دخول اسلام کا پس منظر اور خاندانی دشمنی
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ عام الفیل کے چھٹے سال مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے. پانچویں پشت میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شجرہ نسب سے جا ملتا ہے. آپ ابتدائے اسلام میں ایمان لانے والوں میں سے ہیں اسی لئے سابقون الاولون میں آپ کا شمار کیا جاتا ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا خاندان بنو امیہ تھا جو اسلام اور مسلمانوں کا نہایت سخت دشمن تھا. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا حکم بن ابی العاص اسلام کے بڑے دشمنوں میں سے تھے۔
جب حضرت عثمان نے اسلام قبول کیا تو آپ کے چچا کو بہت غصہ آیا اور آپ کو پکڑ کر ایک رسی سے باندھ دیا اور کہا کہ تم نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر ایک دوسرا نیا مذہب اختیار کر لیا ہے. جب تک کہ تم اس نئے مذہب کو نہیں چھوڑوں گے ہم تمھیں نہیں چھوڑیں گے اسی طرح باندھ کر رکھیں گے.
یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا رب ذوالجلال کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو لیکن میرے دل سے دین اسلام نہیں نکل سکتا. حکم بن ابی العاص نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی استقامت سے مجبور ہوکر آپ کو رہا کردیا. (خلفائے راشدین).
حضرت عثمان شکل و صورت میں حضورعلیہ السلام سے مشابہت رکھتے تھے
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اعلی صفات کے حامل اور کامل الحیاء و الایمان تھے. آپ کے اخلاق عالیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے. آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے باطن کو حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں ڈھالا ہوا تھا .یہاں تک کہ آپ کا ظاہر ی شکل وصورت بھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت رکھتی تھی .چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ میں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے بہت مشابہت رکھتے ہیں( ابن عساکر).
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح کرنے کے بعد اپنی صاحبزادی سے فرمایا: تمہارے شوہر عثمان غنی تمہارے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمہارے باپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے شکل و صورت میں بہت مشابہ ہیں (کنزل العمال).
آپ کو ذوالنورین کہنے کی وجہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا لقب ذوالنورین ہیں. یہ وہ فضیلت ہے جو آپ کے سوا کسی کو بھی حاصل نہیں ہے. امام بیہقی روایت کرتے ہیں: کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی شخص کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں نہیں آئی اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہتے ہیں.
اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نور کی ،سرکار سے ،پایا ،دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا.
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نکاح پہلے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ سے کیا. حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو ان کے نکاح میں دے دی. آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عظمت و فضیلت کا یہ عالم ہے کہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بخدا میری اگر کوئی اور بیٹی ہوتی تو اس کو بھی عثمان کے عقد میں دے دیتا. (طبرانی) امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتی تو یکے بعد دیگرے میں تمہارا نکاح ان سب سے کر دیتا یہاں تک کہ کوئی بھی باقی نہیں رہتی.
جنت کی بشارت
آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات بےشمار ہیں، آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو دو مرتبہ جنت کی بشارت سنائی. چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم دو مرتبہ جنت خریدی ایک مرتبہ بیر رومہ خرید کر اور دوسری مرتبہ لشکر عسرہ میں جنگی سازوسامان دے کر (حاکم).
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایماندار اورسچے تاجر ہونے کی بدولت بہت دولت مند تھے آپ کی دولت سے مسلمانوں کو بہت نفع پہنچا. ہجرت مدینہ کے بعد میٹھا پانی کی کمی تھی، اس وقت میٹھے پانی کا فقط ایک ہی کنواں تھا جو ایک یہودی کی تھا. اس یہودی نے اس کنویں کو ذریعہ معاش بنایا ہوا تھا. غریب مسلمانوں کو پانی کی سخت تکلیف تھی، اس تکلیف کا احساس کرتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کو 8 ہزار میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا. اسی طرح جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنگ عسرہ کی تیاری کے موقع پر ایک ہزار دینار لے کر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر دو مرتبہ یہ جملہ ارشاد فرمایا: کہ آج کے بعد عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا(ترمذی).
واقعہ بیعت رضوان
ایک مرتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مقام حدیبیہ میں بیعت رضوان کا حکم فرمایا،تو اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے، لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی، جب سب لوگ بیعت کرچکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں ،پھر اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا یعنی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے خود بیعت فرمائی (ترمذی). شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا. یہ وہ فضیلت ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے (اشعۃ اللمعات). آپ نے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ حبشہ اور مدینہ دونوں جانب ہجرت کی. غزوہ بدر کے لئے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تیاری کر رہے تھے تو اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زوجہ کی طبیعت ناساز تھی، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں ہی رہنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا. غزوہ بدر میں آپ رضی اللہ عنہ کی عدم شمولیت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو بدری صحابہ میں شمار کیا اور بدر کے مال غنیمت سے حصہ عطا فرمایا.
خلیفہ سوم کا انتخاب
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو سیاسی فہم و بصیرت، ذکاوت، عقلمندانہ فیصلوں اور اعلی صلاحیتوں کی بدولت مسلمانوں کا تیسرا خلیفہ مقرر کیا گیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سب سے پہلے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے بیعت کی اور اس کے بعد تمام مہاجرین و انصار نے ان سے بیعت کی. آپ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی اسلامی فتوحات کا دائرہ برابر وسیع ہوتا رہا. آپ رضی اللہ عنہ کی حکومت کے پہلے سال ہی شہر"رے" فتح ہوا ۔جو فی زماننا ایران کا دارالحکومت ہے ۔(تاریخ الخلفاء) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی پہلی مرتبہ بحری جہازوں کے ذریعے قبرص پر حملہ کیا گیا آپ کے زمانے میں افریقہ،اسپین، خراسان، نیشاپور فتح ہوئے اور اسی طرح ملک ایران کے دیگر شہر طوس، سرخس، مرداور بیہق بھی صلح سے فتح ہوئے.
جمع قرآن
آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں قرآن کریم کی لغت یعنی قرآن پڑھنے کے انداز پر اختلاف شروع ہوا جو مسلمانوں میں انتشار کا باعث بنتا جا رہا تھا. آپ رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ کی حساسیت اور اہمیت اور اس کے سنگین نتائج کو جانتے ہوئے اعلی بصیرت اور ذکاوت سے اس معاملہ کی عقدہ کشائی کی،کہ آپ نے تمام قوموں کو لغت قریش پر جمع کر دیا اور دیگر اسلامی ممالک میں اس کی نقول بھجوا دیں، تاکہ آئندہ قرآن کریم کو صرف لغت قریش میں پڑھا جا سکے. اسی اقدام کی بدولت آپ جامع القرآن کے لقب سے بھی مشہور ہوئے.
حضرت عثمان غنی کی شہادت
آپ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت تقریبا بارہ سال رہا شروع کے سالوں میں آپ کے خلاف کوئی بغاوت نہیں ہوئی. لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حاسدین کا پیمانہ حسد بڑھنے لگا اور آپ کے خلاف بغاوت شروع ہوگی، یہاں تک کہ بلوائیوں نے آپ کو شہید کرنے کا ارادہ کرلیا بالآخر ایک دن آپ رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں تلاوت قرآن سے اپنے قلب کو منور فرما رہے تھے کہ اسی اثنا میں چند بلوائیوں نے انتہائی سخت نگرانی کے باوجود آپ کے گھر میں گھس کر آپ کو انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا. انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ان شاء اللہ بہت جلد ،خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ،خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے بالترتیب مضامین اس ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے جائیں گے۔
4 Comments
اللہ تعالی آپکی ان تمام محنتوں کا
عطا فرمائے جزاۓ خیر