی کا دعوی ہوتا تھا ؛ بلکہ ان اختلافات میں تو ان کے مقاصد محض صحیح حکم و مسئلہ کی تلاش و جستجو ، خلوص و للہیت کے ساتھ ہوا کرتے تھے ۔
خاص بات یہ ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو اپنے کسی ایک قول یا فتوی کے ماننے پر مجبور بھی نہیں کیا کرتے تھے ، بلکہ باہم محبت و الفت نیز جانبین میں ایک دوسرے کا پاس و لحاظ ، ادب احترام ہمیشہ بحال رہتا تھا ؛ پھر چاہے وہ اختلاف صحابی سے صحابی کا ہو یا تابعی سے تابعی کا ، یوں ہی ائمہ مجتھدین سے فقہا وہ علمائے ربانیین کا ، یا اسی طرح اپنے سے کم علم والے کا زیادہ علم والے سے ہو یا پیر کا اپنے مرید سے یا مرید کا اپنے پیر سے ؛ غرض کے اختلاف کی ساری شخصی کٹیگری میں ان کے مابین آپسی محبت اور الفت ، مودت و رافت ، علمی و خاندانی پاس و لحاظ اور ادب و احترام برقرار رہتا تھا ۔
*تو پھر کیا بات ہے کہ مادیت کے اس پرفتن دور اور نازک ماحول میں* ہمارے درمیان علمی و فقہی اختلاف انتشار و افتراق میں بدلے جا رہے ہیں ، اس پر مزید حیرت و استعجاب کی بات یہ ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ امت مرحومہ مختلف محاذ پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوتی جا رہی ہے!!! فاعتبروا یا اولی الابصار۔
*ہم پھر کہتے ہیں کہ اختلاف رائے کی حیثیت اور حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ہم نے جو اب تک مثالیں سطور بالا میں پیش کی ہیں ان کی روشنی میں یہ حقیقت خوب واضح ہو چکی ہے* کہ صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ مجتدین اور علمائے محققین سب کے درمیان غیر معمولی مسائل و جزئیات میں اختلاف ہوا اور کسی نے بھی نہ تو فریق ثانی کی توہین کی اور نہ ہی کردار کُشی تک بات پہنچائی ، نہ ہی کسی بھی طرح کی بے ادبی کا کوئی شائبہ چھوڑا ؛ لہذا اگر کوئی شخص زمانہ بعد میں اپنی تحقیق دلائل کی روشنی میں ادب و احترام کے ساتھ اپنے متقدمین یا معاصرین سے کسی مسئلہ میں اختلاف رائے رکھتا ہے تو اسے اکابر کی توہین قرار دینے کی بجائے صحابہ کرام ، تابعین عظام ، ائمہ مجتھدین ، اور علمائے محققین کی اتباع پر ہی محمول کیا جائے گا ۔ اور کیا جانا چاہیے ۔ اور اگر ایسا نہ ہو ، بلکہ تعصب اور ہر دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا اور یہ عمل اللہ اور اس کے رسولﷺ کے غیر کے کلام کو بھی معصوم قرار دینے کے مترادف ہوگا ۔
*اعلی حضرت ، امام اھل سنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :*
"ولا عصمة الا لکلام الالوھیة ثم النبوة" ۔ یعنی عصمت صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے کلام کو حاصل ہے۔
*مزید اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:*
"انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام کے سوا کوئی بشر معصوم نہیں اور غیر معصوم سے کوئی نہ کوئی کلمہ غلط یا بے جا صادر ہونا کچھ نادر کالمعدوم نہیں ، پھر سلف صالحین سے آج تک اھل حق کا یہ معمول رہا ہے۔
کل ماخوذ من قولہ ومردود علیہ الاصاحب ھذا القبر ﷺ "۔ (فتاوی رضویہ قدیم ، جلد : ٦/ ص: ٢٨٣۔ فتاوی رضویہ جدید جلد ، ا۵/ص: ۴٦٧)
ترجمہ : اس روضہ پاک والے ﷺ کے سوا ہر ایک کا قول مقبول بھی ہوتا ہے اور مردود بھی ۔
*یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ* صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ مجتہدین اور محققین کا اپنے سے زیادہ وسیع العلم اکابر سے اختلاف رائے فرمانا ان کے اس عقیدے کی واضح دلیل اور اس کا اظہار ہے ۔ "ولا عصمة الا لکلام الالوھیة ثم النبوة" ۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی کا کلام معصوم نہیں ۔
نیز اس بات کی تائید اور توثیق ہے کہ کم علم والا اپنے سے زیادہ علم والے سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کر سکتا ہے ۔
*اس حوالے سے شارح صحیح مسلم حضرت علامہ غلام رسول سعیدی صاحب علیہ الرحمہ اپنی کتاب حقائقِ شرح مسلم جلد ہشتم ، میں رقم طراز ہیں کہ:*
"جس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے (میت پر رونے کے مسئلہ میں) اختلاف کیا ہے ، اس کے تحت علامہ ابن حجر مکی شافعی نے یہی لکھا ہے کہ اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا حضرت عمر کی جلالت علمی اور وسعت علمی کے باوجود ان سے اختلاف کرنا ، اس بات کی دلیل ہے کہ مجتہد دلیل کا پابند ہوتا ہے ، اور اس بنیاد پر وہ غیر کو خطا پر بھی قرار دے سکتا ہے ۔ اور اس کے موقف کے مبنی برخطا ہونے پر قسم بھی کھا سکتا ہے۔ (جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اختلاف کرتے ہوئے قسم کھائی ) اگرچہ فریق ثانی اپنے اختلاف کرنے والے سے زیادہ جلیل اور وسیع علم میں رکھتا ہو۔
*رئیس التحریر حضرت علامہ یاسین اختر مصباحی علیہ الرحمہ اپنے رسالہ "فرعی اختلاف کی نوعیت و حیثیت" میں یوں رقم طراز ہیں :*
"فرعی اختلافات علمائے اھل سنت و جماعت کے درمیان صدیوں سے ہوتے چلے آرہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ، یہ اختلافات اگر اخلاصِ نیت کے ساتھ علمی تحقیقی کی بنیاد پر ہوں تو باعثِ رحمت ہے ورنہ باعث ہزار زحمت ثابت ہوں گے ۔
یہ فقیر اشرفی ، گدائے جیلانی راقم الحروف اپنی معلومات کے مطابق جتنے اختلافات کو جانتا ہے اگر فقط انھیں اختلافات کو تحریر کردئے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی ۔ پھر چند مثالیں ناچیز نے بطور افادہ نذر قارئین کردیا ہے ۔ بس اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں انھیں بزرگان دین کی روش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ بجاہ سید المرسلین ﷺ ۔
نوٹ : اس تحریر کا اکثر و بیشتر حصہ شہزادہ غازی ملت ، تاج العلما حضرت علامہ سید نورانی میاں الاشرفی الجیلانی صاحب قبلہ کی کتاب " منھج الاختلاف فی موقع الاختلاف بنام رحمت اختلاف ماخوذ و مستفاد ہے۔
اختمت قولی بتوفیق اللہ تعالی وبعونہ و ھواللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم واحکم ۔
*کتبہ*
*العبد العاصی ، احقر العباد فقیر اشرفی گدائے جیلانی محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ*
خادم التدریس دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مفتی مرکزی دارالافتا و خطیب و امام گلشن مدینہ مسجد واگرہ بھروچ گجرات۔
٢٠/ذی الحجہ١۴۴۴/ ہجری ، ٩/جولائی ٢٠٢٣ عیسوی بروز اتوار۔
0 Comments